ہم کیا ہیں؟
یہ منافقت ہے، بے حسی، بے ہمتی کا مظاہرہ ہے یا معاشی مجبوریاں عزت نفس کے پاﺅں کی بیڑیاں بن گئی ہیں اسی لئے دینِ فطرت نے مفلسی کو کفر کے نزدیک قرار دیا ہے مفلسی اور غربت میں جو باریک سا فرق ہے اسے ملحوظ نہیں رکھا جاتا۔ غربت تو روحانی مداراج طے کرنے کا وسیلہ ہے۔ زندگی کا طریق فقیری ہو تو غریبی میں نام پیدا کیا جا سکتا ہے۔ غربت میں عزت نفس کا احساس زندہ رہتا ہے جبکہ مفلسی سب سے پہلے عزتِ نفس کے احساس سے ہی آدمی کو تہی دامن کرتی ہے۔ حقیقت یہی ہے معاشی ابتری انسان کی انفرادی زندگی پر ہی منفی اثرات مرتب نہیں کرتی اجتماعی زندگی میں بھی افراتفری کا سبب بنتی ہے اپنے اردگرد طبقات کا جائزہ لیا جائے امیروں اور اونچے متوسط طبقے کے لوگوں میں ٹھہراﺅ اور ڈسپلن نظر آئے گا نچلے متوسط اور غریب طبقے کے افراد کی زندگی بدنظمی اور بے ترتیبی کا نقشہ پیش کرتی ہے۔ یہ دراصل مفلسی کا آئینہ دار ہے۔ غربت میں بھی باوقار ٹھہراﺅ زندگی کا ایک انداز بنتا ہے جسے شدید اشتعال بھی زیر و زبر نہیں کرتا۔ مصر میں لاکھوں عوام شدید اشتعال کے عالم میں سڑکوں پر ہیں الجزیرہ ٹی وی چینل سے براہ راست ٹیلی کاسٹ کیا جا رہا ہے ان مظاہرین کے روئیے ویسے ہی ہیں جیسے مظاہرین کے ہوا کرتے ہیں۔ پولیس پر پتھراﺅ، سرکاری عمارتوں کو نذر آتش کرنا لیکن ایک چیز جو بہت منفرد ہے اور اس ناچیز نے ایک ہفتے تک جس پر خصوصی توجہ مرکوز رکھی وہ ان مظاہرین کا راہگیروں کے ساتھ برتاﺅ ہے جو مسلسل تجسس اور حیرت کا باعث رہا کسی بھی جگہ ٹریفک بلاک نہیں کی گئی نہ ہی کسی پرائیویٹ گاڑی یا عمارت کو نقصان پہنچایا گیا۔ مظاہرین سڑکوں اور گلیوں میں کھڑی ہوئی گاڑیوں کے درمیان سے راستے بنا کر گزرتے رہے مختلف اطراف سے آنے والی کاروں اور موٹر سائیکل سواروں کو ہجوم میں سے رستے بنا کر نکالا جاتا رہا یہ مظاہرین جو مصری حکمرانوں کی لوٹ کھسوٹ کے باعث بے روزگاری اور معاشی ابتری کے باعث پریشانیوں اور مسائل کا شکار ہو کر اپنے غم و غصہ کا اظہار کر رہے ہیں کسی دوسرے کی کار یا موٹر سائیکل نے ان کے اندر محرومی کا وہ جنون پیدا نہیں کیا جس کی تسکین ان کی تباہی یا انہیں نذر آتش کرکے ہی ہو سکتی ہے۔ اب آزاد وطن عزیز میں ہونے والے مظاہروں پر نظر ڈالئے مظاہرین کی تعداد بیس پچیس بھی ہو تو سب سے پہلے دو طرفہ ٹریفک بلاک کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ احتجاجی جلوس تو زبان حال سے یہ اعلان کر رہا ہوتا ہے کہ ”جو بھی رستے میں آئے گا کٹ جائے گا“ پھر اس کا عملی مظاہرہ یوں ہوتا ہے کہ مظاہرین کے ہاتھوں میں پکڑے ڈنڈے راستے میں کھڑی یا گزرنے والی کاروں، بسوں اور موٹر سائیکلوں پر برسنا شروع ہو جاتے ہیں حالانکہ ان میں سے کوئی اس فعل کا ذمہ دار نہیں ہوتا جس کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا جا رہا ہوتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جو لوگ ان کے تختہ مشق کا نشانہ بنتے ہیں ان کی بہت بڑی اکثریت دل و جان سے مظاہرین کے نقطہ نظر کی حامی ہوتی ہے۔ تیونس میں اس شدت کے مظاہرے ہوئے کہ حکمرانوں کو قصرِ اقتدار سے باہر پھینک دیا گیا لیکن کسی پرائیویٹ کار، موٹر سائیکل حتیٰ کہ پبلک ٹرانسپورٹ کو بھی نقصان نہیں پہنچا کیونکہ اس میں حکومتی عہدیدار نہیں عام شہری سفر کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں اس کے برعکس کیوں ہوتا ہے اس لئے ہم بے شعور قوم ہیں خود اپنے نفع نقصان کا ادراک نہیں ہوتا حاسد لوگ ہیں کہ موقع ملنے پر دوسروں کو حاصل شدہ چیزیں تباہ کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں خود غرض ہیں کہ اپنی تکلیف پر چیخ و پکار کرتے ہوئے دوسروں کی تکلیف کا احساس نہیں کرتے اپنے اپنے فہم و ادراک کے مطابق ان سوالوں کا جواب تلاش کیا جا سکتا ہے۔