ایک بار کہیں پڑھاتھا۔مغل شہنشاہ اکبر کے درباری مسخرے بیربل کے بارے میں ،آج لغات کے اوراق کھولے تو تصدیق ہوگئی کہ بادشاہ کے اس درباری کا نام مہیش داس تھا۔ذات اور قبیلے کا بھٹ تھا۔ایک انتہائی غریب گھرانے میں پیداہوا۔ذہنی طور پر درباری تھالہذا جب اکبر بادشاہ تخت نشین ہوا تو دربار میں حاضر ہوا اور بادشاہ کو اپنے لطائف ،بذلہ سنجیوں اور اشعار سے محظوظ کرکے اس کے نورتنوں میں شامل ہوگیا۔اس زمانے میں اگر پرنٹ یا الیکٹرانک میڈیا ہوتا تو یقینا کالم نویس بھی ہوتا۔ہوسکتا ہے مغل اعظم اسے کسی ملک کی سفارت بھی دے دیتا یا کم از کم کسی الیکڑانک میڈیا کی ذمہ داری تو ضرور اسکے سپرد کردی جاتی۔اگر نہیں تومغل بادشاہ کے پاس اتنی دولت تو تھی کہ دوسال کے خرچے کے لئے 27کروڑ روپے بخشیش کردیتا۔ پاکستان کے کئی جاگیردار،سرمایہ دار اور سیاسی گھرانوں میں مجھے ایسے لوگ دیکھنے کو ملے جو اپنے آقائوں کی ذہنی مالش کیلئے جگتوں،لطیفوں بذلہ سنجیوں اوربرمحل اشعار کی شیشیا ں اورپڑیاں ہمہ وقت جیب میں لئے پھرتے ہیں۔یہ لوگ بڑی تیزی سے ترقی کی منازل طے کرتے ہیں۔روٹی ،کپڑا،مکان ،تعلیم ،تفریح اورصحت جیسے مسائل جن کے حصول کیلئے دنیا کے نوے فیصد لوگ ساری عمر ترستے رہتے ہیں ،ان کیلئے کچھ معنی نہیں رکھتیںیہ سب نعمتیں ضرورت سے زائد ان کے پاس ہوتی ہیں۔ان کے اس طرز عمل کو اگر"اسم فعل"میں استعمال کیا جائے تو یہ فن "خوشامد"کہلاتا ہے ۔اس فن کے ماہر اپنے آقائوں کا بلڈپریشر کبھی بڑھنے نہیں دیتے۔رنگا رنگ اور طنزومزاح سے بھرپور قصے ،کہانیاں سنا کر آقائوں کی طبیعت کو شاداب رکھتے ہیں ۔خوشامد کے خواب اور لوریاں سنا سنا کرانہیں وقت سے پہلے ہی سلا دیتے ہیں۔پھر انکا ایک گروہ بھی بن جاتا ہے جسے ہم آسان اصطلاح میں "بیر بل"گینگ کہہ سکتے ہیں۔ایک بار تحریک استقلال کا اجلاس کوئٹہ میں ہونا قرار پایا ۔میں ملک حامد سرفراز کے ساتھ پہنچا تو ہوٹل میںنواب اکبر بگٹی صاحب کا فون آگیا۔سب سے پہلے کوئٹہ میں خوش آمدید کہا اور رات کے کھانے کی دعوت دیتے ہوئے یہ وارننگ بھی دے ڈالی کہ پورے آٹھ بجے تک پہنچ جائیں۔اسکے بعد اگر میراباپ بھی قبر سے اٹھ کر آجائے تو اسے کھانا نہیں ملے گا۔ہم وقت سے ذرا پہلے ہی پہنچ گئے ۔بلوچوں اور پختونوں کے ہاں کھانے پر عموما فرشی نشست ہوتی ہے ۔بگٹی صاحب کے ہاں بھی تھی۔فرش کے علاوہ دیواروں پر بھی نفیس قالین آویزاں تھے۔تلواریں،نیزے اور شیروں کے سربھی ایک ترتیب کے ساتھ دیواروں پر لگے تھے۔سبھی مہمان گائو تکیوں پرٹیک لگائے بیٹھے تھے۔نوکر چاکر ہمہ وقت حاضر تھے ایسی ضیافتوں میں عشائیہ کے آغاز پر سب سے پہلے مہمانوں کے ہاتھ دھلوائے جاتے ہیں۔ایک آدمی کے ہاتھ میں پانی کا بڑا لوٹا ،صابن اور کندھے پر رومال ہوتا ہے۔مہمان صابن کی ٹکیہ ہاتھ میں پکڑتا ہے تو ملازم پانی ڈال کر پہلے ہاتھ دھلواتا ہے اور پھر تولیہ پیش کرتا ہے۔نواب صاحب کے ہاں پہلے دہی،پھرسلاد،پھرکھانا (مین کورس)،پھر آئس کریم ،پھر کافی آخر میں طعام کے بعد کلام کا دور چلتا جو صبح کا ذب تک چلتا رہتا۔ضیافت کے تمام امور بخوبی سرانجام دینے کیلئے ایک نگران بھی ہوتا ہے کہ مبادا کوئی کمی رہ جائے ۔یہیںایک نگران صاحب سے ملاقات ہوئی تو وہ ہمارے ساتھ روانی سے پنجابی بول رہے تھے۔معلوم ہوا کہ ان کے والد فیصل آباد سے بلوچستان آگئے تھے۔ان صاحب نے جامشورسے لاء کا امتحان پاس کیاہوا تھا اور آج کل نواب صاحب کے کوئی منشی ٹائپ ملازم تھے ۔پھر نواب اکبر بگٹی صاحب کچھ عرصہ بعد بلوچستان کے وزیر اعلی بنے تواس نگران کو عدلیہ میں کوئی نوکری دلوادی ۔یہ فن خوشامد میں ماہر تھے اس لئے ترقی کرتے گئے۔یہاں تک کہ جنرل پرویز مشرف کا دور آگیا۔ یہ پاکستان کی اعلی عدلیہ کے جج بن گئے۔ اس سے آگے کی ایک دیگر داستان ہے جو فی الوقت ہمارا موضوع نہیں۔ باقی خاندانوں کی ایک آدھ مثال تو دی جا سکتی ہے لیکن شریف خاندان کے "بیربل گینگ"کی تو تعداد ہی اتنی ہے کہ کالم کیلئے جگہ کم پڑ جائے۔ کہاں تک سنو گے،کہاں تک سنائیں۔۔ شریف خاندان سمیت یہ لوگ غریب عوام کے وسائل اور پیسے پر ان کے سروں پر سوار ہیں۔اس گینگ کو علم ہونا چاہیئے کہ حکومتیں اور سلطنتیں چلانے کیلئے دانائی اور حکمت کی ضرورت ہوتی ہے، جگتوں اور لطیفوں کی نہیں۔اس سے حکومتوںکا طرز حکومت تو غیر سنجیدہ ہوتا ہی ہے، قوم کا مذاق بھی پست ہو جاتا ہے۔ قوم کے دانشور اور راہنما دراصل غریب عوام کے مقروض ہوتے ہیںجو خود مفلس رہ کران کی تعلیم کے اخراجات برداشت کرتے ہیں۔ عوام کا قرض تو یہ راہنما کبھی ادا نہیں کرسکتے لیکن وہ یہ ضرور کرسکتے ہیں کہ نادار،مفلس اور کم علم عوام کو درست،ایماندارنہ اور حقیقت پسندانہ انداز فکر سے روشناس کراسکیں۔ان کے مسائل کا حل تلا ش کریں خواہ یہ سیاسی ہوں،معاشی،سماجی یا مذہبی ہوں۔مگر آج ہم جس مقام پرکھڑے ہیںزندگی کے کسی شعبے میں کوئی صاحب حکمت وصاحب فراست نہیں۔ بیربلوں کی البتہ ایک طویل فہرست ہے جو سیاست ،صحافت اور مذہب کے میدان میں علم و حکمت بانٹنے کی بجائے حکمرانوں کو اپنی اپنی وفاداریوں کا یقین دلانے کیلئے ایسے ایسے اوچھے طور طریقے اختیار کرتے ہیں کہ بیان کرتے ہوئے شرم آتی ہے۔اب سپریم کورٹ نے اس گینگ کے ایک رکن کو اڈیالہ جیل بھیج کراوردوسروں کو توہین عدالت کانوٹس دے کر ان کی ہوا خارج کردی ہے۔ جب میرے شعور کی آنکھ کھلی تو حکومت بے شک ایوب خاں کی تھی مگر مولانا مودودی ،مفتی محمود،چوہدری محمد علی ،نوابزادہ نصرااللہ خاں ۔مولوی فریداحمد،مولانا بھاشانی اور بعد میں اصغر خاں اور ذوالفقار علی بھٹو جیسے لوگ سیاست کے میدان میں آچکے تھے۔چوہدری محمد علی اور ذوالفقار علی بھٹو اقتدار سے الگ ہوئے تو کسی ادارے کو تاک تاک کر نشانہ بنانے کی بجائے معاً بھول گئے کہ وہ کبھی وزیراعظم بھی رہے تھے۔ یہ سبھی راہنما کسی شئے کے کھو جانے پر سوگ منانے کے سرے سے قائل ہی نہ تھے۔ بڑے دل والے لوگ تھے ہمارے یہ اہل سیاست جن میں ایک عالمانہ شان ہوتی ۔دریدہ دہن ہو کر گالیاں دینے کی بجائے کتابیں لکھتے تو علم وحکمت کے موتی پروتے ۔ تقریر کرتے تو گویا منہ سے پھول جھڑتے ہوں۔ قومیں اداروں سے بنتی ہیں اور ادارے اعتماد سے۔ کچھ نااہل لوگ اپنے ذاتی مفاد کیلئے اداروں کو تباہ کرتے ہوئے یہ بھی نہیں سوچتے کہ کل تک وہ جن اداروں کے نگہبان قرار دیئے جاتے تھے ،آج ان کے دشمن بن کرکس طرح ملک کی جڑیں کاٹ رہے ہیں۔
پس تحریر:۔آج صبح ہی اندوہناک خبر ملی کہ بار ایسوسی ایشن گوجرانوالہ اور تحریک استقلال کے سابق جنرل سیکرٹری چوہدری خالد جمیل ہم سب کو چھوڑ کر اللہ کو پیارے ہوگئے۔ مرحوم ہمہ صفت انسان تھے ۔ اہل صحافت کو زندگی بھر عزیز رکھا۔ عمر بھر جو کمایا ان کی نذر کر دیا اللہ ان کو جوار رحمت میں جگہ دے (آمین)