میرے نحیف ہاتھوں میں طاقت ہوتی تو اپنے شہر کے ان بے حس باسیوں کے منہ نوچ لیتا جو اپنی بلوں اور کھڈوں سے نکل کر ایکبار پھر خونیں بسنت کے انعقاد کا مطالبہ کر رہے ہیں اور ان کے اس شور و غوغا سے متاثر ہو کر وزیر اعلیٰ ہاﺅس پنجاب میں بسنت کے بارے میں سرگوشیاں ہونے لگی ہیں۔ بسنت کے انعقاد کا مطالبہ کرنے والوں کے سینوں کے اندر دل ہی نہیں شاید ان کے دل انسانی خون کی اہمیت سے آشنا ہی نہیں، ان بے حصوں کے بچے نہیں شاید۔ ان ظالموں کی صف میں اپنے بعض ٹی وی چینلز کو دیکھ کر مزید دکھ ہوتا ہے جو ایک بھولے بسرے کھیل (تہوار) کو ایک بار پھر زندہ کرنے کےلئے پروگرام کر رہے ہیں۔ بسنت منانے کی اجازت طلب کرنے واے عام لوگ نہیں اشرافیہ ہیں، اندھی دولت ہے ان کے پاس، یہ بسنت کو کھیل یا تہوار نہیں عیاشی سمجھ کر مناتے ہیں۔ اس کا ثبوت بسنت نائٹوں کے سروے کے بعد مل جاتا ہے جہاں مادر پدر آزادی دیکھنے کو ملتی ہے، کھابوں کی آڑ میں شراب و شباب اور کباب کا اہتمام کیا گیا ہوتا ہے، کال گرلز بک کی گئی ہوتی ہیں۔ جائز و ناجائز اسلحہ سے اردگرد کے ماحول کو مزید رنگین بنانے کی کوشش کی جا رہی ہوتی ہے۔ یہ سب کچھ بڑی بڑی حویلیوں اور ہوٹلوں کی چھتوں پر ہو رہا ہوتا ہے۔ ان بسنت نائٹوں میں غیر ملکی مہمانوں کو بھی مدعو کیا جاتا ہے جو اسلامی اور پاکستانی کلچر کی دھجیاں اڑاتے ہوئے دیکھ کر سوالیہ نشان بنے ہوتے ہیں۔ یہ تو بسنت کا ایک گوشہ ٹھہرا جو پاکستانی کلچر کی بدنامی کا باعث بن رہا ہوتاہے۔ بسنت کا دوسر پہلو مزید خطرناک اور قابل نفرت ہے۔ زور آور سیاستدانوں، بیوروکریٹس اور امرا کی اولاد جب مدہوش ہو کر فائر نکالتی ہے ان بے حس نوجوانوں کو ہوش نہیں ہوتا کہ نالیوں کے منہ کس طرف ہیں۔ ہم نہیں بھولے ان بے گناہ راہ گیروں کو جو کٹی ڈوریں گردنوں پر پھر جانے سے جاں بحق ہوئے یا عمر بھر کے لئے روگی ہو کر رہ گئے۔ کون بھولاہے کہ صرف ایک ہی دن میں واپڈا کا کروڑوں کا نقصان ہوتا رہا ہے۔ پتنگیں اور ڈوریں لوٹتے ہوئے بچوں کو موت کے منہ میں جاتے ہوئے بھی ہم دیکھ چکے ہیں۔
حکومت پنجاب نے بسنت پر پابندی عائد کر کے ایک مستحسن فیصلہ کیا تھا مگر اب بعض اطلاعات اس امر کی چغلی کھا رہی ہیں کہ حکومت اس ایشو پر غور بھی کر رہی ہے کہ بسنت کی اجازت دیدی جائے ۔ اگر یہ سچ ہے تو غلط کر رہی ہے۔ حکومت خاص کر وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو اس ضمن میں سوچنا بھی نہیں چاہئے کیونکہ اگر انہوں نے مشروط طور پر پابندی ختم کر بھی دی تو جانی و مالی نقصان کو نہیں روک سکیں گے ویسے بھی یار لوگ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ شہباز شریف نے بسنت پر پابندی سلمان تاثیر کی وجہ سے لگائی تھی کہ وہ بسنت نہ منا سکیں اور اب لطیف کھوسہ کی خاطر بسنت پر سے پابندی اٹھائے جانے کے بارے سوچا جا رہا ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ وزیراعلیٰ شہباز شریف بات آگے بڑھنے سے پہلے ہی حکومت پنجاب کا موقف سامنے لے آئیں گے۔
حکومت پنجاب نے بسنت پر پابندی عائد کر کے ایک مستحسن فیصلہ کیا تھا مگر اب بعض اطلاعات اس امر کی چغلی کھا رہی ہیں کہ حکومت اس ایشو پر غور بھی کر رہی ہے کہ بسنت کی اجازت دیدی جائے ۔ اگر یہ سچ ہے تو غلط کر رہی ہے۔ حکومت خاص کر وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو اس ضمن میں سوچنا بھی نہیں چاہئے کیونکہ اگر انہوں نے مشروط طور پر پابندی ختم کر بھی دی تو جانی و مالی نقصان کو نہیں روک سکیں گے ویسے بھی یار لوگ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ شہباز شریف نے بسنت پر پابندی سلمان تاثیر کی وجہ سے لگائی تھی کہ وہ بسنت نہ منا سکیں اور اب لطیف کھوسہ کی خاطر بسنت پر سے پابندی اٹھائے جانے کے بارے سوچا جا رہا ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ وزیراعلیٰ شہباز شریف بات آگے بڑھنے سے پہلے ہی حکومت پنجاب کا موقف سامنے لے آئیں گے۔