حرم شریف میں جموں و کشمیر سے آئے بہن بھائی اور بزرگ جب ملتے ہیں تو فرط جذبات میں ان کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحن مبارک میں قریب بیٹھی خاتون نے بہت پیار سے پوچھا آپ پاکستان سے ہیں ؟ اثبات میں جواب ملنے پر اس کی پلکیں بھیگ گئیں اور بولی آپ کو پاکستانی ہونا کیسا لگتا ہے ؟میں نے کہا ایک آزاد مملکت میں مرضی کی زندگی گزارنے جیسا لگتا ہے۔ بھارتی غنڈہ گردی نے پاکستان میں دہشت گردی کی آگ لگا رکھی ہے وگرنہ پاکستان جیسا ملک دنیا میں نہیں۔ پاکستانی مجبوری میں وطن سے باہر رہتے ہیں۔ تارکین وطن ملک لوٹنے کے لئے بےقرار ہیں۔ پاکستان ایک آزاد اورماڈریٹ ریاست ہے۔ کشمیری بہن نے بڑی حسرت سے کہا کہ کاش ہمارے بزرگ بھی تقسیم ہند کے وقت پاکستان ہجرت کرجاتے۔ ہم نہ آزاد ہو سکے نہ غلامی کے عادی ہو سکے۔ نواز شریف کی تیسری مرتبہ حکومت آئی لیکن انہوں نے بھی خود کو ہی مضبوط کیا کشمیر کے لئے کچھ نہ کر سکے۔مسجد نبوی میں بیٹھ کر مقبوضہ کشمیرکی بیٹی نے نواز شریف سے شکوہ کیا۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے پارلیمنٹ میں بجٹ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ کانگریس کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ہندوستان تقسیم ہوا۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرا جب کانگریس کے بوئے ہوئے زہریلے بیج کی وجہ سے ملک کو نقصان نہ پہنچا ہو، اگر جواہر لال نہرو کی بجائے سردار ولبھ بھائی پٹیل بھارت کے پہلے وزیراعظم ہوتے تو پورے کشمیر پر ہمارا قبضہ ہوتا اور ایک حصہ بھی پاکستان کے پاس نہ ہوتا۔
نریندر مودی نے کہا کہ بھارت کی آزادی کے بعد سے کانگریس نے غلط پالیسیاں اختیار کیں اور وہ عوام کی فلاح و بہبود پر توجہ دینے کی بجائے ایک ہی خاندان کے گن گاتی رہتی ہے اور اپنی ساری توانائی گاندھی خاندان کی خدمت کے لیے وقف کردی ہے، انتخابی وجوہات اور معمولی فائدے کے لیے کانگریس نے خودغرضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 70 سال پہلے ملک تقسیم کردیا۔۔۔۔نریندر مودی کے بیان پر لاکھ مرتبہ لعنت البتہ اس نے ایک بات درست کہی کہ “ایک ہی خاندان کی حکومت “۔ پاکستان بھی ایک ہی بھٹو خاندان کو پروموٹ کرتا رہا۔ پھر شریف خاندان براجمان ہو گیا۔ جمہوریت میں کسی ایک ہی خاندان کا قبضہ ملک کے نظام کو معذور اور کرپٹ بنا دیتا ہے۔ بار بار انہی پرانے پاپیوں کو کھلاتے رہو ، پالتے رہو، پھر ان کی نسلوں کو بھی پروان چڑھاتے رہو۔۔۔مسلہ کشمیر کو خاندان بھی حل نہ کر سکا۔ کشمیری خاندان کے دور حکومت نے تو مسئلہ کشمیر کو مودی کی یاری کی نذر کر دیا ہے۔ مودی کی جموں کشمیر سے متعلق دیدہ دلیری اس لیے ہے کہ پاکستان میں اس کے دوست کی حکومت ہے۔لیکن عوام کا کہنا ہے کہ مودی دماغ کا علاج کرائیں، پاکستان کے مودی جی ایوب خان غلط پالیسیاں نہ بناتے اور امریکہ کے وعدے پر انتظار نہ کرتے رہتے تو کشمیر پاکستان کا حصہ ہوتا۔ جنرل گریسی وقت پر قائداعظم کا حکم مان لیتا تو بارہ مولا سے قبائلی مجاہدین کو بےسروسامانی کی حالت میں واپس نہ آنا پڑتا۔ اگر جنرل یحیی کو چھمپ جوڑیاں سیکٹر میں عین جنگ میں نہ پوسٹ کیا جاتا تو سرینگر ہمارا ہوتا۔ اگر اسے آرمی چیف نہ بنایا جاتا تو مشرقی پاکستان بنگلہ دیش نہ بنتا۔ اگر اکثریتی جماعت کے مینڈیٹ کا احترام کرتے ہوئے شیخ مجیب کو وزیراعظم بننے دیا جاتا تو پاکستان نہ ٹوٹتا۔ 55 فیصد آبادی نے آپ کی پالیسیوں پر لعنت بھیجتے ہوئے 47 سال پہلے آپ سے علیحدگی اختیار کر لی اور باقی پاکستان پر تین بار برسر اقتدار رہنے والی کشمیری سرکار سے بھی جموں کشمیر کا مسلہ حل نہ ہو سکا ؟ جو آیا اس نے بھارت سے دوستی کا حق ادا کیا پاکستانیوں اور کشمیریوں کو بے وقوف بنایا .کالعدم جماعت الدعوة کے امیر حافظ محمد سعید کا بھی کہنا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل میں بڑی رکاوٹ اسلام آباد کی حکومت ہے۔کشمیرکا مسئلہ 70 سال سے الجھا ہوا ہے اور کشمیری پاکستان کے جھنڈے میں دفن ہورہے ہیں۔حافظ سعید کا نواز شریف پر تنقید کرتے ہوئے کہنا تھا کہ جو کہتا ہے مجھے کیوں نکالا ا±س کے دستخط پرمجھے گرفتارکیا گیا اور نوازشریف کے جانے کی ایک بنیادی وجہ اس خون سے غداری ہے جواس نے کی لیکن نواز شریف یہودیوں کوپسند آنے والے بیان دے رہے ہیں،میں اب بھی کہتا ہوں توبہ کرلو۔حافظ سعید کا کہنا تھا کہ پاکستان مسئلہ کشمیر کے حل میں رکاوٹ کوختم کرے اور اس ضمن میں سینٹ کے لوگ جاکراقوام متحدہ کے سامنے دھرنا دیں جب کہ تحریک کشمیرنتیجہ خیز مرحلے تک پہنچ چکی ہے اور انشااللہ 2018 کشمیرکے نام ہوگا۔ واضح رہے کہ اس سے قبل جماعت الدعوة کے سربراہ حافظ سعید نے کہا تھا کہ حکومت پاکستان نے مجھے اس لیے گرفتار کیا تھا تاکہ مسئلہ کشمیر کو دبایا جا سکے۔ انھوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کو مودی حکومت نے نہیں بلکہ حکومت پاکستان نے دبایا ہے۔
٭٭٭٭٭