شام کی صبح آزادی اور مرشد کا بائیکاٹ۔

رات کے پچھلے پہر، لگ بھگ ایک ہی وقت میں حمص اور دمشق فتح ہو گئے۔ شمال سے آنے والے انقلابی حمص میں داخل ہوئے، جنوب میں الدرعا اور السویدا پر قبضے کے بعد جنوب کے انقلابی دمشق جا پہنچے۔ اگلی دوپہر تک پورا شام نصیری قبیلے کی 54 سالہ غلامی سے آزاد ہو چکا تھا۔ حلب کی فتح کے بعد ایک ہفتے میں یہ سب کچھ ہو گیا۔ 
ایک غلطی کی وضاحت اور معذرت ضروری ہے۔ پچھلے کالم میں جو ’’حمص کے بعد دمشق‘‘ کے عنوان سے چھپا، حمص کے انگریزی سپیلنگ لکھتے ہوئے لاشعور میں حماس (غزہ) کا نام آ گیا اور وہی لکھ دیا یعنی HAMAS۔ دراصل یہ HOMS تھا۔ 
ادلیب میں دس سال تک محدود الجولانی کی جولان گاہ اب پورا شام ہے۔ بشارالاسد ماسکو فرار ہو گیا۔ فتح شام پر شام ہی نہیں، لبنان میں بھی جشن منائے گئے۔ یہ جشن پیشگی تھے، اس بات پر کہ لبنانیوں کو اب حزب اللہ کی چیرہ دستیوں سے نجات مل جائے گی۔ حزب اللہ کو آکسیجن ایران سے براستہ شام ملتی تھی، اب وہ پائپ لائن کٹ گئی۔ شام کی تحریک آزادی 2011ء میں شروع ہوئی تھی اور تیرہ برس میں دس لاکھ جانیں قربان کر کے یہ آزادی بالآخر حاصل کر لی گئی۔ اب تک جو ہوا، وہ ’’مثبت‘‘ نظر آ رہا ہے لیکن امریکہ نے کسی مثبت کو پہلے کب مثبت رہنے دیا جو وہ اب چین سے بیٹھے گا۔ اس نے ہر استحکام کو انتشار میں بدلا ہے، ہر اثبات کی نفی کی ہے۔ 
_____
اسرائیل کو یہ تبدیلی کیسی لگی؟ ،وہ بھی سب نے دیکھ لیا۔ ایک ہی روز میں اس نے ڈیڑھ سو بمباریاں کیں اور پچھلی حکومت کے ذخیرہ کردہ تمام اسلحہ خانے اڑا دئیے۔ اس نے کہا، بشار کے ہتھیار ہم انقلابیوں کے ہاتھ نہیں لگنے دیں گے۔ یہ ہماری سلامتی کیلئے خطرہ بن جائیں گے۔ 
وہی بات کہ بشار کی حکومت اسرائیلی سلامتی کی گارنٹی تھی۔ اس کے پاس موجود ہتھیار اس کی موجودگی میں ہمارے لئے بے خطر، بے ضرر تھے۔ نئے آنے والوں کے ہاتھ لگیں گے تو یہی ہتھیار خطرناک ہو جائیں گے، یہ لو، انہیں اڑا دیا، تباہ کر دیا۔ 
بہرحال یہ جنوب کی بات ہے، شمال میں جو ہتھیار انقلابیوں کے ہاتھ لگے، وہ اسرائیل کے وار سے بچ نکلے اور یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ان کی مقدار جنوب کے ہتھیاروں سے زیادہ تھی۔ 
_____
اسرائیل نے جولان کے مقبوضہ علاقے کو اپنی حدود میں ضم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ 1974ء کا وہ معاہدہ اس نے منسوخ کر دیا ہے جس کے تحت یہ علاقہ بفرزون تھا۔ اب بفرزون نہیں رہا، اسرائیل کا حصہ یعنی اٹوٹ انگ بن گیا ہے۔ نیا بفرزون بنانے کیلئے اسرائیل نے جنوبی شام کے مزید رقبے پر حملہ کر کے قبضہ کر لیا ہے۔ 
ادھر کمین گاہوں میں طویل عرصہ چھپی رہنے والی داعش کی کمینگی دیکھئے، 
انقلاب کے کامیاب ہوتے ہی وہ اپنی گپھائوں نکلی اور وسیع و عریض صحرائے حمس میں پھیل گئی۔ قبضہ تو نہیں کیا، اثر و رسوخ کے اڈّے البتہ جما لئے۔ جس کا ڈر تھا، وہ ہو گئی۔ امریکہ نے داعش کو ختم کرنے کیلئے بمباری کا سلسلہ شروع کر دیا اور ساتھ ہی یہ اعلان بھی آ گیا کہ داعش کی وجہ سے وہ مشرقی شام میں اپنے زیر قبضہ علاقے کو ہرگز نہیں چھوڑے گا۔ مشرقی شام کی سرحد پر جہاں عراق اور اردن کی سرحد بھی ملتی ہے، امریکہ نے سینکڑوں مربع میل کے علاقے پر قبضہ کر کے وہاں چھائونی بنا رکھی ہے۔ خطرہ اب یہ ہے کہ داعش کے خاتمے کی آڑ میں ، جب اس کی مرضی ہوئی یا جب وہ ضرورت محسوس کرے گا، جہاں سے اٹھ کروہ انقلابیوں پر بھی بمباری کرے گا۔ 
_____
ایک انہونی ایران کے روحانی کماندار اعظم کے ساتھ ہو گئی۔ سب لوگ حیران ہیں کہ سقوط حمص سے ایک دن پہلے تک جس ایران نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ بشار حکومت کو بچانے کیلئے آخری حد تک جائے گا، ہر حد تک جائے گا ، اگلے ہی روز اس کا سارا نام جھام شام سے رخصت ہو گیا تھا۔ اس کے سارے فوجی مشیر، کمانڈر اور جنرل کمال عجلت سے فرار ہو گئے اور اس نے بشار کو تنہا چھوڑ دیا، آخر یہ کیا ماجرا ہوا۔ 
تو ماجرا یہ ہوا کہ کماندار اعظم نے، جس کا ہر حکم، حکم کا آخر ہوتا ہے، جو ایرانی پارلیمنٹ کے فیصلوں اور صدر کے اختیارات کو جب چاہے ویٹو کر سکتا ہے، حمص کی طرف پیش قدمی ہوتے دیکھ کر سیاسی قیادت اور جرنیلوں کا اجلاس طلب کیا اور حکم دیا کہ فوراً افواج کی مناسب تعداد شام میں اتاری جائے۔ 
پھر یہ دیکھ کر وہ سکتے میں آ گیا اور ششدر رہ گیا کہ جملہ سیاسی و عسکری قیادت نے ان کا یہ حکم مسترد کر دیا۔ کہا، شام ہمارے ہاتھ سے نکل گیا، جو فوج ہم بھیجیں گے، وہ کوئی نتیجہ پیدا کئے بغیر ماری جائے گی، وقت ہمارے خلاف ہے۔ 
روحانی کماندار اعظم کو چپ لگ گئی۔ معلوم نہیں، انہوں نے بھی اس کا احساس کر لیا یا مجبوری کا نام شکریہ رکھ دیا۔ اس اجلاس کے بعد ایرانیوں کو شام سے فوراً گھر آنے کا حکم ملا۔ 
_____
آنے والے امریکی صدر ٹرمپ نے روس کا مذاق اڑایا ہے کہ اس کے چھ لاکھ فوجی یوکرائن کی جنگ میں ہلاک و زخمی ہو گئے، وہ بشار کو بچانے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا تھا۔ 
6 لاکھ کے اعداد و شمار واضح نہیں۔ کتنے مرے کتنے زخمی ہوئے، ٹرمپ نے سب اکٹھے کر دئیے۔ اب تک کی صحیح تفصیل یہ ہے کہ یوکرائن سے تین سال کی جنگ میں روس کے دو لاکھ فوجی ہلاک ہوئے۔ پورے دو لاکھ، کم نہ زیادہ اور ساڑھے پانچ لاکھ زخمی ہوئے۔ زخمی فوجی، فوجی نہیں رہتا مطلب جنگ نہیں کر سکتا۔ یوں روس کی ساڑھے سات لاکھ فوج ناکارہ ہو گئی۔ چھوٹے سے یوکرائن نے یہ حال کر دیا۔ خود اس کا بھی بہت نقصان ہوا۔ اس کے 43 ہزار فوجی مارے گئے اور پونے چار لاکھ زخمی ہوئے۔ 
سینکڑوں سال سے قائم روسی سامراجیت سوویت یونین کے خاتمے کے ساتھ ختم نہیں ہوئی، جاری رہی۔ اب وہ ختم ہو رہی ہے ایک ننّھے منے یوکرائن کے ہاتھوں۔ یوکرائن مشرقی یورپ کا افغانستان نکلا۔ 
_____
شام میں کیا ہونے والا ہے اور شام کے گردونواح میں کیا، کچھ کچھ نظر آ رہا ہے، اس کا ذکر امید ہے اگلے کالم میں۔ چلتے چلتے یہ اطلاع دینا ضروری ہے کہ اڈیالہ جیل میں مرشد نے بہ وسیلہ سوشل میڈیا فوجی اداروں کی مصنوعات کے بائیکاٹ کی جو اپیل کی تھی، وہ زبردست کامیابی سے ہم کنار ہوئی ہے۔ 
ایسے کہ فوجی مصنوعات کی فروخت بڑھ گئی ہے۔ تمام آ?ٹ لیٹس پر ان کی مانگ اور طلب، پھر اسی تناسب سے رسد بھی بڑھ گئی ہے۔ سٹاک مارکیٹ میں ان اداروں کے حصص بھی اوپر جا رہے ہیں۔ 
اب آپ اعتراض کر ڈالئے کہ یہ کیسی کامیابی ہے، اپیل تو بائیکاٹ کی تھی، الٹا طلب اور فروخت بڑھ گئی تو بھائی ماجرا کچھ یوں ہوا کہ پیغام کے سمجھنے میں غلطی ہو گئی۔ مرشد نے کہا مت خریدنا۔ مت کا لفظ سنے جانے سے رہ گیا، مرشد کے چاہنے والوں نے صرف ’’خریدو‘‘ سنا اور وہ خریدنے کیلئے ٹوٹ پڑے۔ تو اپیل یوں کامیاب ہو گئی۔

ای پیپر دی نیشن