قیادقت اور حکمرانی .... (آخری قسط)
دوسرا کالم میجر احسان علی خان کی زیر کمان گلگت سے سکردو اور پھر دریائے سندھ کےساتھ ساتھ لیہہ تک پہنچا اور تیسرے کالم نے سیکنڈ لیفٹیننٹ میرزادہ محمد شاہ خان کی کمان میں دسمبر میں 14 1/2 ہزار فٹ بلند درہ برزل عبور کیا۔ پھر گزوں بھر برف میں دفن 40میل لمبادیو سائی کابرفانی صحرا عبور کیا۔ برفانی طوفانوں سے مقابلہ کرتے ہوئے گلتری‘ شکمہ کارگل فتح کرکے بالآخر لیہہ اور سری نگر کے درمیان اہم ترین زوجیلہ پاس پر قابض ہوگئے جبکہ اس وقت بھارت کی دو اہم بٹالینز وہاں موجود تھیں۔ مجاہدین کے شاندار کمانڈو ایکشن نے دشمن کو نروس کر دیا۔ ان لوگوں کی شاندار کارکردگی اس لیے بھی قابل تعریف ہے کہ انکے پاس نہ تو گرم کپڑے تھے نہ برف سے مقابلہ کرنے کیلئے عینکیں‘ان مجاہدین کو زوجیلہ سے نکالنے کےلئے بھارت اپنے ٹینک۔ ہوائی جہاز اور پورا بریگیڈ لے آیا ۔ بھارت کے تین نامور جرنیل کری آپا۔ تھمیّاا اور شری نگیش بذات خود موقعہ پر پہنچے۔ پہلے دونوں جرنیل بعد میں آرمی چیف بنے۔ ہوائی جہاز اور ٹینکوں کا مقابلہ مجاہدین کے بس میں نہ تھا۔ انہیں واپس ہٹنا پڑا۔ گلگت سے لیکر زوجیلہ تک صوبیدار خائستہ گل کاکردار ایک عظیم سولجر کا کردار تھا‘ بعد میں لیہہ کے محاصرے میں بھی شامل تھا‘ 196کی جنگ میں بھی شامل رہا‘ 1971 میں بھی جنگ کےلئے پیش ہوالیکن بڑھاپے کی وجہ سے اسے شامل نہ کیا گیا‘ وہ واقعی ایک عظیم انسان اور عظیم سولجر تھا۔
یہ جنوری یا فروری کا مہینہ تھا کہ میں نے اپنی ریسرچ کے سلسلے میں وہاں کالج کے پروفیسرز حضرات اور خائستہ گل سمیت کچھ مجاہدین کو چائے پر مدعو کیا۔ چائے کے بعد بات مشرقی پاکستان اور بھٹو کی طرف چلی گئی جو اس دور میں سب سے ہاٹ ٹاپک تھا۔ بہت سے لوگ بھٹو کی عظمت کے قائل تھے لیکن کچھ کے خیال میں اس سانحہ کا وہ بھی اتنا ہی ذمہ دار تھا جتنا ٰیحییٰ خان۔ خائستہ گل خاموشی سے سنتا رہا‘ جب سب بول چکے تو خائستہ گل نے زبان کھولی ”سر قومی غیرت اور قومی وقار سے بہتر دنیا میں کوئی چیز نہیں۔ میری نظر میں بھٹو وہ واحد لیڈر تھا‘ جو قومی غیرت و قومی وقار کا تحفظ کر سکتا تھا۔ یحییٰ خان نے اس پر پورا اعتماد کیا۔ اسے چین اور اقوام متحدہ مذاکرات کےلئے بھیجا۔ وہ اس سارے واقعے کو باعزت رنگ ضرور دے سکتا تھا جو اس سے نہ ہو سکا یا اس نے نہ کیا۔ جو شخص قومی وقار اور قومی عزت کا تحفظ نہ کرسکے وہ کتنا ہی قابل کیوں نہ ہو میں اسے ”قائد مانتا ہوں اور نہ حکمران “ اتنا کہہ کر وہ اٹھا اور السلام علیکم کہہ کر باہر چلا گیا۔ قیادت اور حکمرانی کی اس سے بہتر تشریح آج تک میری نظر سے نہیں گزری۔ کاش ہمارے رہنما بھی یہ بات سمجھ سکتے۔