اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) وفاقی کابینہ مستعفی ہو گئی ہے، تمام وزراءنے استعفے وزیراعظم کو پیش کر دئیے، وفاقی کابینہ کے الوداعی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے مستعفی وزراءکی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہماری حکومت نے تاریخ ساز فیصلے کئے اور ملک کو معاشی استحکام اور ترقی کے راستے پر ڈالا۔ این ایف سی ایوارڈ‘ آغاز حقوق بلوچستان‘ 18 ویں اور 19 ویں ترمیم کی منظوری بڑے کارنامے ہیں۔ زرمبادلہ کے ذخائر اور ترسیلات بڑھیں‘ سٹاک مارکیٹ 12 ہزار پوائنٹ کو عبور کر گئی‘ یہ سرمایہ کاروں کا اظہار اعتماد ہے۔ ان کامیابیوں میں وفاقی وزراءکی محنت اور خلوص کا بڑا عمل دخل ہے جس کے لئے وہ تمام کابینہ ممبران کے شکر گزار ہیں۔ اجلاس میں تمام مشیر بھی مستعفی ہو گئے۔ وفاقی کابینہ نے اجلاس میں صدر آصف علی زرداری کا بھی شکریہ ادا کیا۔ وزیراعظم نے وفاقی کابینہ کے 76 ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس سے قبل کابینہ کے 75 اجلاس منعقد ہو چکے ہیں۔کابینہ کے 605 فیصلوں پر عمل کیا گیا جبکہ 179 فیصلوں پر عمل جاری ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کابینہ کے 77 فیصد فیصلوں پر عمل درآمد ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جس وقت حکومت نے زمام اقتدار سنبھالی اس وقت مشکل حالات درپیش تھے‘ ملک کو معاشی زبوں حالی کا سامنا تھا اور قوم کی بقاءکے بارے میں شکوک ظاہر کیے جارہے تھے۔ ہم نے حکومت کو کامیابی سے چلایا اور ملک کو معاشی بحالی کے راستے پر ڈال دیا۔ برآمدات بڑھیں‘ زرمبادلہ کے ذخائر 17 بلین ڈالر کی بلند ترین سطح پر چلے گئے۔ انہوں نے کہا کہ آغاز حقوق بلوچستان اہم فیصلہ تھا جبکہ مشترکہ مفادات کونسل کو موثر ادارہ بنایا گیا۔ ملک کو بدترین سیلاب کا سامنا کرنا پڑا تاہم قوم نے قدرتی آفت کا مقابلہ کیا۔ اس مشکل وقت میں دنیا نے پاکستان کی مدد کی جس کے لیے شکر گزار ہیں۔ وفاقی وزراءکے مستعفی ہونے کے بعد اخلاقی طور پر تو کابینہ تحلیل ہو گئی ہے تاہم تکنیکی بناءپر یہ کام کرتی رہے گی کیونکہ وزیراعظم نے وفاقی وزراء کو کام جاری رکھنے کی ہدایت بھی کی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ وفاقی کابینہ کے اجلاس سے قبل ہی وفاقی وزراءنے اپنے استعفے لکھ کر مستعفی وزیر اطلاعات و نشریات قمر زمان کائرہ کے حوالے کر دیئے تھے جبکہ کابینہ میں وزراءمملکت نے شرکت نہیں کی تھی۔ ان کے استعفے بھی وزیراعظم سیکرٹریٹ میں جمع کئے جائیں گے۔ مستعفی وزیر اطلاعات و نشریات قمر زمان کائرہ نے نوائے وقت سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی وزرائ‘ وزراءمملکت‘ مشیروں کے استعفے وزیراعظم سیکرٹریٹ صدر مملکت کو بھیجے گا۔ ایوان صدر ان کی منظوری دینے کا اعلان کرے گا جس کے فوری بعد استعفے منظور سمجھے جائیںگے اور کابینہ عملاً تحلیل ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ مستعفی ہونے کے بعد وزراءاخلاقی طور پر وزیر نہیں رہے ہیں جبکہ وزیراعظم نے نئی کابینہ کی تشکیل پانے تک کام کرنے کی بھی ہدایت کی ہے۔ انہوں نے کہاکہ کابینہ اجلاس میں کسی وزیر کے استعفیٰ دینے سے انکار کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا ہے۔آن لائن کے مطابق وزیراعظم کی طرف سے وفاقی کابینہ کے آخری اجلاس میں مدعو نہ کرنے پر وزرائے مملکت نے اظہار ناراضگی کرتے ہوئے گیلانی کو احتجاجاً استعفے ہی نہیں بھجوائے۔ دریں اثناءوزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ حکومت اچھی حکمرانی پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے اور ان کو یقین ہے کہ اچھی حکمرانی اچھی سیاست بھی ہے وزیراعظم نے ان خیالات کا اظہار گزشتہ روز وفاقی سیکرٹریز‘ اور دوسرے اعلیٰ افسروں کے اعزاز میں دیئے جانے والے ڈنر میں خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ بیورو کریسی حکومت کے ویژن کو عملی شکل دینے میں اہم کردار ادا کرتی ہے حکومت کا کام پالیسی دینا ہے انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت کو قائم ہوئے کم و بیش تین سال ہوگئے ہیں حکومت نے ملک کو غیر جمہوری طرز حکمرانی کے سائے سے نکالنے کی کوشش کی اور ایسا کلچر بنانے کی بھی کوشش کی جہاں ادارے آئین اور قانون کے مطابق اپنا کام کر سکیں۔ اسلام آباد (سپیشل رپورٹ + وقت نیوز + مانیٹرنگ ڈیسک) جمعیت علماءاسلام کے امیر مولانا فضل الرحمن نے صدر زرداری کی طرف سے بلائی گئی گول میز کانفرنس پر اعتراض اٹھایا ہے کہ یہ کانفرنس ایسے موقع پر بلائی جا رہی ہے جب کہ ملک میں کوئی ایسا بڑا بحران نہیں جس کے لئے گول میز کانفرنس بلائی جائے۔ ”نوائے وقت“ کو معتبر ذرائع نے بتایا ہے کہ مولانا فضل الرحمن نے صدر زرداری سے دوپہر کے کھانے پر ملاقات کی ہے۔ اس میں انہوں نے صدر زداری سے کہا کہ آپ کو یہ گول میز کانفرنس اس وقت بلانی چاہئے تھی جب تحریک تحفظ ناموس رسالت چل رہی تھی اور پورا ملک اس تحریک کی حمایت کر رہا تھا‘ اس وقت حکومت نے چپ سادھ لی تھی۔ مولانا فضل الرحمن نے صدر کو اپنے تحفظات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ عام تاثر یہ ہے کہ یہ کانفرنس امریکی باشندے ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے لئے راہ ہموار کرنے کی غرض سے بلائی جا رہی ہے۔ صدر زرداری نے مولانا فضل الرحمن کو یقین دلایا کہ وہ خود ناموس رسالت قانون میں ترمیم یا تبدیلی کے خلاف ہیں اس لئے انہوں نے اس کی مخالفت کی ہے۔ مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کے دوران صدر زرداری نے وزیراعظم کو فون کیا اور کہا کہ وہ مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کریں اور ناموس رسالت ایکٹ میں ترمیم نہ کرنے کے بارے میں انہیں حکومتی پالیسی پر بریفنگ دیں۔ مولانا فضل الرحمن نے گذشتہ شام صدر کی سفارش پر وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سے بھی طویل ملاقات کی۔ وقت نیوز کے مطابق وزیراعظم نے مولانا فضل الرحمن پر زور دیا کہ وہ حکومت میں شامل ہوں اور کابینہ میں بھی ان کے ارکان کو شامل کیا جائے گا۔ وزیراعظم نے جے یو آئی (ف) کے تحفظات کو دور کرنے کی یقین دہانی بھی کرا دی تاہم ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمن نے نئی کابینہ میں بھی شمولیت سے معذرت کر لی ہے۔ یوسف رضا گیلانی نے گذشتہ روز مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کے دوران وزارت قانون کی طرف سے بھیجی گئی اس سمری پر دستخط کر دیئے ہیں جس میں یہ سفارش کی گئی ہے کہ آئین پاکستان میں توہین رسالت ایکٹ میں ترمیم کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ وزیراعظم نے سمری پر دستخط کرنے کے بعد ایک نقل مولانا فضل الرحمن کو بھی فراہم کر دی جس پر مولانا نے کہا کہ وہ یہ نقل تحریک تحفظ ناموس رسالت میں شامل علما کو پیش کریں گے۔ مانیٹرنگ ڈیسک کے مطابق مولانا فضل الرحمن نے نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ قوم اضطراب کا شکار ہے‘ امریکہ کو بالادستی کیوں حاصل ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کے معاملے میں گول میز کانفرنس میں نقطہ نظر پیش کریں گے‘ ہماری جماعت کا اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ اٹل ہے۔ جنرل مشرف کے دور سے پاکستان میں امریکہ کا دخل بہت زیادہ ہو چکا ہے۔ ریمنڈ ڈیوس اس کی مثال ہے‘ امریکہ کو اتنی آزادی حاصل ہے کہ ہماری ہی سرزمین پر ہمارے لوگوں کو آزادی کے ساتھ قتل کرے اور کہیں کہ ہمارا کوئی جرم نہیں ہے۔ عافیہ صدیقی ان کی سرزمین پر قید کی صعوبتیں برداشت کرے اور اپنے آدمی کے بارے میں کہیں کہ اسے ہمارے حوالے کرو۔ این این آئی کے مطابق وزیر داخلہ رحمن ملک نے کہا ہے کہ حکومت ملک میں امن و امان اور سکیورٹی کی صورتحال کو مزید بہتر بنانے کے لئے انتہائی سنجیدہ ہے اور اس سلسلہ میں تمام وسائل بروئے کار لائے جا رہے ہیں‘ وہ مولانا فضل الرحمن کی ملاقات کے دور ان گفتگو کر رہے تھے۔ جس میں ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال اور ربیع الاول کے موقع پر ملک میں امن و امان اور سکیورٹی کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ حکومت ملک میں امن و امان اور سکیورٹی کی صورتحال کو مزید بہتر بنانے کے لئے انتہائی سنجیدہ ہے اور اس سلسلہ میں تمام وسائل بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔ جے یو آئی (ف) کے ترجمان مولانا محمد امجد خان نے میڈیا کو بتایا کہ صدر زرداری اور مولانا فضل الرحمن ملاقات میں صدر نے کابینہ کی نئی تشکیل میں جے یو آئی کو شرکت کی دعوت دی اس پر مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ جے یو آئی کے نزدیک نئی کابینہ قوم کے لئے کوئی ایشو نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ قانون ناسوس رسالت کے حوالے سے مذہبی جماعتوں میں پائی جانے والی تشویش ہے‘ حکومت ناموس رسالت کے قانون میں ترمیم کے حوالے سے دوٹوک موقف کا اظہار نہیں کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جے یو آئی کے سربراہ ملاقات کے بعد تحریک ناموس رسالت میں شامل جماعتوں کے سربراہان سے رابطہ کریں گے۔ نجی ٹی وی کے مطابق ایم کیو ایم نے نئی وفاقی کابینہ میں شمولیت سے انکار کر دیا۔ ذرائع کے مطابق ایم کیو ایم میثاق معیشت پر عملدرآمد کے بعد کابینہ میں شمولیت کا فیصلہ کرے گی۔ وزیراعظم نے الطاف حسین کو کابینہ میں شمولیت کی پیشکش کی تھی۔ رحمن ملک نے بھی ایم کیو ایم سے کابینہ میں شرکت کی درخواست کی تھی۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38