توہین رسالت سے متعلق قانون تبدیل نہیں ہو گا‘ سینٹ انسانی حقوق کمیٹی
اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی) سینٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق نے اعلان کیا ہے کہ توہین رسالت کی سزا کے قانون میں کسی قسم کی تبدیلی ہو گی اور نہ ہی کمیٹی اس معاملہ پر کسی قسم کی ورکنگ کر رہی ہے بل کو موخر کر دیا گیا۔ مخنث کی شناخت کے لئے اسلامی نظریہ کونسل کی سفارشات کی منظوری دیدی گئی ہے جس کے تحت والدین شناخت سے آگاہ کر سکتے ہیں اگر ایسا نہیں ہوتا تو مخنث خود اپنی شناخت کا اعلان کر سکتا ہے۔ چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل قبلہ ایاز نے کہا کہ اگر شناخت کے لئے ہم خواجہ سراؤں کو ہسپتال اور تھانوں کے حوالے کرتے ہیں تو مزید مسائل پیدا ہوں گے۔ خواجہ سراؤں کے نمائندوں نے بتایا کہ ہمارا مزید استحصال ہو گا۔ ہمیں پولیس اور ڈاکٹروں کے حوالے نہ کیا جائے، کمیٹی کا اجلاس چیئرپرسن سینیٹر نسرین جلیل کی صدارت میں پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا جس میں خواجہ سراؤں کے حقوق کے تحفظ کے مسودہ قانون پر غور کیا گیا۔ اس بارے میں تمام بلوں کو یکجا کر دیا گیا ہے۔ کمیٹی نے لاپتہ افراد کے قومی کمیشن کے نئے چیئرمین کی تقرری کا مطالبہ کر دیا۔ کمیٹی نے واضح کیا ہے کہ ضابطہ کار کے باوجود کمیشن اپنی رپورٹ جاری نہیں کر سکا۔ ایک فرد دو ادارے نہیں چلا سکتا، فوری طور پر قومی کمیشن برائے لاپتہ افراد کی تشکیل نو کی جائے۔ کمیٹی نے لاپتہ افراد کے معاملے پر بھی سفارشات کا اعلان کر دیا خفیہ اداروں کی ورکنگ کے بارے میں مجوزہ قانون کے حوالے سے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن سے جواب نہ آنے کا نوٹس لے لیا چیئرمین سینیٹ کو اس بارے میں آگاہ کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ فنکشنل کمیٹی نے مخنث کی شناخت پر اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے کی توثیق کرتے ہوئے اس طبقہ کے حقوق کے تحفظ کے مسودہ قانون کا مجوزہ بل منظور کر لیا ہے بل کے تحت مخنث کو جائیداد میں جنس کے مطابق حصہ ملے گا۔ چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل قبلہ ایاز نے خواجہ سراؤں کودرپیش سماجی مسائل سے بھی آگاہ کیا اور کہا کہ جب علیشا نامی خواجہ سرا زخمی ہوا تو ہسپتال میں مرد و خواتین دونوں وارڈز میں اسے منتقل کرنے سے انکار کر دیا گیا تھا اور اس نے ہسپتال کے دروازے پر جان دے دی۔ پورا معاشرہ خواجہ سراؤں کی توہین کرتا ہے۔ خواجہ سراؤں کی جرات ہے کہ معاشرے کے توہین آمیز رویوں کے باوجود وہ خودکشی نہیں کرتے۔ ان کی آب بیتیاں سنیں۔ خواجہ سراؤں نے روتے ہوئے اپنے حالات کے بارے میں مجھے بتایا اور کہا کہ اگر شناخت کے لئے کوئی اور طریقہ کار وضع کیا گیا تو ہمارا جنسی استحصال بھی بڑھ سکتا ہے ، سینیٹر مفتی عبدالستار نے کہا کہ پاکستان میں دیگر جرائم کے قوانین کا غلط استعمال ہوتا ہے۔ اصل مسئلہ کچھ اور ہے جبکہ یہاں توہین عدالت کے حوالے سے قانون کو تبدیل کرنے کی بات کی جاتی ہے جو کسی صورت قابل قبول نہیں ہے۔ مفتی عبدالستار کے احتجاج پر فنکشنل کمیٹی نے بل پر غور موخر کر دیا۔ فنکشنل کمیٹی نے واضح کیا ہے کہ کوئی وردی میں ہو یا وردی کے بغیر پاکستان کے کسی شہری کو لاپتہ نہیں کر سکتا۔ طاقت اور بندوق کے زور پر جبر کیا جائے گا تو ایسا جنگل کے قانون میں ہوتا ہے۔ کسی ایجنسی، کسی اتھارٹی کو آئین و قانون کے ماورا شہریوں کو لاپتہ کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ تمام ادارے شہریوں کے تحفظ اور حقوق کے ذمہ دار ہیں نہ کہ انہیں لاپتہ کریں۔ کوئی شہری چاہے غداری جیسے سنگین جرم میں ملوث ہو۔ اداروں کا کام ہے کہ اگر اس کے پاس کوئی ثبوت یا شواہد ہیں تو آئین و قانون کا احترام کرتے ہوئے اس کو عدالت میں پیش کریں۔ کسی کو جبر کی بنیاد پر اٹھانا قانون سے انحراف ہے۔ ایسے قانون کی حکمرانی کو یقینی نہیں بنایا جا سکتا۔ چیئرپرسن نسرین جلیل نے بتایا کہ پاکستان سے لاپتہ افراد کے معاملے کا اقوام متحدہ نے نوٹس لیا تھا اور کچھ کیسز تحقیقات کے لئے لاپتہ افراد کے قومی کمیشن کے حوالے کئے تھے قومی کمیشن نے انہیں برآمد کرایا تھا۔ یہ مختلف ایجنسیوں کے پاس تھے اور جب اقوام متحدہ نے پوچھا کہ یہ لوگ کیسے واپس آئے تو بتایا گیا کہ پوچھ گچھ کے لئے رکھا گیا تھا۔ ایجنسیوں کی کارکردگی پر پارلیمنٹ کو نگرانی کا کردار ملنا چاہئے، کمیٹی اراکین نے یہ بھی تجویز دی ہے کہ جس بھی علاقے میں کوئی شہری لاپتہ ہوتا ہے یا کسی کی مسخ شدہ لاش ملتی ہے تو متعلقہ ایس پی اور ڈی ایس پی کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے۔ آن لائن کے مطابق توہین رسالت سے متعلق مجوزہ ترمیمی بل کا مسودہ پیش کرنے پر حکومت کی اتحادی جمعیت علماء اسلام (ف) کے رکن مفتی عبدالستار نے ہنگامہ کھڑا کردیا۔ توہین رسالت کا مرتکب واجب القتل ہے ‘قانون میں تبدیلی قبول نہیں کریں گے ۔ وزیر قانون زاہد حامد کے استعفے کی طرح مزید بحران پید اہوگا۔پی پی پی کی سینیٹر سحر کامران خان نے مفتی عبدالستار سے سوال کیا کہ پشاور میں مشال خان قتل کیس کی آپ کیا تشریح کرتے ہیںتو مولانا نے کہا کہ 2گواہوں کے بیانات کے بعد توہین رسالت کا مرتکب شخص واجب القتل ہے ۔ قرآن نے اس کی تفصیل بیان کردی ہے 1973کے آئین میں توہین رسالت کے مرتکب شخص کی سزا بیان کردی ہے یہ سازش ہے۔ حکمران اللہ تعالیٰ کے عذاب کو چیلنج کررہے ہیں ۔ قانون میں تبدیلی تو درکنار اس کا تصور بھی کیا گیا تو کروڑوں عوام سڑکوں پر آجائیں گے ۔ ملکی نظام جام ہوجائے گا۔ دھرنوں کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ حکمران سازش کررہے ہیں کہ واجب القتل شخص کی سزا کو عمر قید میں تبدیل کیا جائے۔ مگر ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ جانوں کا نذرانہ پیش کریں گے۔ مولانا عبدالستار نے مشتعل ہوکر اجلاس کے بائیکاٹ کی دھمکی دی تو اجلاس کے شرکاء اور چیئرپرسن نسرین جلیل اپنی نشست پر کھڑی ہوگئیں اور کہا کہ ہم اس ایجنڈے کو مؤخر کرنے پر تیار ہیں اس کو ایجنڈے میں شامل نہیں کریں گے ۔ جس پر مولانا اپنی نشست پر بیٹھ گئے۔