سیاسی افق پر بہت ساری نئی کہانیاں ابھر رہی ہیں۔ جب حالات نارمل نہ ہوں تو طرح طرح کی چہ میگوئیاں جنم لیتی ہیں، نئے نئے فارمولے گھڑے جاتے ہیں، کئی قسم کے تھیسز اور تھیوریاں زیر بحث آتی ہیں۔ ان کے پیچھے بنیادی طور پر معاملہ ایک ہی ہوتا ہے کہ حالات گڑ بڑ ہیں اور کچھ نہ کچھ ہونے والا ہے۔ اگر زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کر بات کی جائے تو وطن عزیز جس گرداب میں پھنسا ہوا ہے ایسی صورتحال کا سامنا ماضی میں کبھی نہیں رہا۔ پہلی بار ایسا ہو رہا ہے کہ تمام فریقین پھنسے ہوئے ہیں۔ حالات کسی کے لیے بھی فیور ایبل نہیں، ہر کوئی انتہا پر کھڑا ہے کوئی بھی پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں۔ ذہنی طور پر تمام فریقین یہ تصور کیے بیٹھے ہیں کہ اگر ان میں سے کسی نے لچک کا مظاہرہ کیا تو وہ اپنے ڈیتھ وارنٹ پر دستخط کرنے کے مترادف ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی راستہ نہیں مل رہا۔ افراتفری بدستور قائم ہے۔ منظر نامے پر کچھ اور نظر آ رہا ہے جبکہ ہو کچھ اور رہا ہے۔ ہر کوئی آن دی ریکارڈ کچھ اور کر رہا ہے اور آف دی ریکارڈ کچھ اور ہی ہو رہا ہے۔ جوڑ توڑ جاری ہیں نہ جانے کس وقت کیا شکل سامنے آ جائے۔ بہرحال اب کچھ نہ کچھ ہو کر رہے گا کیونکہ سارے پھنسے ہوئے ہیں اور ہر کوئی اپنے تئیں ہاتھ پاو¿ں مار رہا ہے۔ کں کے اعصاب جواب دیتے ہیں، کس کا جگاڑ کامیاب ہوتا ہے۔ یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن حقیقت یہ ہے کہ سب خسارے میں جا رہے ہیں۔ موجودہ حالات کسی کے لیے سود مند نہیں۔ تحریک انصاف تو بھگت ہی رہی ہے تمام تر مصیبتوں کے باوجود وہ قابو میں نہیں آ رہی۔ اسے ہر آنے والے دن نت نئی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ انھیں بھی طرح طرح کے جتن کرنے کے باوجود راستہ نہیں مل رہا۔ مسلم لیگ ن وفاق اور پنجاب جیسے صوبے میں حکومتوں کے باوجود کچے گھڑے پر بیٹھی دریا کے منجدھار میں پھنسی ہوئی ہے۔ بلکہ دیکھا جائے تو پاکستان کے سارے سیاستدان لوز کر رہے ہیں۔ سیاسی عمل اور جمہوریت کمزور ہو رہی ہے اور اہم ترین فریق اسٹبلشمنٹ کے لیے بھی یہ حالات کوئی سازگار نہیں۔ روز شہادتیں ہو رہی ہیں اور ان کے بھی مسائل بڑھ رہے ہیں۔ عدلیہ اپنی ساکھ کھو رہی ہے انتظامیہ کا کنٹرول کمزور ہو رہا ہے۔ کرپشن بےروزگاری بڑھ رہی ہے، قوم تقسیم در تقسیم ہو رہی ہے، نت نئے پریشر گروپ جنم لے رہے ہیں، علاقائی تعصب فروغ پا رہا ہے۔ سب پھنسے ہوئے ہیں اور ہر کوئی دوسرے سے پوچھ رہا ہے کیا ہونے جا رہا ہے۔ یہ صورتحال کسی کے لیے بھی فیور ایبل نہیں۔ اس گرداب سے نکلنا ہو گا۔ سنا ہے شہر اقتدار میں نئی کچھڑی پک رہی ہے۔ مولانا فضل الرحمن مدارس بل پر خم ٹھونک کر میدان میں آ چکے ہیں۔ انھوں نے 17 دسمبر کو اسلام آباد پر چڑھائی کا اعلان کر دیا ہے۔ تحریک انصاف نے مطالبات نہ مانے جانے کی صورت میں 14 دسمبر سے سول نافرمانی کی تحریک چلانے کا اعلان کر رکھا ہے۔ خاص طاقت کا ترجمان تصور کیے جانے والے فیصل واو¿ڈا سیاسی جماعتوں سے رابطے کر رہے ہیں۔ آزاد کشمیر سے بھی دباو¿ آ رہا ہے۔ ایسے حالات میں تحریک انصاف کے رہنما سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے قومی حکومت کا تھیسز پیش کیا ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت سے ناراضی بھی گہری ہوتی جا رہی ہے۔ کچھ حلقے بلاول بھٹو کو مجوزہ قومی حکومت کا سربراہ تصور کر رہے ہیں۔ وہ علیحدہ بحث ہے کہ تحریک انصاف پیپلز پارٹی کی سربراہی میں کام کرنے کے لیے تیار ہوتی ہے یا نہیں لیکن تحریک انصاف کو باور کروایا جا رہا ہے کہ اسی طریقے سے پیپلز پارٹی انھیں ریسکیو کر سکتی ہے۔ مسلم لیگ ن کوئی ایسا فارمولا قبول کرنے کے لیے تیار نہیں جس سے ان کے سٹیٹس پر فرق پڑتا ہو البتہ معاملات کو قابل قبول بنانے کے لیے ماحول بھی بنایا جا سکتا ہے۔ پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر کئی تبدیلیاں نظر آنا شروع ہو گئی ہیں جس سے ہر کوئی اندازے لگا رہا ہے کہ ممکنہ طور پر کیا کچھ ہو سکتا ہے۔ سیاسی کھلاڑی متحرک ہو چکے ہیں۔ نئے جوڑ توڑ ہو رہے ہیں لیکن یہ واضح نہیں ہو رہا کہ کیا ہونے جا رہا ہے البتہ کچھ نہ کچھ ضرور ہونے جا رہا ہے۔ ساری چیزیں ایک ہی وقت میں سر نہیں اٹھا سکتیں۔ وزیراعظم محمد شہباز شریف نے بڑے بھائی سے ملاقات میں نئی پیدا شدہ صورتحال پر تفصیلی صلاح مشورے کیے ہیں اور انھوں نے باور کروایا ہے وہ ساری کشتیاں جلا کر آئے تھے اگر ان کی مرضی کے بغیر کچھ ہوا تو وہ بھی آخری حد تک جائیں گے سنا ہے انھوں نے بھی کچھ الٹی میٹم دے دیے ہیں۔ کچھ ایسے اشارے بھی مل رہے ہیں کہ کئی لوگوں کے پاو¿ں کے نیچے سے قالین کھسکا کر ان سے بات منوانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بہرحال فواد چوہدری کا قومی حکومت کا فارمولا تحریک انصاف کے لیڈروں کی جانب سے بلاول بھٹو کی تعریفیں اور پھر فواد چوہدری کے صدر مملکت آصف علی زرداری سے تعلقات۔ یہ ممکن ہے کہ فواد چوہدری اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے درمیان پل بن کر دونوں کو قریب کر لیں۔