سیاسی بات سے پہلے ایک بامعنی اور معنی خیز بات یہ کہ باکمال قاریہ سمیعہ کے لئے میرے کالم پر راولپنڈی سے طفیل صاحب کا ایک جملہ ”مقابلہ حسن اور مقابلہ حسن قرات میں فرق تو ہو گا“۔ مقابلہ حسن کےلئے حکام اور عوام بہت دلچسپی لیتے ہیں مگر مقابلہ حسن قرات کے لئے کوئی ٹس سے مس نہیں ہوا۔ مقابلہ حسن قرات بھی ایک محترم پاکستانی خاتون نے جیتا ہے۔ قرآن اور صاحب قرآن سے محبت رکھنے والے اہل دل لوگ کہاں ہیں۔ برادرم نعمان قادر نے بتایا ہے کہ حضرت پیر کبیر علی شاہ نے اعلان کیا ہے کہ عنقریب چادر اوڑھ تحریک کی عالمی کانفرنس میں قاریہ سمیعہ کو گولڈ میڈل اور تحائف پیش کئے جائیں گے۔
شکر ہے کہ صدر زرداری کو قومی امور پر مشاورت کےلئے گول میز کانفرنس بلانے کا خیال آیا ہے۔ اس کا نتیجہ بھی وہی ہو گا جو حکومتی اور اپوزیشن کی سیاسی سرگرمیوں کے بعد ہوتا ہے۔ نواز شریف سرگرم ہوتے ہیں پھر گرم ہوتے ہیں اور پھر جمہوری گرما گرمی ہونے لگتی ہے۔ صدر زرداری نے اپنے آپ کو بہت بڑا روایتی اور پکا سیاستدان ثابت کیا ہے۔ تین برسوں میں مسلم لیگ ن اور نواز شریف کی اپنی ایک بات بھی نتیجہ خیز نہیں ہوئی۔ دس نکاتی ایجنڈے کا ڈنڈا صدر زرداری کے سر پر لگا ہے۔ انہیں زخم تو نہیں ہوا البتہ اس ”ضرب کاری“ کی آواز دور دور تک سنائی دی ہے۔ گول میز کانفرنس بلانے کا آوازہ بلند ہوتے ہی مزید خاموشی چھا گئی ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے نہ صرف گول میز کانفرنس کی دعوت قبول کی ہے بلکہ اس سے پہلے صدر کی طرف سے ظہرانے (لنچ) کی دعوت بھی قبول کر لی ہے۔ صدر زرداری نے خاص طور پر ہدایت کی ہے کہ گول بوٹی والی ڈش تیار کی جائے۔ ہمارے ہاں دعوت سے مراد کھانے کی دعوت ہوتی ہے‘ دعوت آئی تو عداوت ختم ہو گئی۔ نواز شریف پیپلز پارٹی اور صدر زرداری پر برہم ہوتے ہیں پھر درہم برہم ہوتے ہیں اور اس کے بعد جمہوری نظام کےلئے ان کے دل میں حکومت بچانے کی خواہش اور کوشش رل مل جاتی ہے اور کسی کو کچھ سمجھ میں نہیں آتا خود ان کی اپنی سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ ان کے ساتھ اور ان کی حکومتی اپوزیشن کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ انہوں نے دس نکاتی ایجنڈے کی منظوری کےلئے تین دن ”ہاں یا ناں“ کےلئے دیئے اور پھر 45دن ہاں میں ہاں ملانے کےلئے دے دیئے۔ 30دن گزر چکے ہیں اور کچھ بھی نہیں ہوا۔ ابھی تو ناں میں ناں ملانے کا وقت بھی نہیں آیا پنجاب حکومت کے پیپلز پارٹی کے سینئر وزیر راجہ ریاض نے نواز شریف کے ہاتھ میں 19نکاتی ایجنڈا تھما دیا اس ایجنڈے سے مفاہمتی ڈنڈے اور پارٹی جھنڈے میں کوئی فرق نہیں رہا۔ راجہ ریاض کے 19 نکات میں یہ بھی اشارہ ہے کہ ہمیں ایجنڈا بھجواتے ہوئے آپ 9 نکات بھول گئے تھے ہم ایک کشتی کے سوار ہیں۔ دریا کے دونوں کنارے ایک جیسے ہوتے ہیں جو کسی پار نہ اُترنا چاہے تو اس میں دریا کا کیا قصور ہے ؟
ایک دریا کے پار اُترا تو میں نے دیکھا
ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
مجھے اس بار مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی میں کوئی فرق نظر نہیں آیا۔ راجہ ریاض بہت جوش میں تھے جھوٹ موٹ کا غصہ بھی ان کے اشاروں میں تھا۔ انہیں اپنے ایجنڈے کے جواب کے قابل ہی کسی نے نہ سمجھا۔ راجہ ریاض نے منگل کو پنجاب اسمبلی کے سامنے دھرنا دینے کی دھمکی دے ڈالی۔ پھر دھماکہ ہو گیا، شہبازشریف نے راجہ صاحب کو اپنے پاس حاضر خدمت ہونے کا حکم دیا۔ فوراً راجہ صاحب ان کی خدمت میں حاضر جناب ہو کے بیٹھے تھے۔ یہ اس دن ہوا جب شاہ عالم مارکیٹ کے شعلے پورے شہر میں دیکھے جا رہے تھے۔ 19 نکاتی ایجنڈے پر کمیٹی بنانے کے لئے اتفاق ہو گیا اور راجہ ریاض نے دھرنا ملتوی کر دیا۔ مفاہمت کی سیاست پھر رنگ لے آئی۔ نوازشریف کے دس نکاتی ایجنڈے پر بھی دونوں حکومتی پارٹیوں نے اپنی اپنی کمیٹی بنائی ہے دونوں کمیٹیوں میں یکجہتی یعنی کام نہ کرنے کی رفتار کا اندازہ کرنے کے لئے اسحاق ڈار اور حفیظ شیخ کی ملاقاتیں بھی ہوتی رہتی ہیں۔ دونوں ہم مرتبہ آدمی ہیں۔ وفاقی کمیٹی کا کچھ نہیں ہوا، تو صوبائی کا کیا ہوگا۔ وفاقی اور صوبائی حکومت کی کارکردگی اور مستقبل ایک جیسا ہے۔ پیپلز پارٹی صوبے میں مسلم لیگ ن کی حکومتی اپوزیشن ہے۔ مسلم لیگ ن وفاق کی فرینڈلی اپوزیشن ہے یہ دلچسپ جمہوری دور حکومت ہے کہ تمام پارٹیاں حکومت میں ہیں اور اپوزیشن بھی ہیں۔
راجہ ریاض نے اصل بات سے پردہ اٹھایا ہے کہ ہم پنجاب حکومت میں یونیفکیشن بلاک کی شمولیت کی مخالفت کریں گے۔ پیپلز پارٹی کو حکومت سے نکالا گیا تو حکمت عملی (حکومت عملی) کا اعلان کریں گے۔ سردار صاحب سے کہا گیا کہ پاکستانی جھنڈے میں مسیحی اقلیت کا سفید نشان ہے مگر سکھ اقلیت کا کچھ بھی نہیں ہے تو سردار صاحب نے غصے سے کہا کہ یہ ڈنڈا جس میں سارا جھنڈا لپٹا ہوتا ہے کس کا نشان ہے تب سے ہمارے حکومتی سرداروں نے جان لیا ہے کہ ڈنڈے کے بغیر جھنڈے کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اب تو ایجنڈے جھنڈے اور ڈنڈے میں کوئی فرق نہیں رہا۔ کسی سیاسی جماعت کے اجتماع میں پاکستان کا جھنڈا نہیں ہوتا۔ صرف پارٹی جھنڈا ہوتا ہے۔ اپنے اپنے ایجنڈے کے لئے جھنڈے اور ڈنڈے کو ایک طرح سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ عوام کو دونوں سے مارا جا رہا ہے ۔ گول مول کانفرنس صدر زرداری کی مفاہمتی سیاست کا ایک اور شاہکار ہے۔ میرے خیال میں امریکی قاتل ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے لئے سب کو اعتماد میں لینا ہے۔
شکر ہے کہ صدر زرداری کو قومی امور پر مشاورت کےلئے گول میز کانفرنس بلانے کا خیال آیا ہے۔ اس کا نتیجہ بھی وہی ہو گا جو حکومتی اور اپوزیشن کی سیاسی سرگرمیوں کے بعد ہوتا ہے۔ نواز شریف سرگرم ہوتے ہیں پھر گرم ہوتے ہیں اور پھر جمہوری گرما گرمی ہونے لگتی ہے۔ صدر زرداری نے اپنے آپ کو بہت بڑا روایتی اور پکا سیاستدان ثابت کیا ہے۔ تین برسوں میں مسلم لیگ ن اور نواز شریف کی اپنی ایک بات بھی نتیجہ خیز نہیں ہوئی۔ دس نکاتی ایجنڈے کا ڈنڈا صدر زرداری کے سر پر لگا ہے۔ انہیں زخم تو نہیں ہوا البتہ اس ”ضرب کاری“ کی آواز دور دور تک سنائی دی ہے۔ گول میز کانفرنس بلانے کا آوازہ بلند ہوتے ہی مزید خاموشی چھا گئی ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے نہ صرف گول میز کانفرنس کی دعوت قبول کی ہے بلکہ اس سے پہلے صدر کی طرف سے ظہرانے (لنچ) کی دعوت بھی قبول کر لی ہے۔ صدر زرداری نے خاص طور پر ہدایت کی ہے کہ گول بوٹی والی ڈش تیار کی جائے۔ ہمارے ہاں دعوت سے مراد کھانے کی دعوت ہوتی ہے‘ دعوت آئی تو عداوت ختم ہو گئی۔ نواز شریف پیپلز پارٹی اور صدر زرداری پر برہم ہوتے ہیں پھر درہم برہم ہوتے ہیں اور اس کے بعد جمہوری نظام کےلئے ان کے دل میں حکومت بچانے کی خواہش اور کوشش رل مل جاتی ہے اور کسی کو کچھ سمجھ میں نہیں آتا خود ان کی اپنی سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ ان کے ساتھ اور ان کی حکومتی اپوزیشن کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ انہوں نے دس نکاتی ایجنڈے کی منظوری کےلئے تین دن ”ہاں یا ناں“ کےلئے دیئے اور پھر 45دن ہاں میں ہاں ملانے کےلئے دے دیئے۔ 30دن گزر چکے ہیں اور کچھ بھی نہیں ہوا۔ ابھی تو ناں میں ناں ملانے کا وقت بھی نہیں آیا پنجاب حکومت کے پیپلز پارٹی کے سینئر وزیر راجہ ریاض نے نواز شریف کے ہاتھ میں 19نکاتی ایجنڈا تھما دیا اس ایجنڈے سے مفاہمتی ڈنڈے اور پارٹی جھنڈے میں کوئی فرق نہیں رہا۔ راجہ ریاض کے 19 نکات میں یہ بھی اشارہ ہے کہ ہمیں ایجنڈا بھجواتے ہوئے آپ 9 نکات بھول گئے تھے ہم ایک کشتی کے سوار ہیں۔ دریا کے دونوں کنارے ایک جیسے ہوتے ہیں جو کسی پار نہ اُترنا چاہے تو اس میں دریا کا کیا قصور ہے ؟
ایک دریا کے پار اُترا تو میں نے دیکھا
ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
مجھے اس بار مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی میں کوئی فرق نظر نہیں آیا۔ راجہ ریاض بہت جوش میں تھے جھوٹ موٹ کا غصہ بھی ان کے اشاروں میں تھا۔ انہیں اپنے ایجنڈے کے جواب کے قابل ہی کسی نے نہ سمجھا۔ راجہ ریاض نے منگل کو پنجاب اسمبلی کے سامنے دھرنا دینے کی دھمکی دے ڈالی۔ پھر دھماکہ ہو گیا، شہبازشریف نے راجہ صاحب کو اپنے پاس حاضر خدمت ہونے کا حکم دیا۔ فوراً راجہ صاحب ان کی خدمت میں حاضر جناب ہو کے بیٹھے تھے۔ یہ اس دن ہوا جب شاہ عالم مارکیٹ کے شعلے پورے شہر میں دیکھے جا رہے تھے۔ 19 نکاتی ایجنڈے پر کمیٹی بنانے کے لئے اتفاق ہو گیا اور راجہ ریاض نے دھرنا ملتوی کر دیا۔ مفاہمت کی سیاست پھر رنگ لے آئی۔ نوازشریف کے دس نکاتی ایجنڈے پر بھی دونوں حکومتی پارٹیوں نے اپنی اپنی کمیٹی بنائی ہے دونوں کمیٹیوں میں یکجہتی یعنی کام نہ کرنے کی رفتار کا اندازہ کرنے کے لئے اسحاق ڈار اور حفیظ شیخ کی ملاقاتیں بھی ہوتی رہتی ہیں۔ دونوں ہم مرتبہ آدمی ہیں۔ وفاقی کمیٹی کا کچھ نہیں ہوا، تو صوبائی کا کیا ہوگا۔ وفاقی اور صوبائی حکومت کی کارکردگی اور مستقبل ایک جیسا ہے۔ پیپلز پارٹی صوبے میں مسلم لیگ ن کی حکومتی اپوزیشن ہے۔ مسلم لیگ ن وفاق کی فرینڈلی اپوزیشن ہے یہ دلچسپ جمہوری دور حکومت ہے کہ تمام پارٹیاں حکومت میں ہیں اور اپوزیشن بھی ہیں۔
راجہ ریاض نے اصل بات سے پردہ اٹھایا ہے کہ ہم پنجاب حکومت میں یونیفکیشن بلاک کی شمولیت کی مخالفت کریں گے۔ پیپلز پارٹی کو حکومت سے نکالا گیا تو حکمت عملی (حکومت عملی) کا اعلان کریں گے۔ سردار صاحب سے کہا گیا کہ پاکستانی جھنڈے میں مسیحی اقلیت کا سفید نشان ہے مگر سکھ اقلیت کا کچھ بھی نہیں ہے تو سردار صاحب نے غصے سے کہا کہ یہ ڈنڈا جس میں سارا جھنڈا لپٹا ہوتا ہے کس کا نشان ہے تب سے ہمارے حکومتی سرداروں نے جان لیا ہے کہ ڈنڈے کے بغیر جھنڈے کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اب تو ایجنڈے جھنڈے اور ڈنڈے میں کوئی فرق نہیں رہا۔ کسی سیاسی جماعت کے اجتماع میں پاکستان کا جھنڈا نہیں ہوتا۔ صرف پارٹی جھنڈا ہوتا ہے۔ اپنے اپنے ایجنڈے کے لئے جھنڈے اور ڈنڈے کو ایک طرح سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ عوام کو دونوں سے مارا جا رہا ہے ۔ گول مول کانفرنس صدر زرداری کی مفاہمتی سیاست کا ایک اور شاہکار ہے۔ میرے خیال میں امریکی قاتل ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے لئے سب کو اعتماد میں لینا ہے۔