”فرصت“ اِسقدر ہے کہ مصروف ہونے کا وقت ہی نہیں ملتا۔ اور پھر حکمرانوں کے ساتھ مصروفیت تو ویسے ہی کسی نہ کسی بدنامی یا داغ دھبے کا باعث ہی بنتی ہے چاہے اِس مصروفیت کا مقصد کتنا ہی نیک کیوں نہ ہو۔ اِس لئے حکمران اپنے ساتھ مصروف ہونے کی دعوت دیں تو زیادہ تر معذرت کو ہی عافیت سمجھتا ہوں۔ پر کبھی کبھی معذرت مشکل بلکہ ”گناہ کبیرہ“ کی طرح محسوس ہوتی ہے۔ خصوصاً کوئی حکمران کسی نیک مقصد میں شریک کرنا چاہے تو معذرت ممکن ہی نہیں رہتی۔ سو اب کے بار جناب شہباز شریف کا حکم ٹالا نہیں جا سکا۔ بہاولپور کی ایک تحصیل حاصل پور میں دانش سکول کا افتتاح تھا اور میں وزیراعلیٰ کی غریب پروری کے ایسے زندہ ثبوت پر اِس دعوت سے پہلے ہی لکھ چکا ہوں۔ ضروری نہیں ہوتا حکمران کوئی اچھا کام کرے تو اُسے اُسی صورت میں سراہا جائے جب وہ ہماری انا کی تسکین کا کوئی وسیلہ کر لے یا ہیلی کاپٹر پر ساتھ بٹھا کر لے جائے۔ ہماری اپنی آنکھیں بھی کھُلی ہونی چاہئیں اور اگر ”لفافوں“ سے زیادہ نظریں ملک و قوم کے مفاد پر ہوں تو کسی حکمران کے اچھے کارنامے پر خراجِ تحسین پیش کرنے کے لئے کسی سہولت یا نعمت کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔ حاصل پور میں چار سو ایکڑ پر مشتمل دانش سکول کے ایک بڑے پنڈال میں ”محمود و ایاز“ ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے تھے۔ وزراءسفارت کار، ممبران اسمبلی اور وہ غریب لوگ جن کے بچوں کو شہباز شریف نے ایچی سن اور اِس لیول کے دیگر تعلیمی اداروں کے مقابلے میں بنائے جانے والے دانش سکول میں داخلے کا موقع فراہم کیا۔ اِس موقع پر ”خادم پنجاب زندہ باد“ کے نعرے بھی لگے اور یہ نعرے کوئی ”روایتی نعرے باز“ نہیں وہ غریب لوگ لگا رہے تھے جنہوں نے کبھی خواب بھی نہیں دیکھا تھا کہ اُن کے بچے اعلیٰ ترین اور جدید ترین سہولتوں سے آراستہ سکولوں میں تعلیم حاصل کریں گے۔ ایک بچے کے والد اور ایک کی والدہ کو اظہار خیال کے لئے سٹیج پر بلایا گیا تو اُن کی آنسو بھری داستان سن کر پنڈال میں بیٹھے کچھ ایسے دولت مندوں، جاگیر داروں، وڈیروں اور لٹیروں کی آنکھیں بھی بھر آئیں جن کے بارے میں شاعر نے کہا تھا۔
اوہدیاں روندیاں اکھاں ویکھ کے لگا اے۔۔۔۔۔ جیویں پتھراں وِچوں چشمے جاری ہو گئے نیں
خود وزیراعلیٰ پنجاب بھی جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور جب ایک بچے کے والد نے اپنی تقریر میں اُن سے ہاتھ ملانے کی خواہش کا اظہار کیا تو اُنہوں نے آگے بڑھ کر اُسے گلے سے لگا لیا۔ اِس طرح اُنہوں نے سٹیج پر ثقافتی صلاحیتوں کا خوبصورت مظاہرہ کرنے والے بچوں کو بھی دِل کھول کر داد دی۔ ایک اور عمل پر جناب شہباز شریف کو ”شاباش شریف“ کہنے کو جی چاہا جب اُنہوں نے تقریب میں موجود اپنے کچھ خاص مہمانوں کو جن میں کچھ سفارتکار بھی شامل تھے دانش سکول کے غریب اور یتیم بچوں کے ہاتھوں سے تحائف دلوائے۔ ایسی تقریبات میں عموماً مہمان خصوصی کے ہاتھوں سے تحائف دلوائے جاتے ہیں۔ شہباز شریف کے ”مہمانانِ خصوصی“ شاید یہ بچے ہی تھے جنہیں تقریب میں بیٹھے ہوئے بھی وہ مسلسل اس قدر محبت بھری نگاہوں سے دیکھتے رہے جیسے یہ اُن کی اپنی فیملی کے بچے ہوں۔ یہ ایک انتہائی منظم اور خوبصورت تقریب تھی جو تین گھنٹے تک جاری رہی اور دوران تقریب میں موجود کچھ سفارتکار، قلم کار، دانشور اور ماہرین تعلیم ایک لمحے کے لئے بھی بور نہیں ہوئے حالانکہ اِس نوعیت کی ”حکمران تقریبات“ میں بور ہونے کا اچھا خاصا سامان موجود ہوتا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب کی تقریر حسبِ معمول خاصی جذباتی تھی۔ اُن کا موقف درست ہے کہ جب ایچی سن کالج، کیڈٹ سکول اور اِس طرز کے دیگر تعلیمی ادارے بنائے جاتے ہیں تو کوئی اعتراض نہیں کرتا مگر جب ہم اِس طرز کے تعلیمی ادارے غریبوں اور یتیموں کے بچوں کے لئے تیار کرتے ہیں تو حاسدین کے پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتے ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب کی خدمت میں گزارش ہے وہ ایسے حاسدین کی پروا کئے بغیر اور اُن کا تذکرہ کئے بغیر اپنے حصے کے چراغ جلائے جائیں تو اِک دِن ضرور ایسا آئے گا جب اُن گھروں میں بھی چراغ بلکہ ”گلی کے چراغ“ جلنے شروع ہو جائیں گے جن گھروں میں آج غربت، بے روزگاری، دکھ اور بیماری کے باعث اندھیرے ہی اندھیرے ہیں۔ جن کا دین دھرم ہی لوٹ مار ہو اُن سے توقع بھی نہیں رکھنی چاہئے وہ ایک ایسے عمل کو سراہیں گے جِن سے اُن کا کوئی مالی مفاد وابستہ نہیں۔ ویسے بھی کچھ کام ایسے ہوتے ہیں جِن کے لئے تحسین کی نہیں تسکین کی ضرورت ہوتی ہے۔ دانش سکولوں کے منصوبے کو راتوں رات عملی جامہ پہنا کر شہباز شریف نے اُن جاگیرداروں، وڈیروں اور لٹیروں کے مفادات پر گہری چوٹ لگائی ہے جو سمجھتے ہیں اچھے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنا صرف اُنہی کی اولادوں کا حق ہے۔ جو سمجھتے ہیں پاکستان اُن کے باپ دادا کی جاگیر ہے جہاں اُن کی مرضی کے بغیر پتا بھی نہیں ہل سکتا۔ شہباز شریف نے اُن کی مرضی کے بغیر پورے پورے درخت ہلا کر رکھ دئیے ہیں تو اب اُن کے ”پاپی پیٹوں“ میں مروڑ بھی نہ اُٹھیں؟
اوہدیاں روندیاں اکھاں ویکھ کے لگا اے۔۔۔۔۔ جیویں پتھراں وِچوں چشمے جاری ہو گئے نیں
خود وزیراعلیٰ پنجاب بھی جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور جب ایک بچے کے والد نے اپنی تقریر میں اُن سے ہاتھ ملانے کی خواہش کا اظہار کیا تو اُنہوں نے آگے بڑھ کر اُسے گلے سے لگا لیا۔ اِس طرح اُنہوں نے سٹیج پر ثقافتی صلاحیتوں کا خوبصورت مظاہرہ کرنے والے بچوں کو بھی دِل کھول کر داد دی۔ ایک اور عمل پر جناب شہباز شریف کو ”شاباش شریف“ کہنے کو جی چاہا جب اُنہوں نے تقریب میں موجود اپنے کچھ خاص مہمانوں کو جن میں کچھ سفارتکار بھی شامل تھے دانش سکول کے غریب اور یتیم بچوں کے ہاتھوں سے تحائف دلوائے۔ ایسی تقریبات میں عموماً مہمان خصوصی کے ہاتھوں سے تحائف دلوائے جاتے ہیں۔ شہباز شریف کے ”مہمانانِ خصوصی“ شاید یہ بچے ہی تھے جنہیں تقریب میں بیٹھے ہوئے بھی وہ مسلسل اس قدر محبت بھری نگاہوں سے دیکھتے رہے جیسے یہ اُن کی اپنی فیملی کے بچے ہوں۔ یہ ایک انتہائی منظم اور خوبصورت تقریب تھی جو تین گھنٹے تک جاری رہی اور دوران تقریب میں موجود کچھ سفارتکار، قلم کار، دانشور اور ماہرین تعلیم ایک لمحے کے لئے بھی بور نہیں ہوئے حالانکہ اِس نوعیت کی ”حکمران تقریبات“ میں بور ہونے کا اچھا خاصا سامان موجود ہوتا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب کی تقریر حسبِ معمول خاصی جذباتی تھی۔ اُن کا موقف درست ہے کہ جب ایچی سن کالج، کیڈٹ سکول اور اِس طرز کے دیگر تعلیمی ادارے بنائے جاتے ہیں تو کوئی اعتراض نہیں کرتا مگر جب ہم اِس طرز کے تعلیمی ادارے غریبوں اور یتیموں کے بچوں کے لئے تیار کرتے ہیں تو حاسدین کے پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتے ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب کی خدمت میں گزارش ہے وہ ایسے حاسدین کی پروا کئے بغیر اور اُن کا تذکرہ کئے بغیر اپنے حصے کے چراغ جلائے جائیں تو اِک دِن ضرور ایسا آئے گا جب اُن گھروں میں بھی چراغ بلکہ ”گلی کے چراغ“ جلنے شروع ہو جائیں گے جن گھروں میں آج غربت، بے روزگاری، دکھ اور بیماری کے باعث اندھیرے ہی اندھیرے ہیں۔ جن کا دین دھرم ہی لوٹ مار ہو اُن سے توقع بھی نہیں رکھنی چاہئے وہ ایک ایسے عمل کو سراہیں گے جِن سے اُن کا کوئی مالی مفاد وابستہ نہیں۔ ویسے بھی کچھ کام ایسے ہوتے ہیں جِن کے لئے تحسین کی نہیں تسکین کی ضرورت ہوتی ہے۔ دانش سکولوں کے منصوبے کو راتوں رات عملی جامہ پہنا کر شہباز شریف نے اُن جاگیرداروں، وڈیروں اور لٹیروں کے مفادات پر گہری چوٹ لگائی ہے جو سمجھتے ہیں اچھے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنا صرف اُنہی کی اولادوں کا حق ہے۔ جو سمجھتے ہیں پاکستان اُن کے باپ دادا کی جاگیر ہے جہاں اُن کی مرضی کے بغیر پتا بھی نہیں ہل سکتا۔ شہباز شریف نے اُن کی مرضی کے بغیر پورے پورے درخت ہلا کر رکھ دئیے ہیں تو اب اُن کے ”پاپی پیٹوں“ میں مروڑ بھی نہ اُٹھیں؟