بشار الاسد شام سے فرار، عوام کا جشن

مشرقِ وسطیٰ میں ہلچل اور تبدیلیوں کا سلسلہ آگے بڑھ رہا ہے اور اس سلسلے میں اہم ترین پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ دو روز پہلے شامی صدر بشار الاسد کا 24 سالہ اقتدار ختم ہوگیا ہے۔ وہ دارالحکومت دمشق سے اپنے اہل خانہ سمیت فرار ہو کر روس پہنچ گئے۔ بشار الاسد جس طیارے میں ملک سے مبینہ طور پر روس فرار ہوئے اس کا رابطہ راڈار سے منقطع ہونے پر متضاد اطلاعات تھیں اور یہ بھی کہا جا رہا تھا کہ وہ طیارہ حادثے میں مارے گئے ہیں۔ امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے غیر مصدقہ اطلاعات کے حوالے سے بتایا تھا بشار الاسد 8 دسمبر کی علی الصبح IL-76 (YK-ATA) کے ذریعے دمشق سے فرار ہوئے تاہم ان کی لوکیشن کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہوسکا۔ باغیوں نے دمشق پر قبضہ کرنے کے بعد حمص جیل سے ساڑھے تین ہزار قیدی چھوڑ دیے۔ دمشق کے قریب واقع جیل سے بھی ہزاروں قیدی رہا کر دیے گئے۔ ان میں بدنام زمانہ صیدیانا جیل سے بچوں اور خواتین کی رہائی کی ویڈیو منظر عام پر آئی ہے۔ باغی سرکاری ٹی وی، ریڈیو اور وزارت دفاع کی عمارتوں میں داخل ہوگئے۔ سرکاری فوج کی جانب سے علاقہ چھوڑنے پر لوگوں نے دمشق کے مرکز میں واقع امیر چوک اور سڑکوں پر جشن منایا اور آزادی کے نعرے لگائے۔
دوسری جانب، شام کے وزیراعظم محمد غازی الجلالی نے شہریوں سے عوامی املاک کو نقصان نہ پہنچانے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے ملک نہیں چھوڑا۔ غیرملکی میڈیا سے گفتگو میں انھوں نے بتایا کہ وہ اپنے گھر میں موجود ہیں اور عوام کی منتخب کردہ کسی بھی جماعت کے ساتھ تعاون کے لیے دستیاب ہیں۔ ادھر، شامی باغیوں نے دارالحکومت پر قبضے کے بعد سرکاری ٹی وی پر پہلے ہی خطاب میں تمام قیدیوں کے لیے عام معافی کا اعلان کیا ہے۔ باغیوں نے اپنی فتح کا اعلان سرکاری ٹی وی پر کرتے ہوئے بتایا کہ شام سے بشار الاسد حکومت کے طویل دور کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ باغیوں نے آزاد شام کی خود مختاری اور سالمیت کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ شام میں سیاہ دور کا خاتمہ کرنے کے بعد نیا عہد شروع ہونے جا رہا ہے۔ شام کی تمام سرکاری، غیر سرکاری املاک اور تنصیبات کا تحفظ کیا جائے گا۔ شامی باغی گروپ تحریر الشام کے سربراہ ابو محمد الجولانی نے سابق شامی سرکاری فوج اور عوام کے لیے ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا کہ عوام اور سابق حکومت کے فوجی سرکاری اداروں سے دور رہیں۔ اقتدار کی پرامن منتقلی تک وزیراعظم محمد غازی الجلالی حکومتی اداروں کی سربراہی کریں گے۔
شامی باغیوں نے دمشق پر قبضے کے بعد ایرانی سفارتخانے پر بھی حملہ کیا۔ شامی باغیوں سے علیحدہ مسلح افراد نے ایرانی سفارتخانے اور نزدیکی دکانوں پر دھاوا بولا۔ ایرانی وزارت خارجہ کے مطابق، ایرانی سفارتخانے کا عملہ عمارت کو گزشتہ صبح ہی خالی کر چکا تھا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ایرانی سفارتحانے کی عمارت دھماکہ سے تباہ کر دی گئی۔ عراق نے بھی دمشق میں واقع اپنا سفارتخانہ خالی کر دیا۔ ادھر، سعودی حکام نے کہا ہے کہ شامی صدر کہاں ہیں، اس سے متعلق سعودی عرب کو کچھ علم نہیں۔ سعودی عرب خطے کے تمام سٹیک ہولڈرز بشمول ترکیہ سے مستقل رابطے میں ہے۔ روسی حکام نے کہا ہے کہ بشار الاسد شام چھوڑنے سے پہلے صدارت سے مستعفی ہوگئے تھے۔ ان کے فرار میں ہمارا کردار نہیں تھا۔ بشار الاسد نے صدارتی محل چھوڑتے ہوئے اقتدار کی پر امن منتقلی کی ہدایت کی۔ شام سے ہزاروں افراد کا لبنان کی جانب انخلا جاری ہے جن میں بڑی تعداد بشار الاسد کے حامیوں کی ہے۔
اس سلسلے کی ایک اہم پیش رفت یہ بھی ہے کہ ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل نے اپنی زیادہ افواج کو شام کی گولان کی پہاڑیوں میں طلب کر لیا ہے۔ اسرائیلی فوج نے ایک بیان میں اعلان کیا کہ اس نے شام کی سرحد کے قریب گولان کی پہاڑیوں میں اضافی فورسز کو تعینات کر دیا ہے۔ اسرائیلی وزیر دفاع نے کہا ہے کہ اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں گولان کی پہاڑیوں کے بفر زون پر فوج تعینات کر رہے ہیں۔ اپنے شہریوں کی حفاظت کے لیے اسرائیلی فوج تعینات کر رہے ہیں۔ دوسری جانب، اسرائیلی فوج اور ٹینک شام کے شہر قنطیرہ میں داخل ہوگئے۔ اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ باغیوں کو بشار الاسد کی فوج کے اسلحے پر قبضے سے روکنے کی کوشش کریں گے۔ شامی باغی اسرائیل کے ساتھ جنگ کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ اسرائیل نے دمشق میں تحقیقاتی مرکز پر بمباری کی۔ اسرائیلی میڈیا نے الزام لگایا ہے کہ اس مرکز کو ایرانی گائیڈڈ میزائل کی تیاری کے لیے استعمال کیا جا رہا تھا۔ اسرائیل کی جانب سے دمشق کے ضلع کفر سوسا میں سکیورٹی کمپلیکس پر حملہ کیا گیا اور دمشق میں فضائی حملے تیز کر دیے گئے ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے کہا ہے کہ شامی فوج نے پوزیشنز چھوڑ دی تھیں اس لیے اسرائیلی فوج نے پوزیشن سنبھال لی۔
شام میں بشار الاسد اور اس سے پہلے اس کے والد حافظ الاسد نے اقتدار پر جس طرح اپنا قبضہ برقرار رکھا اس سے واضح طور پر یہ پتا چلتا تھا کہ انھوں نے اپنے ملک میں ظلم کا نظام قائم کر کے اکثریت کو دبایا ہوا تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ آمریت زیادہ وقت تک نہیں چل سکتی اور نہ فسطائی ہتھکنڈوں سے عوام کو دبایا جا سکتا ہے۔ اس وقت دنیا میں جہاں جہاں بھی بادشاہت موجود ہے ان ملکوں کے حکمران اپنے عوام کو مطمئن رکھ کر ہی بادشاہت قائم رکھ سکتے ہیں۔ جس طرح جنگ و جدل میں اضافہ ہو رہا ہے اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ مخصوص قوتیں کرہ ارض کو تباہی کی طرف دھکیل رہی ہیں۔ عالمی برادری کو اب خوابِ غفلت سے جاگنا چاہیے اور دنیا میں امن کے قیام کے لیے اپنا مو¿ثر کردار ادا کرنا چاہیے۔ مزید یہ کہ مشرقِ وسطیٰ میں مسائل جس طرح بڑھ رہے ہیں اس پر مسلم ممالک کے حکمرانوں کو سر جوڑ کر بیٹھنے کی ضرورت ہے۔

ای پیپر دی نیشن

حرمتِ استاد اور اقبال

بچہ جب اس دنیا میں آنکھ کھولتا ہے اس کے بعد اس کی سب سے پہلی درس گاہ اس کی ماں کی گود ہوتی ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ جب بچہ پیدا ...