صدارتی ترجمان جناب فرحت اللہ بابر کے مطابق صدر مملکت جناب آصف علی زرداری نے اہم قومی امور پر قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کیلئے پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کے راہنماﺅں پر مشتمل گول میز کانفرنس طلب کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کانفرنس کے انعقاد کی تاریخ کا تعین سیاسی رہنماﺅں سے مشاورت کی روشنی میں کیا جائے گا۔ پارٹی رہنماﺅں کے مطابق مسلم لیگ (ن) کی طرف سے 10 نکاتی ایجنڈے پر حکومت کو دی گئی مہلت جلد ختم ہونے والی ہے اس موقع پر گول میز کانفرنس کی دعوت محض مزید وقت حاصل کرنا ہے۔ جہاں تک درپیش اندرونی و بیرونی چیلنجز کا تعلق ہے ان کا مجوزہ حل 10 نکاتی ایجنڈا میں پہلے ہی حکومت کو پیش کیا جا چکا ہے۔ دوسرے لفظوں میں مسلم لیگ (ن) کی طرف سے صدر کی گول میز کانفرنس کی دعوت کا حوصلہ افزا جواب سامنے نہیں آیا جسے ایک طرح کی معذرت بھی کہا جا سکتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے بھی صدر کی طرف سے نہ صرف گول میز کانفرنس میں شرکت بلکہ حکومت میں دوبارہ شمولیت کی دعوت کو بھی یہ کہہ کر گول مول سا جواب دیا ہے کہ وہ (مولانا) پارٹی سے مشاورت کے بغیر ابھی کچھ نہیں کہہ سکتے۔ باقی رہ گیا مسلم لیگ (ق) کے قائدین کا دعوت پر ردعمل تو اس بارے میں مونس الٰہی کو ایف آئی اے کی درخواست پر ایک جوڈیشل مجسٹریٹ کی طرف سے اشتہاری قرار دینے اور گرفتار کر کے 11 مارچ کو عدالت میں پیش کرنے کے حکم کے بعد چودھری شجاعت اور چودھری پرویز الٰہی کو گول میز کانفرنس میں دعوت نامے پر ردعمل کا اندازہ کرنا زیادہ مشکل نہیں ہے۔ ہاں ابھی تک ایم کیو ایم کا ردعمل مثبت نظر آتا ہے کہ پاکستان کو درپیش مختلف مسائل کے حل کیلئے اگر صدر مملکت سنجیدہ ہیں تو ایم کیو ایم ایسی کانفرنس میں ایجنڈا ملنے پر شرکت کرنے سے انکار نہیں کرے گی۔ بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق صدر مملکت کا یہ بیان کہ انہوں نے ”اہم قومی امور پر قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کیلئے“ گول میز کانفرنس طلب کی ہے کے اندر دراصل یہ خفیہ ایجنڈا محسوس کرتے ہیں کہ ڈیوس ریمنڈ کے بارے میں ”قومی اتفاق رائے“ پیدا کیا جائے۔ ڈیوس ریمنڈ کا ایشو ایک پیچیدہ ایسا قومی ایشو بن چکا ہے جس کے بارے میں گول میز کانفرنس میں غور حیرانگی کی بات نہیں ہونی چاہئے کیونکہ واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان یہ ایشو اعلیٰ ترین سطح پر اس قدر الجھ چکاہے کہ اگر اسے سلجھانے کیلئے دونوں ممالک کو کسی ممکنہ تصادم کے اثرات سے محفوظ رہنے کیلئے اپنی بہترین سفارتی صلاحیتیں بروئے کار لانا ہونگی کیونکہ پاکستان کے اندرونی حالات مختلف سطحوں پر سنگین راستہ پر تیزی سے گامزن ہیں۔ ملک کی معیشت ایک سنگین بحران سے دوچار ہے۔ دہشت گردی سے ایسا لگتا ہے کہ وفاقی اور صوبائی سطح پر حکومت بے بس ہے۔ دفاعی سطح پر افواج اور امن و امان کی سطح پر پولیس اپنی محدود تعداد اور وسائل کے ساتھ ایک غیر محدود اور گھمبیر دلدل کی گرفت میں اس قدر مصروف کار ہے کہ حالات کے مزید بدتر ہونے کی صورت میں غیر متوازن ہونے کے خدشات سے دوچار ہے۔ دوسری طرف کئی حساس نوعیت کے ایسے مقدمات اعلیٰ عدالتوں کے زیر سماعت ہیں جن کے فیصلے گہرے اثرات کے حامل ہو سکتے ہیں۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024