فروغ تعلیم میں حیات برادرن کا کردار
سینٹ پالز ہائی سکولز واہ چھاؤنی کا نام سنتے ہی ممتاز ماہرین تعلیم شفقت حیات، شوکت حیات اور اُن کے خاندان کی اہلِ واہ کے لیے گرانقدر تعلیمی خدمات پر تحسین و آفرین کے کلمات ہی ہر خاص و عام کی زبان سے نکلتے ہیں ۔عرصہ 33سال کوئی تھوڑا وقت نہیں دونوں بھائیوں اور مسز کنول شفقت نے اپنی زندگی کا بہترین حصہ تعلیم کے فروغ کے لیے وقف کر کے واہ چھاؤنی سے پورے ملک کی خدمت کے لیے ڈاکٹرز،انجینئر ز،آرمی آفیسرز ،سماجی اور بڑی بڑی کاروباری شخصیات پیدا کیں ہیں اور خوب سے خوب تر کی جستجو میں مصروف ِ عمل ہیں ۔واہ چھاؤنی سے ممبر پنجاب اسمبلی ملک تیمور مسعود اکبر کا تعلق بھی اسی درسگاہ سے ہے۔واہ چھاؤنی کی تعلیمی ترویج و حیات میں شفقت حیات اور شوکت حیات کا کردار روز روشن کی طرح عیا ں ہے ہر سال کی طرح اس سال بھی سینٹ پال ہائی سکول سینئر ونگ واہ ماڈل ٹاؤن ، واہ چھاؤنی کی تقریب تقسیم انعامات بسلسلہ یومِ والدین کا انعقاد ہوا۔مہمانان ِ گرامی میں ممتاز ماہرِ تعلیم ڈاکٹر ضیاء الرحمان اور سر سید ایجوکیشن فاؤنڈیشن پاکستان کے سینئر بورڈممبر کرنل (ر) محمد اسلام کیانی تھے صدارت ممتاز ماہرِ اقبالیات صحافی و کالم نگار شخصیت ڈاکٹر زاہد حسن چغتائی نے سر انجام دئیے۔دیگر مہمانوں میں محمد عتیق عالم خان،شعیب ہمیش،عبدالباسط مرزا اور سردار محمد شفیق کے علاوہ پنجابی پختون اتحاد ٹیکسلا کے چیئرمین ممتاز کاروباری شخصیت حاجی عبدالقدیرخان نے خصوصی شرکت فرمائی۔ڈاکٹر ضیاء الرحمٰن اور محمد اسلام کیانی نے کہا کہ سکول تربیت کی اہم جگہ ہے جہاں ریاست کے معماروں کی تیاری ہوتی ہے اور اس وقت تعلیمی اداروں کے اندر سے محب وطن معمار تیار کرنے کی ضرورت ہے۔اساتذہ کا کردار تو ہے ہی لیکن والدین بھی اس ضمن میں بری الذمہ نہیں درسگاہ کی تعلیم و تربیت تو اپنی جگہ لیکن ماں کو اسلام نے جومقام دیا ہے دنیا کے ہر شخص کی خواہش ہے کہ جنت کا حصول اُس کا مقدر بن جائے لیکن دین اسلام نے ماں کے قدموں تلے جنت رکھ دی ہے۔لہذا ماؤں پر بھی بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہیں مائیں اگر اپنے بچوں کو وطن سے ،قوم سے،اپنے اسلاف کی روایات کو حب الوطنی کے نقش میں رنگ کر بچوں کے قلوب و اذہان میں سمو ئیں تو ہمارے یہ معصوم طلباء کل ملک پاکستان کے شاہکار ثابت ہو سکیں گے۔
صدر تقریب ممتاز کالم نگار مصنف و ادیب صحافی و شعلہ بیاں مقرر ڈاکٹر زاہد حسن چغتائی نے کہا
قسمت نوع بشر تبدیل ہوتی ہے یہاں
اک مقدس فرض کی تکمیل ہوتی ہے یہاں
مضطر نظامی نے یہ شعر جس مقصد کے لیے کہا تھا جو بڑی حد تک کامیاب رہا اور آج بھی ہر تعلیمی ادارے کے ماتھیکا جھومر بنا ہوا ہے۔کیونکہ یہ تعلیمی ادارے ہی وہ پلیٹ فارم ہیں جہاں سے ننھے پودوں کی آبیاری کی جاتی ہے جہاں اُن کو ذہنی بالیدگی سے روشناس کرایا جاتا ہے مگر افسوس صد افسوس کہ آج کے تعلیمی ادارے مرحوم کی طرح اس شعر کو بھی مرحوم تصور کرتے ہیں اور مضطر نظامی مرحوم کا یہ شعر آج کے دور میں اُن کے پیغام کی نفی کرتا ہے ۔جس کی کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں ۔ننھے پودوں کی آبیاری کی بجائے اُن کی جڑیں کھو کھلی کی جا رہی ہیں۔ذہنی بالیدگی کا فقدان ہے مخلوط نظام تعلیم وہ خواہ کسی بھی سطح پر ہو طلباء کا بیڑا غرق کر رہاہے۔اچھے سائنسدان ،انجینئرزیاڈاکٹرز پیدا کرنے کی بجائے لیلیٰ مجنوں بلکہ رومیو جولیٹ اور ویلنٹائن ٹائپ کے ہوس بھرے نوجوان طلباء و طالبات تیار کیے جا رہے ہیں یہ قصور کس کا ہے؟ قومی زبان سے لا تعلقی ہمیں اپنے احساس و نظریات،سوچ و ادراک سے دوری کی جانبلے جا رہی ہے اُنھوں نے سینٹ پالز ہائی سکول کی شاندار روایات اور تعلیمی و ہم نصابی رپورٹ کو سراہتے ہوئے کہا کہ آج بھی شفقت حیات جیسے محب الوطن اساتذہ اور سر براھان مدارس کی کمی نہیںضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی نئی نسل کو اقبال ؒ کے فلسفے خودی سے آگاہ کریں اُنھوں نے درسگاہ میں علامہ اقبالؒ اور ملت اسلامیہ کے معماروں کے پیغامات اور تصویری بورڈز پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے اس اقدام سے یہ ثابت ہے کہ اس درسگاہ میں اقبالؒ کے شاہین پیدا کیے جا رہے ہیں جو ایک مبارک امر ہے۔مہمانانِ گرامی کے خطابات اور سکول کے پرنسپل شفقت حیات اور راقم کے خیالات نہایت ہی نظم و نسق اور دل جمعی سے حاضرین نے اپنی سماعتوں کا حصہ بنائے۔ میٹرک امتحان 2016ء میں واہ چھاؤنی نہ صرف بلکہ فیڈرل بورڈمیں نمایاں پوزیشن ہولڈر طلباء محمد جیاد ارشد، بریرہ ریاض، طلال احمد، بسمہ ایمان اور سنبل خان کو میڈلز اور انعامات سے جب نوازا جا رہا تھا تو ہر شریک مجلس نے خوب داد دی اسی طرح سال بھر میں نمایاں کارکردگی کے حامل طلباء میں انعامات بھی تقسیم کیے گئے اور مس ناذیہ، مس شائستہ، مس انجم، مس فریدہ، مس سعدیہ اور مس سجیلہ کو اپنے اپنے شعبہ جات میں نمایاں کارکردگی پر میرٹ سرٹیفیکیٹ سے نوازا گیا۔ قارئین کرام! پہلے درسگاہوں میں بزم ادب ہوا کرتا تھا اب سٹوڈنٹ ویک کے نام پر ناچ گانے کی محفلیں سجائی جاتی ہیں پہلے تقریری مقابلے ہوتے تھے اب گلوگاری اور ڈانس کے ایونٹ ہو رہے ہیں ۔ ہمارے طلباء کے اسباق میں سے سیرت رسول اور خلفائے راشدین نکال کر ’’ ہولی‘‘اور’’ بیلوبین ‘‘ کے اسباق شامل کر دئیے گئے ہیں ۔جہاد جو کہ مسلمانوں کا شیوہ سمجھا جاتا تھا اور آج اُسکو دہشت گردی سے منسوب کر دیا گیا ہے۔مادرِپدر آزادی کے نام پر خواتین کے حجاب اور چھپانے والی باتیںاسباق اور درسگاہوں کے تعلیمی پروگرامز کا حصہ بن رہی ہیں ۔آج ہمارے کالجز اور یونیورسٹیز میں دانشوروں ،محققین،اسلامی سکالرز کو بلانے کی بجائے گلوکاروں کو بلوایا جا رہا ہے۔میوزک کنسرٹ نائٹ کے نام پر بے حیائی کا پر چار کھلے عام جاری ہے۔ تعلیمی ادارے ایک بزنس انڈسٹری بن چکے ہیں طلباء بھی اُن اداروں کا رخ کرتے ہیں جہاں تھری اور فور جی کے منفی مزے لوٹ سکیں ۔اپنے کردار کی اصلاح کی بجائے وہ ہوس کے پجاری بننے میں فخر محسوس کرتے ہیں ۔استاد کا وہ رتبہ جو اسلام نے ایک باپ کی حیثیت سے متعارف کرایا ہے وہ بھی مجروح ہو رہا ہے جس کی بنیادی وجہ آج کے استاد میں وہ اپنائیت نہیں رہی جو استاد اور شاگرد میں ہوا کرتی تھی کیونکہ آج کا استاد بھی اپنی عزت والے پیشے کو عبادت سمجھ کر کرنے کی بجائے اپنی تنخواہ اور ٹیوشن کو زیادہ فوقیت دیتا ہے اور آفرین اُن والدین پہ جو جدیدیت کے نام پر اپنے بچوں کو ہا ئی فائی ادروں میں داخلہ دلوا کر اپنے"سٹیٹس کو " ظاہر کرتے ہیں مگر وہ شاہد یہ بھول گئے ہیں کہ اُن کا یہــــ" سٹیٹس کو" ہی کسی دم اُن کی اپنی ہی بد نامی کا باعث بنے گا ۔
قارئین کرام! بڑے کرب کے ساتھ جسارت کر رہا ہوں کہ آج تعلیمی ادروں کے جو حالات ہم سب دیکھ رہے ہیں اس سے ڈر لگتا ہے کہ کل کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں عظیم مفکروں ، دانشوروں اورفوجی افسروں کی بجائے نا اہل اور مغرب زدہ افراد پیداہو رہے ہونگے۔ہمارے بچے جو ہمارا سب سے زیادہ قیمتی سرمایہ ہیں اُن کی حفاظت ہم نے خود کرنی ہے مجھے تو ڈر لگ رہا ہے خُدا نہ کرے ایساہو لیکن اگر ہم نے بحیثیت قوم اپنے روشن مستقبل کے معماروں کی تعلیم و تربیت کی طرف توجہ نہ دی تو ، کہیں ہمارے تعلیمی اداروں میں مضطر نظامی مرحوم کا شعر یو ں نہ لکھا جائے
؎ہوسِ نوح بشر کی تکمیل ہوتی ہے یہاں
ابلیس کے فرض کی تکمیل ہوتی ہے یہاں
پاکستانی قوم کی تربیت کے لیے ہمیں اپنی تاریخ و ثقافت سے راہنمائی لینا ہو گی تعلیمی اداروں کو چلانے،پڑھانے اور معماران کی تربیت کرنے والے محب وطن فرض شناس لوگ ہی جدیدیت کی منفی سوچ کی تیز دھار تلواروں کے وار کو روکنے میں کردار ادا کر سکتے ہیں ۔کیونکہ ہماری درسگاہیں ہی وہ جگہ ہیں جہاں ہم تعلیم کے ساتھ تربیت کر کے اپنے طلباء کو وہ دروازہ فراہم کر سکتے ہیں جہاں سے اخلاقی پہلوؤں کی راہیں کھلتی ہیں تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کا وہی رشتہ ہے جو نماز کے ساتھ وضو کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔لہذا والدین، اساتذہ کو اپنی نئی نسل کی تعلیم و تربیت کیلئے کبوتر کی طرح آنکھ بند کرنے سے اجتناب برتنا ہو گا۔