ہفتہ ‘ 23؍ جمادی الاوّل‘1439 ھ ‘ 10؍ فروری 2018ء
قدیم انگریز سانولے رنگ کے تھے۔ جدید تحقیق
جدید سائنسی تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ دس ہزار سال قبل انگریزوں کی جلد خاصے گہرے رنگ کی تھی۔ برطانیہ میں سفید رنگت والے انسان آج سے تقریباً چھ ہزار سال قبل مشرق وسطیٰ سے یورپ داخل ہوئے۔ انگریزوں کو اپنی چٹی چمڑی پر بڑا ناز تھا۔ نو آبادیاتی دور میں، مقامی باشندوں کو خاطر میں ہی نہیں لاتے تھے۔ انہوں نے دُنیا کے وسیع رقبے پر حکومت کی۔ ملکہ وکٹوریہ کے زمانے میں، بیسویں صدی کے ابتدائی برسوں میں سلطنتِ برطانیہ پر سورج نہیں غروب ہوتا تھا۔ سلطنتِ انگلیشیہ میں ہر رنگ اور ہر نسل کے لوگ تھے۔ لیکن انگلستان کی معاشی ترقی کا باعث ہندوستان تھا۔ جسے اُس زمانے میں سونے کی چڑیا کہا جاتا تھا۔ انگریزوں نے ڈیڑھ سو سال کی حکومت کے دوران سونے کی چڑیا کو اس طرح نچوڑا کہ ہندوستان غریب ہوتا گیا اور برطانیہ امیر۔ 1940ء کا بنگال کا قحط ہندوستانیوں کی غربت کا نقطہ عروج تھا جس میں لاکھوں افراد بھوک کے ہاتھوں لقمۂ اجل بنے۔ بہتر ہوتا، انگریز سانولے ہی رہتے، کم از کم دُنیا اُن کی غلامی سے تو بچی رہتی۔ دنیا بھر کو غلہ فراہم کرنے والے ہندوستانی لاکھوں کی تعداد میں بھوک سے تو نہ مرتے۔ اور ہم لوگ گورا صاحب کی باقیات ’’کالا صاحب، بابوئوں ، جاگیرداروں ، وڈیروں اور ٹوڈیوں‘‘ ایسی بلاؤں سے تو محفوظ رہتے۔
٭…٭…٭…٭
بھارت: بیوی کا گردہ چرانے کا الزام، شوہر اور اُس کا بھائی گرفتار
ایف آئی آر کے مطابق بیوی نے شکایت کی ہے کہ اس کے شوہر نے والدین کی جانب سے جہیز نہ دینے پر اس کا گردہ بیچ دیا۔ خاتون کی بدقسمتی کہ دو سال قبل اُسے اپینڈکس کی شکایت ہوئی جس کا اپریشن اُس کے شوہر نے کرایا۔ بس اُسی دوران اُس کا دائو لگ گیا اور بے چاری، قسمت کی ماری ’’ریتا سرکار‘‘ کو والدین کے افلاس کی سزا بھگتنا پڑی۔ مسز ریتا سرکار کو بھگوان کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ جہیز نہ لانے کی پاداش میں ا’سے اپنے گردے سے ہی محروم ہونا پڑا، ورنہ ہزاروں ناریاں اس جرم بے گناہی میں، موت کے گھاٹ اُتار دی گئیں، یا پٹرول چھڑک کر زندہ جلا دیا گیا۔ جہیز کی لعنت میں بھارت ہی نہیں، پورا برصغیر جکڑا ہے۔ پاکستان میں چند برس قبل، مٹی کے تیل کے چولہے پھٹنے کے آئے دن واقعات ہوتے رہتے تھے۔ عجیب بات یہ تھی کہ شوہر، سسر، ساس، نندیں، سب بچ جاتیں اور زد میں صرف نوبیاہتا دلہن ہی آتی۔ اگر بدقسمت خاتون کے میکے والے اس سانحہ پر صبر شکر کر کے بیٹھنے والے نہ ہوتے تو معاملہ پولیس تک پہنچتا اور انکشاف ہوتا کہ دُلہن چولہا پھٹنے سے نہیں جلی بلکہ اُسے جان بوجھ کر آگ لگائی گئی ہے، اور اُس کا قصور یہ ہے کہ وہ جہیز میں ریفریجریٹر اور واشنگ مشین یا اس قبیل کی کوئی اور چیز لے کر نہیں آئی۔ بعض لوگ ’’جن کے حوصلے ہیں زیاد‘‘ تو وہ کار اور کوٹھی تک کا مطالبہ کر دیتے ہیں۔
٭…٭…٭…٭
خواجہ سرا بن کر بھیک مانگنے والے لڑکوں کا گروپ پکڑا گیا
سٹی ٹریفک پولیس (لاہور) نے ان دنوں سگنلز پر بھیک مانگنے والے گداگروں کے خلاف مہم شروع کر رکھی ہے۔ اُن کا دعویٰ ہے کہ مہم بڑی کامیابی سے جاری ہے اور اس کا بڑا ثبوت یہ بتایا ہے کہ پولیس نے لڑکوں کا گروپ پکڑا ہے جو خواجہ سرا بن کر بھیک مانگ رہا تھا۔ ٹریفک پولیس کی ’’ژرف نگاہی‘‘ کی داد دینا پڑے گی کہ اُس نے نقلی کھسروں کو پہچاننے میں بڑی مہارت کا ثبوت دیا، گذشتہ دنوں کسی ملک میں مقابلہ حُسن ہو رہا تھا کہ ایک خوبرو لڑکا نوجوان دوشیزہ کا روپ دھارکر شامل ہو گیا لیکن جب اُسے جانچنے کے لئے ججوں کے سامنے لایا گیا تو اُس کا پول کھل گیا۔ اصل میں اُس سے یہ حماقت سرزد ہوئی کہ وہ سمجھ بیٹھا کہ مقابلہ حسن کے جج محض گائودی اور کودن ہیں، جو ڈیل ڈول اور قد کاٹھ دیکھ کر ہی ، اُسے ملکۂ حُسن قرار دے دیں گے۔ اس کا پکڑا جانا بھی اُس کے حق میں بہتر ہوا اور وہ بڑی اُفتاد سے بچ گیا ورنہ اُسے سال بھر دوشیزہ ہونے کی اداکاری کرنی پڑتی اور کسی بھی لمحے معمولی بھول چوک سے اُس کا بھانڈہ پھوٹ جاتا، تو پھر اُس کے لئے جینا دوبھر ہو جاتا۔ سِٹی ٹریفک پولیس نے جو کارنامہ سرانجام دیا ہے ، وہ قابل داد ہے لیکن اُنہیں اپنے اصل فرائض منصبی پر بھی توجہ دینی چاہئے۔ وارڈن حضرات کے سامنے لوگ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کر رہے ہوتے ہیں اور وہ اپنی دیہاڑی بنانے کے چکر میں کِسی ٹرک لوڈر، پک اپ، یا موٹر سائیکل والے کو نرغے میں لئے ہوتے ہیں۔ ہماری ٹریفک پولیس کی بے بسی بلکہ ناکامی کا یہ عالم ہے کہ وہ ابھی تک لوگوں کو لائن اور لین کا پابند نہیں بنا سکی۔ نمبر پلیٹیں تک نہیں تبدیل کرا سکی۔ گاڑیوں پر خصوصی نشانات والی پلیٹیں مثلاً ایڈوکیٹ، ڈاکٹر، پریس وغیرہ نہیں اُتروا سکی۔
٭…٭…٭…٭
جنوبی افریقہ دنیا کا سب سے لاعلم ملک۔ بھارت 5 ویں نمبر پر ہے: سروے
عالمی سطح پر سروے کیا گیا ہے کہ لوگ اپنے اپنے ملک میں زندگی کے مختلف پہلوئوں ، سماجی و معاشی مسائل سے کتنے واقف ہیں، سروے کے نتائج کے مطابق اس حوالے سے جنوبی افریقہ دُنیا کا سب سے لاعلم ملک ہے، برازیل دوسرے، فلپائن تیسرے، پیرو چوتھے، اور بھارت پانچویں نمبر پر ہے، شکر ہے کہ اس فہرست میں پاکستان شامل نہیں۔ اور ہو بھی کیسے سکتا ہے جہاں یہ عالم ہو کہ سرکاری، دفاتر ، سکولوں، مارکیٹوں ، دکانوں اور ریڑھیوں حتیٰ کہ فٹ پاتھوں پر بیٹھے لوگ بھی سیاست پر طبع آزمائی کر رہے ہوتے ہیں۔ اُن کے زور بیان کا انداز دیکھنے والا ہوتا ہے، منہ سے جھاگ نکل رہی ہوتی ہے ، گردن کی رگیں تنی ہوتی ہیں اور اپنے ممدوح سیاستدان سے ا یسے ایسے اوصاف منسوب کئے جاتے ہیں بلکہ مخالف سے زبردستی منوائے جاتے ہیں جو صرف فرشتوں کے ساتھ مخصوص ہیں۔ لاعلمی کے پیدا کرنے میں فارغ البالی کو بھی بڑا دخل ہے۔ پیٹ میں روٹی نہ ہو تو کون فکر کرتا ہے کہ سیاست میں کیا ہو رہا ہے‘ عدالتیں کیا کر رہی ہیں ‘ ملک کے سماجی و معاشی مسائل کیا ہیں۔ کسی نے بھوکے سے پوچھا، دو اور دو کتنے ہوتے ہیں، جواب دیا چار روٹیاں۔ پنجابی میں ایک محاورہ ہے، ٹڈھ نہ پیّاں روٹیاں تے سبھے گلاں کھوٹیاں۔ مفلس کے لئے دین بھی روٹی اور دُنیا بھی روٹی۔ بھارت کی حد تک تو ریٹنگ کی سمجھ آتی ہے کہ یہاں بہت غربت ہے، لیکن جنوبی افریقہ کا شمار خوشحال ملکوں میں ہوتا ہے۔ کیا لاعلمی کی وجہ بے حسی بھی ہو سکتی ہے۔ بے حسی مفلسی سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ مفلس تو کسی طور معاشرے میں کوئی کردار ادا کر سکتا ہے بے حس تو اپنے آپ میں اس طرح گم ہوتا ہے کہ اس کے لئے دوسروں کا مرنا جینا برابر ہے۔
٭…٭…٭…٭