لاہور (سپیشل رپورٹر) پنجاب میں کنٹریکٹ پر کام کرنے والے 8 ریٹائرڈ افسروں نے استعفے دے دئیے ہیں تاہم انہیں فارغ کرنے کے نوٹیفکیشن روک دئیے گئے ہیں‘ کنٹریکٹ بھرتی قانون کے تحت کنٹریکٹ پر تعینات کوئی افسر نوٹس دئیے بغیر استفعیٰ دے سکتا ہے‘ رات گئے سول سیکرٹریٹ میں کنٹریکٹ پر لگے آٹھ افسروں کو نوکری سے فارغ کرنے کا نوٹیفکیشن تیار کر کے جب اعلیٰ حکام کو منظوری کے لئے بھیجا گیا تو اس بات پر اختلاف آگیا کہ جب ان افسروں نے استعفیٰ دے دیا ہے تو ان کو برطرف کرنے کا نوٹیفکیشن جاری ہو سکتا ہے یا نہیں جس پر رات گئے نوٹیفکیشن جاری کرنے کی بجائے ان کے استعفے قبول کر لئے گئے۔ سپریم کورٹ نے ریٹائرمنٹ کے بعد سرکاری اداروں میں تعینات اعلیٰ افسروں کی فہرستیں اور ان کی تعیناتی پر اعتراضات لگائے تھے‘ وفاق سمیت چاروں صوبوں سے ان افسروں کو ملنے والی مراعات اور ان کی تعیناتی کے بارے میں رپورٹ طلب کی تھی جس پر گذشتہ روز وزیر اعلیٰ پنجاب نے ان 8 افسروں کو یہ آپشن دی کہ وہ یا تو خودبخود استعفیٰ دے دیں ورنہ ان کے کنٹریکٹ ختم کر کے انہیں برطرف کر دیا جائے گا۔ جس پر آٹھ افسروں رانا مقبول احمد سیکرٹری پراسیکیویشن پنجاب، جنرل (ریٹائرڈ) ضیاءالدین بٹ چیئرمین وزیر اعلیٰ انسپکشن ٹیم، جسٹس (ر) کاظم علی ملک ڈی جی اینٹی کرپشن، کرنل (ریٹائرڈ) احسان ڈی جی سول ڈیفنس، شعیب بن عزیز (پریس سیکرٹری وزیر اعلیٰ) کرنل (ریٹائرڈ) محمود (ڈی آئی جی سپیشل برانچ) نذر چوہان (چیئرمین لیکوڈیشن بورڈ) نے اپنے استعفے بھیجے جنہیں منظور کر لیا گیا جس پر ان کی برطرفی کے نوٹیفکیشن روک دئیے گئے‘ اس وقت بھی پنجاب میں متعدد اعلیٰ افسروں کو سیاسی بنیادوں پر کنٹریکٹ پر تعینات کیا گیا ہے ان میں اے زیڈ کے شیردل، ڈاکٹر جاوید غنی، رضوان خان، یوسف کمال، سلمان غنی اور سیکرٹری قانون پنجاب ابوالحسن نجمی ابھی تک کنٹریکٹ پر تعینات ہیں‘ انہیں فارغ کرنے کے بارے میں یا ان کے استعفیٰ سے متعلق کوئی اطلاعات نہیں‘ اس حوالے سے ذرائع نے کہا کہ ایسی تمام پوسٹوں پر جو کہ پروموشن پوسٹ ہیں یا ان پر سروسز کے لوگ تعینات ہیں ان پر لگے سابق افسروں ہی کو فارغ کیا جائے گا اور جو لوگ ایسی پوسٹوں پر لگے ہیں جہاں تعیناتی وزیر اعلیٰ پنجاب یا اس ادارے کے بورڈ آف گورنر کی صوابدید پر ہوتی ہے وہ تعینات رہیں گے۔ رات گئے تک نوٹیفکیشن جاری کرنے یا نہ کرنے پر بات چیت ہوتی رہی کیونکہ کنٹریکٹ پالیسی کے تحت جو خود استعفیٰ دے اس کا نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوتا صرف استعفیٰ منظور ہوتا ہے‘ رات گئے بعض ذرائع نے دعویٰ کیا کہ استعفے منظور نہیں کئے گئے کیونکہ آج سپریم کورٹ میں لسٹ پیش کر کے اس پر سپریم کورٹ کے احکامات کو دیکھا جائے گا اگر انہوں نے فارغ کرنے کے احکامات جاری کئے تو ان کے استعفے آج کی تاریخ سے ہی منظور کر لئے جائیں گے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد کنٹریکٹ پر بھرتی ہونے والے اعلیٰ سرکاری افسروں کی فہرستیں آج سپریم کورٹ میں پیش کی جائیں گی۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایسے سرکاری افسر جن کو ریٹائرمنٹ کے بعد کنٹریکٹ پر دوبارہ بھرتی کیا گیا یا انہیں توسیع دی گئی کو غیر قانونی قرار دیا تھا جس کی روشنی میں وفاقی حکومت کی ہدایت پر اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے ایسے تمام سرکاری افسروں کی فہرستیں مرتب کر لی ہیں جو ریٹائرمنٹ کے بعد کنٹریکٹ پر دوبارہ بھرتی ہوئے تھے چاروں صوبوں نے رپورٹ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو ارسال کر دی‘ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے فہرست مرتب کر لی ہے جس سے 200 سے زیادہ سیکشن افسروں کے متاثر ہونے کا سب سے زیادہ خدشہ ہے۔ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور آئی ایس آئی کے سربراہ کو توسیع دی گئی تھی۔ کراچی سے وقائع نگار کے مطابق سپریم کورٹ کی ہدایت پر حکومت سندھ نے صوبے بھر میں ریٹائرمنٹ کے بعد کنٹریکٹ پر کام کرنے والے افسروں کی فہرست کو حتمی شکل دے دی ہے‘ 91 افسروں کی یہ فہرست آج ایڈووکیٹ جنرل سندھ فتح ملک سپریم کورٹ میں چیف جسٹس جناب جسٹس افتخار محمد چودھری پر مشتمل بنچ کے روبرو پیش کریں گے۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ ایک صفحے پر مشتمل رپورٹ بمع 91 افسران کی فہرست آج سپریم کورٹ میں پیش کریں گے اور 17 اعلیٰ افسروں کی خدمات حکومت سندھ کے لئے برقرار رکھنے کی سفارش بھی کریں گے۔ تمام 91 افسروں کے مستقبل کا فیصلہ سپریم کورٹ پر چھوڑ دیا ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38