کسی بھی باوقار معاشرے میں رواداری خشت اول کی حیثیت رکھتی ہے اور ہر طرح کے گروہی تعصبات سے اوپر اٹھ کر ہی یہ مقصدِ عظیم حاصل کیا جا سکتا ہے۔ یہاں اس امر کا تذکرہ بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ بحیثیت مجموعی پاکستانی سوسائٹی اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود بہت اچھی شکل میں موجود ہے البتہ بہتری کی گنجائش چونکہ ہمیشہ موجود ہوتی ہے لہذا اس ضمن میں مزید کوشش کی جانے چاہیے۔ مگر اس بابت یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ ’’ خود احتسابی‘‘ اگرچہ بہت اچھی چیز ہے مگر اس ضمن میں ’’خود مذمتی‘‘ اور ’’خود احتسابی‘‘ کے مابین موجود بظاہر چھوٹے لیکن بے انتہا وسیع حدِ فاصل کو پیش نظر رکھا جانا اشد ضروری ہے کیونکہ پاکستانی معاشرے کا ایک حصہ دانستہ یا غیرشعوری طور پر گذشتہ خاصے عرصے سے اس کوشش میں مصروف ہے کہ پاکستانی قوم کو ’’خود مذمتی‘‘ اور خود ملامتی کی علامت میں تبدیل کر دیا جائے تا کہ یہ بجائے تمام پہلوئوں کا جائزہ لینے اور ان کی بہتری کیلئے اقدامات کرنے کے ، احساس کمتری کا شکار ہو کر ہر ضمن میں معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے پر مجبور ہو جائے ، یوں بحیثیت مجموعی قوم کے مورال کو پست کیا جا سکے ، اس بابت ہر طرح کے حربے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ اس صورتحال کا جائزہ لیتے ماہرین کا کہنا ہے کہ خود احتسابی اور اپنا محاسبہ کرنا اگرچہ بہترین حکمت عملی اور شاید تقاضائے وقت بھی ہے، مگر ایسا کرتے ہوئے خود مذمتی کی روش کسی طور اختیار نہ کی جائے ۔ بہرحال اس امر سے بھی انکار ممکن نہیں کہ وطن عزیز میں یقینا بہت سے سقم اور جھول موجود ہیں جن کی اصلاح کیے بنا باوقار ڈھنگ سے آگے بڑھنا مشکل ہی نہیں بلکہ نہ ممکن بھی ہے ۔ عدم رواداری اور عدم برداشت ایسے عنصر ہیں جو کسی معاشرے کو دیمک کی مانند چاٹ جاتے ہیں اور اگر ان کو روکنے کے لئے ٹھوس اور بروقت اقدامات نہ کیے جائیں، تو معاشرے دھیرے دھیرے بد ترین انتشار اور شکست و ریخت میں مبتلا ہو کر رہ جاتا ہے۔ لیکن یہ امر بہرحال خاصا اطمینان بخش ہے کہ پاکستانی قوم نے بحیثیت مجموعی اپنی بہتری کی جانب بہت سی ٹھوس پیش رفت کی ہے ۔ اس ضمن میں وطن عزیز کے سبھی حلقوں نے بالعموم اور پاک افواج نے بالخصوص ہراول دستے کا کردار ادا کیا ہے جس کی مثال ضرب عضب اور ردالفساد کی وجہ سے ملکی امن و امان کی صورتحال میں آئی قابلِ لحاظ بہتری کی صورت میں نظر آتی ہے جس کے لئے عام شہریوں نے بھی پاک افواج کے شانہ بشانہ بدی کی قوتوں کے خلاف جاری اس جہاد میں بے شمار قربانیاں دی ۔ البتہ یہ ایک الگ بات ہے کہ بیرونی دنیا نے ابھی تک پاکستان کی ان قربانیوں کا کھلے دل سے اعتراف نہیں کیا بلکہ کسی نہ کسی طور ڈو مور کی گردان جاری رکھی ہوئی ہے۔ امریکہ سمیت اکثر مغربی طاقتوں نے اپنا وہ انسانی کردار یا تو سرے سے ادا ہی نہیں کیا یا اس ضمن میں بے انتہا بخل سے کام لیا۔ قوموں کی برادری کو مقبوضہ جموں وکشمیر میں جاری بھارتی گھنائونے مظالم کا سدباب کرنے کے ساتھ ساتھ امن و امان کے قیام میں پاکستانی کردار کا اعتراف کرتے ہوئے رواداری سے بھرپور ماحول کے قیام کیلئے آگے آنا ہو گا۔ کسے علم نہیں اسلامی تعلیمات کسی بھی طور اس بات کی اجازت نہیں دیتیں کہ مذہب کو بنیاد بنا کر کسی بھی طبقے کے خلاف جبر و استبداد کا طرز عمل اختیار کیا جائے، لہذا ماضی میں اگر کسی جانب سے اس قسم کی روش اپنائی بھی گئی ہے تو اسے کسی طور قابل ستائش نہیں قرار دیا جا سکتا بلکہ ہر سطح پر اس کی حوصلہ شکنی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اس ضمن میں یہ بات خصوصی طور پر پیش نظر رہنی چاہیے کہ تمام علمی اور تحقیقی پلیٹ فارم پر شعوری کوشش کی جائے کہ سول سوسائٹی کے تمام حلقوں کی طرف سے قومی سطح پر ایسا بیانیہ تشکیل پا سکے جس کے نتیجے میں باہمی منافرت، فرقہ وارانہ اور گروہی تعصبات کی حوصلہ افزائی کی بجائے ان کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔ اس حوالے سے ایسا ’’متبادل بیانیہ‘‘ تیار ہونا چاہیے جس کے ذریعے اس امر کو اس کی تمام تر جزئیات کے ساتھ واضح کیا جائے کہ اسلام میں تشدد، جبر اور انتہا پسندی کسی بھی لحاظ سے قطعاً نا قابل قبول ہیں اور کوئی بھی معاشرہ یا ریاست اس طرز عمل کے فروغ کی اجازت نہیں دے سکتی، کیونکہ یہ قومی ریاست کی تشکیل کے بنیادی اصولوں کے منافی ہے۔ ایسے میں خصوصی طور پر پاکستانی معاشرے کا فرض اولین ہے کہ وہ تمام تر کوششوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ’’متبادل بیانیے‘‘ کی تشکیل کو بنیادی ترجیحات میں شریک رکھے۔ان دنوں افواج پاکستان اور قومی سلامتی اداروں کیخلاف ایک ہمہ جہتی پراپیگنڈہ جاری ہے، پاکستان کی قربانیوں کے باوجود اگر کوئی بیرونی طاقتوں کے ایما پر افواج پاکستان خصوصاً آئی ایس آئی کو ہدف تنقید بنائے تو عالمی برادری خصوصاً امریکہ، برطانیہ اور دیگر حکومتوں کا فریضہ ہے کہ وہ آگے بڑھ کر ایسے شرپسند عناصر کی لغویات کی فوری طور پر تردید کریں اور عالمی ذرائع ابلاغ ایسے الزامات کو سنجیدگی سے لینے کی بجائے اس طرح کے طبقات کی ذہنی حالت کا محاسبہ کریں، یہ بھی پتہ لگایا جانا چاہیے کہ ان کے محرکات کیا ہیں؟ اس طرح کے عمل سے دہشتگرد اور منفی عناصر کو تقویت ملتی ہے ۔وطن عزیز کے سبھی حلقوں کی ذمہ داری ہے کہ ملکی اور غیر ملکی میڈیا و تحقیقی اداروں کے ذریعے ایسی بے بنیاد الزام تراشیوں کا خاطر خواہ ڈھنگ سے جواب دیں اور بڑے ناموں سے مرعوب ہونے کے بجائے دلیل اور ’’لوجک‘‘ کو اہمیت دیں۔ کچھ بڑے نام غالباً اپنے طرز عمل کی وجہ سے ’’نام بڑا اور درشن چھوٹے‘‘ کے زمرے میں آتے ہیں۔ خصوصاً آئی ایس آئی تو ازل سے ہی پاک وطن کے مخالفین کے دل میں کانٹے کی طرح کھٹکتی ہے اور ’’میں کھٹکتا ہوں دلِ یزداں میں کانٹے کی طرح‘‘ کی عملی مثال بن چکی ہے ، مگر یہ امر بھی طے ہے کہ وطن عزیز خدائے بزرگ و برتر کی خاص عنایت سے ہی وجود میں آیا تھا اور اپنی تمام تر کوتائیوں کے باوجود پاک قوم اور قومی سلامتی کے ادارے تا ابد سلامت رہیں گے کہ
ہم سہل طلب کون سے فرہاد تھے لیکن
اب شہر میں تیرے کوئی ہم سا بھی کہا ںہے؟
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024