خدا جانے باقی حلقوں کا کیا حال ہے‘ مگر جو زبوں حالی ایم این اے روحیل اصغر کے حلقہ این اے 124 کی ہے‘ وہ اپنی مثال آپ ہے۔ ووٹ لینے کے زمانے سے لے کر اب تک ایک زمانہ ہو گیا ہے کہ موصوف ایم این اے نے اپنے حلقے کی خبر نہیں لی۔ نیو کینال پوائنٹ ہاﺅسنگ سکیم میں سڑکوں کی بری حالت‘ سٹریٹ لائٹس کی عدم موجودگی‘ کالونی کے آخری حصے میں سوئی گیس کی عدم فراہمی‘ جبکہ رہائشیوں کو گیس کےلئے درخواستیں دیئے پانچ سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے۔ کالونی کے آخری حصے میں سرکاری پانی کا نہ ہونا‘ پولیس پٹرولنگ سے محرومی‘ چوری ڈکیتی کا عام ہونا‘ یہ ہیں وہ مسائل جن سے نیو کینال پوائنٹ ہاﺅسنگ سکیم دوچار ہے۔ سڑکوں کی بری حالت اور کالونی کے آخری حصے میں گیس کی عدم فراہمی کے بارے میں ایک مرتبہ ایم این اے سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ میرے بیٹے سے رجوع کیا جائے‘ جبکہ موصوف کو خود موقع پر جا کر حالات کا معائنہ کرنا چاہئے اور رہائشیوں سے استفسار کرکے انکے مسائل معلوم کرنے چاہئیں۔ سب سے بڑا مسئلہ کینال پوائنٹ ہاﺅسنگ کالونی کے آخری حصے میں گیس کا نہ ہونا ہے‘ جبکہ اسکے آس پاس ہر جگہ گیس موجود ہے‘ میں خود اس کالونی کے آخری حصے میں پی وی سی پائپ فیکٹری کے پاس رہتا ہوں‘ اس لئے جو بھی لکھا ہے‘ دیکھ کر لکھا ہے۔ ”شنیدہ کے بود مانند دیدہ“ آنکھوں دیکھا کب سنی سنائی کی مانند ہو سکتا ہے۔
شیخ روحیل اصغر ایم این اے نہایت حلیم الطبع اور فیاض منش انسان ہیں اور مسلم لیگ نون سے ان کا تعلق ان کی فضیلت میں اضافہ کر دیتا ہے۔ ہمیں پوری توقع ہے کہ وہ اپنے حلقے کے اس حصے کی طرف بھی توجہ دینگے اور کچھ فنڈز اس پر بھی خرچ کرینگے۔ ہم یہاں یہ بھی کہتے چلیں کہ ووٹروں کا استحقاق بنتا ہے کہ وہ اپنے اپنے حلقوں کے ایم این ایز سے رابطہ رکھیں اور اپنے علاقے کی مشکلات حل کرنے کیلئے کہیں‘ اس لئے ضروری ہے کہ لاہور شہر کے تمام حلقوں کے ایم این ایز اپنے اپنے حلقوں کی خبر گیری کرتے رہا کریں تاکہ انکی سیاسی ساکھ مستحکم ہوتی رہے۔ یہی جمہوریت کا چلن ہے‘ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ووٹ لیتے وقت تو امیدوار کوثر و تسنیم سے دھلی زبان میں بات کریں اور بعد میں بات سننے کے بھی روادار نہ ہوں یا دھتکار دیں۔ ایم این ایز کے کاندھوں پر اللہ نے خلق خدا کی ذمہ داری ڈالی ہے‘ اگر وہ صدقِ دل سے اپنے منتخب کنندگان کی شنوائی کریں اور انکی خدمت کیلئے قومی خزانے سے ملنے والے فنڈز پوری ایمانداری کے ساتھ خرچ کریں‘ تو یہ بہترین عبادت ہے اور لوگوں کی ضرورت مندوں کی دعائیں الگ تحفہ ہیں۔ ہمارے ہاں بدقسمتی سے سیاست دان بھی بیورو کریسی جیسا رویہ رکھنے لگے ہیں‘ جو انکے شایان شان نہیں۔
پنجاب میں اکثر و بیشتر قومی حلقوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے‘ ہماری ایم پی ایز سے گزارش ہے کہ وہ بھی اپنے حلقوں پر نظر کرم ڈالیں‘ یہ مال و دولتِ دنیا تو یہیں رہ جانی ہے اور پھر بالخصوص وہ دولت جو عوامی نمائندوں کو لوگوں کی بھلائی کے کاموں کیلئے دی جاتی ہے‘ وہ تو عوام ہی کی امانت ہوتی ہے جس کی پوچھ گچھ یہاں نہیں تو عنداللہ تو بہرصورت ہونی ہے اس لئے لازم ہے کہ عوامی فنڈز کو عوام الناس ہی پر خرچ کیا جائے۔ میں اپنی مثال دیتا ہوں کہ میں جن سڑکوں سے گھر پہنچتا ہوں‘ تو میری ہڈی پسلی ایک ہو جاتی ہے اور سوئی گیس جو میرے گھر سے 600 میٹر کی دوری پر ہے‘ اس سے میں اور میرے ساتھ کئی گھرانے محروم ہیں۔ سلنڈروں پر گزارا کرتے ہیں اور ایک سلنڈر 1500 روپے میں ملتا ہے جبکہ مہینہ بھر میں کم از کم تین سلنڈر خرچ ہوتے ہیں۔ مجھے درخواست گزارے ہوئے چھ سال بیت گئے ہیں مگر گیس نہیں ملی‘ امید ہے کہ موصوف ہماری باتوں کا برا نہیں منائیں گے اور ہماری عرضداشت پر توجہ دیں گے۔
شیخ روحیل اصغر ایم این اے نہایت حلیم الطبع اور فیاض منش انسان ہیں اور مسلم لیگ نون سے ان کا تعلق ان کی فضیلت میں اضافہ کر دیتا ہے۔ ہمیں پوری توقع ہے کہ وہ اپنے حلقے کے اس حصے کی طرف بھی توجہ دینگے اور کچھ فنڈز اس پر بھی خرچ کرینگے۔ ہم یہاں یہ بھی کہتے چلیں کہ ووٹروں کا استحقاق بنتا ہے کہ وہ اپنے اپنے حلقوں کے ایم این ایز سے رابطہ رکھیں اور اپنے علاقے کی مشکلات حل کرنے کیلئے کہیں‘ اس لئے ضروری ہے کہ لاہور شہر کے تمام حلقوں کے ایم این ایز اپنے اپنے حلقوں کی خبر گیری کرتے رہا کریں تاکہ انکی سیاسی ساکھ مستحکم ہوتی رہے۔ یہی جمہوریت کا چلن ہے‘ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ووٹ لیتے وقت تو امیدوار کوثر و تسنیم سے دھلی زبان میں بات کریں اور بعد میں بات سننے کے بھی روادار نہ ہوں یا دھتکار دیں۔ ایم این ایز کے کاندھوں پر اللہ نے خلق خدا کی ذمہ داری ڈالی ہے‘ اگر وہ صدقِ دل سے اپنے منتخب کنندگان کی شنوائی کریں اور انکی خدمت کیلئے قومی خزانے سے ملنے والے فنڈز پوری ایمانداری کے ساتھ خرچ کریں‘ تو یہ بہترین عبادت ہے اور لوگوں کی ضرورت مندوں کی دعائیں الگ تحفہ ہیں۔ ہمارے ہاں بدقسمتی سے سیاست دان بھی بیورو کریسی جیسا رویہ رکھنے لگے ہیں‘ جو انکے شایان شان نہیں۔
پنجاب میں اکثر و بیشتر قومی حلقوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے‘ ہماری ایم پی ایز سے گزارش ہے کہ وہ بھی اپنے حلقوں پر نظر کرم ڈالیں‘ یہ مال و دولتِ دنیا تو یہیں رہ جانی ہے اور پھر بالخصوص وہ دولت جو عوامی نمائندوں کو لوگوں کی بھلائی کے کاموں کیلئے دی جاتی ہے‘ وہ تو عوام ہی کی امانت ہوتی ہے جس کی پوچھ گچھ یہاں نہیں تو عنداللہ تو بہرصورت ہونی ہے اس لئے لازم ہے کہ عوامی فنڈز کو عوام الناس ہی پر خرچ کیا جائے۔ میں اپنی مثال دیتا ہوں کہ میں جن سڑکوں سے گھر پہنچتا ہوں‘ تو میری ہڈی پسلی ایک ہو جاتی ہے اور سوئی گیس جو میرے گھر سے 600 میٹر کی دوری پر ہے‘ اس سے میں اور میرے ساتھ کئی گھرانے محروم ہیں۔ سلنڈروں پر گزارا کرتے ہیں اور ایک سلنڈر 1500 روپے میں ملتا ہے جبکہ مہینہ بھر میں کم از کم تین سلنڈر خرچ ہوتے ہیں۔ مجھے درخواست گزارے ہوئے چھ سال بیت گئے ہیں مگر گیس نہیں ملی‘ امید ہے کہ موصوف ہماری باتوں کا برا نہیں منائیں گے اور ہماری عرضداشت پر توجہ دیں گے۔