صدر آصف علی زرداری نے سینئر وزیر خیبر پی کے بشیر احمد بلور کیلئے ہلال شجاعت کا اعلان کر دیا۔
امریکی جنگ میں پختونوں کا قتل عام کروانے پر ہلال شجاعت دیا جا رہا ہے‘ یا ڈرون حملوں میں بے گناہ مرنے والوں پر خاموشی اختیار کرنے پر؟ بلور صاحب نے کونسی شجاعت دکھائی ہے‘ ہاں صدر زرداری کا ہر مشکل میں ساتھ نبھایا ہے۔ ویسے زرداری صاحب اپنے برے بھلے وقت کے ساتھیوں کو بھولتے نہیں۔ فاروق ایچ نائیک کو چیئرمین سینٹ بابر اعوان کو وزیر قانون‘ رحمان ملک کو وزیر داخلہ‘ کیسوں کیسوں کو کس کس طرح نوازا گیا۔ بلور سوات میں کس محاذ پر لڑے؟کتنے لڑاکا جہاز اڑائے‘ کتنے خودکش بمباروں کو روکا؟ ویسے بلوری‘ پشوریوں کو امریکی جنگ کی بھینٹ تو چڑھا رہے ہیں۔ 1971ءکے حالات پر حبیب جالب نے کہا تھا....
محبت گولیوں سے بو رہے ہو
وطن کا چہرہ خوں سے دھو رہے ہو
گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
یقین مجھ کو منزل کھو رہے ہو
بشیر بلور اینڈ کمپنی نے خیبر پی کے کے حالات بالکل ویسے ہی کر دیئے ہیں‘ جلال آباد کے کھنڈرات کی شکل اختیار کئے قبرستان کے کسی کونے میں باچا خان کی روح کو آسودگی ملی ہو گی کہ میرے ادھورے مشن کو پایہ تکمیل کی جانب پہنچانے پر میرے جانشینوں کو ہلال شجاعت دیا جا رہا ہے۔ ویسے چھوٹے بلورے کو معلوم نہیں کیوں ہلال کارکردگی نہیں دیا گیا‘ انہوں نے ریلوے کا حلیہ بگاڑنے میں کم کارنامہ انجام دیا ہے؟
آزمودہ آزمودن ندامت بودن است
٭....٭....٭....٭
وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے ریڈیو پاکستان کی پہلی سرائیکی نیوز سروس کے موقع پر خود نیوز کاسٹر کی حیثیت سے نیوز بلٹن پڑھا۔
گیلانی صاحب ایم اے صحافت ہیں‘ ان کا اصل کام تو خبریں پڑھنا اور خبریں بنانا ہے لیکن آجکل وہ خود ایک خبر بنے ہوئے ہیں۔ خود خبر بننے سے تو بہتر ہے آدمی دوسروں کی خبر لے ۔ صحافت میں مستقبل روشن ہے‘ ”وقت نیوز“ سرائیکی بلٹن کا سلسلہ شروع کرنے کیلئے تیار ہے۔ جب سیاست سے فراغت ہو تو ہمارے دروازے کھلے ہیں۔ ہم ”بسم اللہ‘ آئے وے سائیں“ کہتے ہیں۔ اتحادیوں کی بیساکھیوں پر وزیراعظم بن کر دوسروں کی خبر لینا وبال اقتدار بن جاتا ہے۔ کبھی مولانا کی منت سماجت کرنی پڑتی ہے تو کبھی نائن زیرو جا کر....
تیرے در پر صنم چلے آئے
تو نہ آیا تو ہم چلے آئے
جیسے بول سننے پڑتے ہیں۔ سید زادے کو فن خطابت پر ملکہ حاصل ہے‘ شکل و صورت بھی آجکل کے معیار کے مطابق ہے لہٰذا سیاست کی دلدل سے نکل آئیں تو شاید عزت سادات بچ جائے۔ جالینوس نے کہا تھا‘ جو اپنے دوست کو برے کاموں سے پند و نصائح کے ذریعے باز نہیں رکھتا‘ وہ دوستی کے قابل نہیں۔
زرداری ‘ فضل الرحمان‘ جمالی‘ پیرپگاڑا کے بچوں سے سرائیکی میں بات کرتے ہیں اور اپنی مادری زبان سے محبت کا ثبوت فراہم کرتے ہیں لیکن قومی زبان سے سوتیلی ماں والا سلوک کیوں؟ قومی امور پر کارروائی صرف قومی زبان میں لازمی قرار دیں‘ آپ پکے سرائیکی تو ہیں‘ تب سچے پاکستانی بھی بن جائینگے۔
٭....٭....٭....٭
سابق مایہ ناز ٹیسٹ کرکٹر سرفراز نواز (ق) لیگ کو چھوڑ کر متحدہ قومی موومنٹ میں شامل ہو گئے‘ یہ ان کا پارٹی بدل چھکا سمجھ لیں۔
مہرباں ہو کے بلالو مجھے چاہو جس وقت
میں گیا وقت نہیں ہوں کہ پھر آبھی نہ سکوں
سرفراز نواز جیسے لوگ سینے پر جلی حروف میں یہ شعر لکھ کر ہر پارٹی کو پیش کرتے ہیں کہ شاید سیاست میں انکی قسمت کا ستارہ چمک پڑے۔ یہ کونسی منزل کے راہی ہیں‘ انکا کام عوام کی خدمت یا درجن بھر پارٹیوں کی گنتی پوری کرنا ہوتا ہے۔ پی پی (ق) لیگ سے ایم کیو ایم میں شمولیت‘ عمران خان سے دوستی کے چرچے‘ نواز شریف کے پاس بھی ضرور جاتے۔ اگر ماضی میں انکے ساتھ اچھا سلوک کیا ہوتا۔ پنجابی میں ”ست گھر پھرنے والی“ حکایت کافی مشہور ہے۔ سرفراز نواز کسی پنجابی دوست سے ضرور سنیں‘ ویسے انکے ابھی تین گھر ہوئے ہیں‘ امید کی جاتی ہے کہ ایم کیو ایم انکی آخری منزل ہو گی کیونکہ اسکے بعدجو ہو گا اسکا اندازہ خود لگالیں۔ سرفراز نواز کا اگر کوئی سیاسی حلقہ ہے تو اسکے عوام اپنا بندوبست کرلیں کیونکہ سرفراز نواز جس ”پچ“ پر کھیل رہے ہیں‘ ایسی پچ پر چھکے بہت لگتے ہیں اور کھلاڑی ہر بال باﺅنڈری سے باہر پھینکنے کی کوشش کرتا ہے۔
٭....٭....٭....٭
سابق وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک نے کہا ہے کہ براہمداغ بگتی قومی پرچم کو سلام کریں‘ انہیں خود لینے جاﺅں گا۔
جو پہلے سلام کر رہے ہیں‘ انہیں کونسا تحفظ دیا جا رہا ہے۔ پوری بلوچ قوم محب وطن اور قومی پرچم کو سلام کرتی ہے‘ ان کا صرف ایک ہی مطالبہ ہے کہ اکبر بگتی کے قاتل پرویز مشرف کو گرفتار کرکے سزا دی جائے۔ ملک صاحب اب تو ہاں کر دیں‘ کیونکہ آپکی قائد محترمہ بے نظیر بھٹو کا قاتل بھی تو اب وہی ہے جسے گارڈ آف آنر پیش کرکے باعزت باہر بھیجا گیا ہے۔
گناہ گرچہ ہنود اختیار ما حافظ
تو درِ طریق ادب کوش و گو گناہ من است
(گناہ اگرچہ میرے اختیار میں نہ تھا‘ اس لئے سرزد ہو گیا‘ اب کم از کم اتنا تو بصد ادب کہہ دیا جائے کہ ہاں میں نے ہی یہ گناہ کیا تھا)
مشرف کو صدارت سے الگ‘ گارڈ آف آنر اگرچہ صدر زرداری نے دیا تھا‘ لیکن پاکستان میں اسے پروٹوکول‘ ملک سے باہر سیکورٹی وہ تو وزیر داخلہ نے فراہم کی ہے۔ مان لیں کہ مشرف کو فرار کرانے کے گناہ میں شریک ہوں‘ لیکن اب قوم سے اس غلطی پر معافی مانگتا ہوں۔ اپنی غلطی تسلیم کریں‘ مشرف کو کٹہرے میں لائیں‘ براہمداغ سمیت سارے بگتی قومی پرچم کو سلام کرینگے اور محب وطن ہونے کا ثبوت فراہم کرینگے۔ ملک صاحب بسم اللہ کریں۔
امریکی جنگ میں پختونوں کا قتل عام کروانے پر ہلال شجاعت دیا جا رہا ہے‘ یا ڈرون حملوں میں بے گناہ مرنے والوں پر خاموشی اختیار کرنے پر؟ بلور صاحب نے کونسی شجاعت دکھائی ہے‘ ہاں صدر زرداری کا ہر مشکل میں ساتھ نبھایا ہے۔ ویسے زرداری صاحب اپنے برے بھلے وقت کے ساتھیوں کو بھولتے نہیں۔ فاروق ایچ نائیک کو چیئرمین سینٹ بابر اعوان کو وزیر قانون‘ رحمان ملک کو وزیر داخلہ‘ کیسوں کیسوں کو کس کس طرح نوازا گیا۔ بلور سوات میں کس محاذ پر لڑے؟کتنے لڑاکا جہاز اڑائے‘ کتنے خودکش بمباروں کو روکا؟ ویسے بلوری‘ پشوریوں کو امریکی جنگ کی بھینٹ تو چڑھا رہے ہیں۔ 1971ءکے حالات پر حبیب جالب نے کہا تھا....
محبت گولیوں سے بو رہے ہو
وطن کا چہرہ خوں سے دھو رہے ہو
گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
یقین مجھ کو منزل کھو رہے ہو
بشیر بلور اینڈ کمپنی نے خیبر پی کے کے حالات بالکل ویسے ہی کر دیئے ہیں‘ جلال آباد کے کھنڈرات کی شکل اختیار کئے قبرستان کے کسی کونے میں باچا خان کی روح کو آسودگی ملی ہو گی کہ میرے ادھورے مشن کو پایہ تکمیل کی جانب پہنچانے پر میرے جانشینوں کو ہلال شجاعت دیا جا رہا ہے۔ ویسے چھوٹے بلورے کو معلوم نہیں کیوں ہلال کارکردگی نہیں دیا گیا‘ انہوں نے ریلوے کا حلیہ بگاڑنے میں کم کارنامہ انجام دیا ہے؟
آزمودہ آزمودن ندامت بودن است
٭....٭....٭....٭
وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے ریڈیو پاکستان کی پہلی سرائیکی نیوز سروس کے موقع پر خود نیوز کاسٹر کی حیثیت سے نیوز بلٹن پڑھا۔
گیلانی صاحب ایم اے صحافت ہیں‘ ان کا اصل کام تو خبریں پڑھنا اور خبریں بنانا ہے لیکن آجکل وہ خود ایک خبر بنے ہوئے ہیں۔ خود خبر بننے سے تو بہتر ہے آدمی دوسروں کی خبر لے ۔ صحافت میں مستقبل روشن ہے‘ ”وقت نیوز“ سرائیکی بلٹن کا سلسلہ شروع کرنے کیلئے تیار ہے۔ جب سیاست سے فراغت ہو تو ہمارے دروازے کھلے ہیں۔ ہم ”بسم اللہ‘ آئے وے سائیں“ کہتے ہیں۔ اتحادیوں کی بیساکھیوں پر وزیراعظم بن کر دوسروں کی خبر لینا وبال اقتدار بن جاتا ہے۔ کبھی مولانا کی منت سماجت کرنی پڑتی ہے تو کبھی نائن زیرو جا کر....
تیرے در پر صنم چلے آئے
تو نہ آیا تو ہم چلے آئے
جیسے بول سننے پڑتے ہیں۔ سید زادے کو فن خطابت پر ملکہ حاصل ہے‘ شکل و صورت بھی آجکل کے معیار کے مطابق ہے لہٰذا سیاست کی دلدل سے نکل آئیں تو شاید عزت سادات بچ جائے۔ جالینوس نے کہا تھا‘ جو اپنے دوست کو برے کاموں سے پند و نصائح کے ذریعے باز نہیں رکھتا‘ وہ دوستی کے قابل نہیں۔
زرداری ‘ فضل الرحمان‘ جمالی‘ پیرپگاڑا کے بچوں سے سرائیکی میں بات کرتے ہیں اور اپنی مادری زبان سے محبت کا ثبوت فراہم کرتے ہیں لیکن قومی زبان سے سوتیلی ماں والا سلوک کیوں؟ قومی امور پر کارروائی صرف قومی زبان میں لازمی قرار دیں‘ آپ پکے سرائیکی تو ہیں‘ تب سچے پاکستانی بھی بن جائینگے۔
٭....٭....٭....٭
سابق مایہ ناز ٹیسٹ کرکٹر سرفراز نواز (ق) لیگ کو چھوڑ کر متحدہ قومی موومنٹ میں شامل ہو گئے‘ یہ ان کا پارٹی بدل چھکا سمجھ لیں۔
مہرباں ہو کے بلالو مجھے چاہو جس وقت
میں گیا وقت نہیں ہوں کہ پھر آبھی نہ سکوں
سرفراز نواز جیسے لوگ سینے پر جلی حروف میں یہ شعر لکھ کر ہر پارٹی کو پیش کرتے ہیں کہ شاید سیاست میں انکی قسمت کا ستارہ چمک پڑے۔ یہ کونسی منزل کے راہی ہیں‘ انکا کام عوام کی خدمت یا درجن بھر پارٹیوں کی گنتی پوری کرنا ہوتا ہے۔ پی پی (ق) لیگ سے ایم کیو ایم میں شمولیت‘ عمران خان سے دوستی کے چرچے‘ نواز شریف کے پاس بھی ضرور جاتے۔ اگر ماضی میں انکے ساتھ اچھا سلوک کیا ہوتا۔ پنجابی میں ”ست گھر پھرنے والی“ حکایت کافی مشہور ہے۔ سرفراز نواز کسی پنجابی دوست سے ضرور سنیں‘ ویسے انکے ابھی تین گھر ہوئے ہیں‘ امید کی جاتی ہے کہ ایم کیو ایم انکی آخری منزل ہو گی کیونکہ اسکے بعدجو ہو گا اسکا اندازہ خود لگالیں۔ سرفراز نواز کا اگر کوئی سیاسی حلقہ ہے تو اسکے عوام اپنا بندوبست کرلیں کیونکہ سرفراز نواز جس ”پچ“ پر کھیل رہے ہیں‘ ایسی پچ پر چھکے بہت لگتے ہیں اور کھلاڑی ہر بال باﺅنڈری سے باہر پھینکنے کی کوشش کرتا ہے۔
٭....٭....٭....٭
سابق وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک نے کہا ہے کہ براہمداغ بگتی قومی پرچم کو سلام کریں‘ انہیں خود لینے جاﺅں گا۔
جو پہلے سلام کر رہے ہیں‘ انہیں کونسا تحفظ دیا جا رہا ہے۔ پوری بلوچ قوم محب وطن اور قومی پرچم کو سلام کرتی ہے‘ ان کا صرف ایک ہی مطالبہ ہے کہ اکبر بگتی کے قاتل پرویز مشرف کو گرفتار کرکے سزا دی جائے۔ ملک صاحب اب تو ہاں کر دیں‘ کیونکہ آپکی قائد محترمہ بے نظیر بھٹو کا قاتل بھی تو اب وہی ہے جسے گارڈ آف آنر پیش کرکے باعزت باہر بھیجا گیا ہے۔
گناہ گرچہ ہنود اختیار ما حافظ
تو درِ طریق ادب کوش و گو گناہ من است
(گناہ اگرچہ میرے اختیار میں نہ تھا‘ اس لئے سرزد ہو گیا‘ اب کم از کم اتنا تو بصد ادب کہہ دیا جائے کہ ہاں میں نے ہی یہ گناہ کیا تھا)
مشرف کو صدارت سے الگ‘ گارڈ آف آنر اگرچہ صدر زرداری نے دیا تھا‘ لیکن پاکستان میں اسے پروٹوکول‘ ملک سے باہر سیکورٹی وہ تو وزیر داخلہ نے فراہم کی ہے۔ مان لیں کہ مشرف کو فرار کرانے کے گناہ میں شریک ہوں‘ لیکن اب قوم سے اس غلطی پر معافی مانگتا ہوں۔ اپنی غلطی تسلیم کریں‘ مشرف کو کٹہرے میں لائیں‘ براہمداغ سمیت سارے بگتی قومی پرچم کو سلام کرینگے اور محب وطن ہونے کا ثبوت فراہم کرینگے۔ ملک صاحب بسم اللہ کریں۔