علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کو بڑا خطرہ بھارتی عزائم سے لاحق ہے

وزیراعظم عمران خان کا 35ویں سارک چارٹر ڈے کے موقع پر برابری اور باہمی عزت کے اصول پر کاربند ہونے کا پیغام
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان انفرادی‘ قومی اور خطے کی ترقی کیلئے علاقائی تعاون پر یقین رکھتا ہے۔ برابری اور باہمی عزت کے اصول پر کاربند رہتے ہوئے مؤثر علاقائی تعاون کا حصول ممکن ہے۔ باہمی احترام اور ایک دوسرے کی خودمختاری کا احترام کرتے ہوئے سارک ممالک ترقی حاصل کرسکتے ہیں۔ انہوں نے اتوار کو 35ویں سارک چارٹر ڈے کے موقع پر اپنے پیغام میں کہا کہ پاکستان سارک عمل کو کامیاب بنانے کیلئے پرعزم ہے۔ توقع ہے کہ سارک عمل میں حائل رکاوٹیں دور کردی جائیںگی۔ انہوں نے باور کرایا کہ سارک ممالک کے دوراندیش رہنمائوں نے جنوبی ایشیاء کی ترقی اور خوشحالی کیلئے سارک چارٹر مرتب کیا‘ یہ دن ہماری توجہ غربت‘ جہالت‘ بیماری اور پسماندگی کے خاتمہ کی طرف مبذول کراتا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان خطے میں ترقی کے مواقع پر یقین رکھتا ہے اور ایک دوسرے کی خودمختاری کا احترام کرتے ہوئے سارک ممالک ترقی کی منزلیں پاسکتے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ پرامن بقائے باہمی کے آفاقی اصول کے تحت ہی بین الریاستی باہمی تعاون کو مربوط و مضبوط بنایا اور علاقائی و عالمی امن و سلامتی کی ضمانت فراہم کی جاسکتی ہے۔ اگر کرۂ ارض پر موجود اقوام عالم کو ایک دوسرے کی آزادی و خودمختاری کی پاسداری مقدم رکھنے کے اصولوں کا پابند نہ کیا جائے تو انسانی معاشرے اور جنگل کے معاشرے میں کوئی فرق نہ رہے اور جس کی لاٹھی اسکی بھینس کے تصور کے تحت بڑی طاقتیں کمزور ممالک کو ہڑپ کرتے کرتے انسانی معاشرے کا وجود ہی ختم کردیں۔ مملکتوں اور ریاستوں کو پرامن بقائے باہمی کے اصول کے ساتھ پیوستہ رکھنے کیلئے عالمی اور علاقائی نمائندہ اداروں کی تشکیل کی ضرورت محسوس کی گئی تھی۔ اس حوالے سے پہلے مملکتوں کو لیگ آف دی نیشنز کے ساتھ وابستہ کیا گیا مگر بدقسمتی سے اس عالمی پلیٹ فارم پر ایک دوسرے کی آزادی اور خودمختاری کی پاسداری کی بنیاد پر پرامن بقائے باہمی کا زریں اصول کارگر نہ ہوسکا اور ’’مائیٹ از رائیٹ‘‘ کا تصور غالب آگیا جس نے لیگ آف دی نیشنز کو غیرمؤثر بنادیا۔ چنانچہ دوسری جنگ عظیم کے بعد عالمی قیادتوں کو لیگ آف دی نیشنز کے متبادل کسی مؤثر اور نمائندہ عالمی فورم کی تشکیل کی ضرورت اس وقت محسوس ہوئی جب امریکہ نے جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم چلا کر ان شہروں کو انسانی آبادی سمیت تباہ کیا اور ایسی ہی جنونی طاقت کے ذریعے دنیا کی تباہی کا بھی دھڑکا لگایا۔ عالمی قیادتوں نے اسی تناظر میں پرامن بقائے باہمی کے تصور کو اجاگر کرکے اقوام متحدہ کی بنیاد رکھی جس کا چارٹر وضع کرکے رکن ممالک کو پابند کیا گیا کہ وہ کسی باہمی تنازعہ کے تصفیہ کیلئے ایک دوسرے کیخلاف طاقت کا استعمال نہیں کرینگے۔ اقوام متحدہ کی تشکیل کے بعد اگرچہ اب تک کسی نئی جنگ عظیم کی نوبت نہیں آئی مگر طاقت کا زعم رکھنے والے ممالک نے اپنی بالادستی تسلیم کرانے کی خاطر’’مائیٹ از رائیٹ‘‘ کا تصور برقرار رکھا ہوا ہے۔ ان میں امریکہ تو سرفہرست ہے جس نے اپنے مفادات اور سلامتی کے تحفظ کی خاطر دنیا کی کسی بھی دوسری مملکت کی اینٹ سے اینٹ بجا دینا اپنا حق سمجھ لیا ہے جبکہ ہمارے خطے میں بھارت بھی امریکہ کی اسی سوچ پر عمل پیرا ہے جو علاقے کے کسی بھی ملک کی آزادی اور خودمختاری کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں اور بطور خاص پاکستان کی تشکیل کے وقت سے ہی بھارت نے اسکی سلامتی کمزور کرنے کی ٹھان لی تھی جس پر اس نے تین جنگیں مسلط کیں۔ اکثریتی آبادی کی بنیاد پر ریاست جموں و کشمیر کا تقسیم ہند کے فارمولے کے مطابق پاکستان کے ساتھ الحاق نہ ہونے دیا اور اس میں اپنی فوجیں داخل کرکے اسکے بڑے حصے پر اپنا تسلط جمالیا جبکہ اس نے 71ء کی جنگ میں ایک گھنائونی سازش کے تحت پاکستان کو دولخت بھی کر دیا اور باقیماندہ پاکستان کی سلامتی کے بھی درپے ہوگیا۔
اس مقصد کے تحت ہی بھارت نے 1974ء میں ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کی اور اس خطے میں بزور غالب ہونے کا جنون اسے آج بھی چین سے نہیں بیٹھنے دے رہا۔ وہ پاکستان ہی نہیں‘ خطے کے دوسرے ممالک سری لنکا‘ بھوٹان‘ نیپال‘ مالدیب اور بنگلہ دیش کی خودمختاری میں مداخلت بھی اپنا حق سمجھتا رہا ہے۔ چنانچہ بھارت کی اس بالادستی والی سوچ کے مقابل خطے کے دوسرے ممالک نے اپنی خودمختاری کے تحفظ کیلئے علاقائی تنظیم کی تشکیل کی ضرورت محسوس کی۔ اسی سوچ کے تابع35 سال قبل سارک تنظیم کا قیام عمل میں آیا جس کی ہر سال سربراہی کانفرنس اس ملک میں منعقد کرنا طے ہوا جو روٹیشن کی بنیاد پر اس تنظیم کا چیئرمین بنایا گیا ہو۔ اس تنظیم کا چارٹر بھی پرامن بقائے باہمی کے فلسفہ پر ہی مبنی ہے جس کے تحت اسکے رکن ممالک کے مابین دوطرفہ تجارت کیلئے باہمی تعاون کو فروغ دینا طے کیا گیا۔ یقینی بات ہے کہ خطے کے کسی ملک کا کسی دوسرے ملک کے ساتھ کسی قسم کا تنازعہ ہو تو اسکے حل کے بغیر دوطرفہ تجارت کے فروغ کی گنجائش نہیں نکل سکتی اس لئے سارک کے فورم کو دوطرفہ تنازعات کے حل کیلئے بھی کارگر سمجھا گیا اور اسی بنیاد پر پاکستان کی جانب سے سارک سربراہی کانفرنس میں بھارت کے ساتھ جاری کشمیر کے تنازعہ کے حل کیلئے آواز اٹھائی جاتی رہی ہے مگر بھارت نے نہ صرف اس ایشو پر پاکستان کی آواز کی جانب کان دھرنے کی کبھی ضرورت محسوس نہیں کی بلکہ سارک پر اپنا تسلط جمانے کیلئے اسکے رکن چھوٹے ممالک کو اپنے دبائو میں لانے کی پالیسی طے کرلی۔ اسی مقصد کے تحت بھارت کی جانب سے سارک کے رکن ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت اور طاقت کے استعمال کی دھمکیاں دینے کا سلسلہ شروع ہوا۔ سارک کی صرف ایک سربراہی کانفرنس میں جو بھوٹان کے دارالحکومت تھمپو میں 2012ء میں منعقد ہوئی‘ اس وقت کے بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ نے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے پیش رفت کا عندیہ دیا اور اس وقت کے وزیراعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی کے ساتھ ون ٹو ون ملاقات میں پاکستان کے ساتھ اس ایشو پر دوطرفہ مذاکرات کی بھی پیشکش کردی مگر اس کا خمیازہ انہیں ملک واپسی پر بھارتی لوک سبھا میں اپوزیشن ہی نہیں‘ اپنی پارٹی کی بھی سخت مزاحمت کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ وہ سارک کی آخری سربراہ کانفرنس تھی جس میں اس تنظیم کی سربراہی پاکستان کے پاس آئی اور پھر بھارت نے اسلام آباد میں اب تک سارک سربراہ کانفرنس کی نوبت ہی نہیں آنے دی۔ اس نے امریکی سرپرستی اور اپنی طاقت کے زعم میں آج اس خطے ہی نہیں‘ اقوام عالم کے امن و سلامتی کو بھی دائو پر لگا رکھا ہے جس کی مودی سرکار سیکولر بھارت کو عملاً ہندو انتہاء پسند ریاست میں تبدیل کرچکی ہے۔
اس تناظر میں بھارت نے صرف سارک تنظیم کو ہی سبوتاژ نہیں کیا بلکہ دوسری علاقائی تنظیموں ہارٹ آف ایشیاء کانفرنس اور شنگھائی تنظیم کو بھی علاقائی امن کیلئے اپنے کردار کی ادائیگی کیلئے غیرمؤثر بنانے کی کوشش کی ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ نے اسلام آباد میں ہونیوالی ہارٹ آف ایشیاء کانفرنس میں بھی بھارتی رعونت کا مظاہرہ کیا اور پھر دہلی میں اس تنظیم کے اجلاس کی نوبت ہی نہ آنے دی۔ بھارت کا یہی طرز عمل عالمی قیادتوں سے اسکے جنونی ہاتھ روکنے کا متقاضی ہوتا ہے مگر مفادات میں جکڑی اور مصلحتوں کا شکار عالمی قیادتوں نے نمائندہ علاقائی اور عالمی تنظیموں کو پرامن بقائے باہمی کا اصول لاگو کرنے کے قابل ہی نہیں چھوڑا۔
یہی وہ صورتحال ہے جو ایک دوسرے کی آزادی اور خودمختاری کا احترام کرنے اور باہمی عزت کے اصول پر کاربند رہنے کی سوچ پنپنے ہی نہیں دے رہی اور اسکے برعکس جنگ و جدل والی سوچ کے تحت ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کی جارہی ہے جس میں امریکہ اور بھارت نمایاں ہیں۔ آج بھارت پاکستان اور اسلام دشمنی میں جس ڈگر پر چل رہا ہے اسکے پیش نظر اسکے ہاتھوں علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کا تاراج ہونا بعیداز قیاس نہیں۔ اس لئے علاقائی اور عالمی امن کیلئے فکرمند عالمی اور علاقائی قیادتوں کو بہرصورت اپنا عملی کردار بروئے کار لانا ہوگا اور بھارتی جنگی جنون اور امریکی توسیع پسندانہ عزائم کا ٹھوس بنیادوں پر سدباب کرنا ہوگا۔ 35ویں سارک چارٹر ڈے کے موقع پر وزیراعظم عمران خان نے عالمی اور علاقائی قیادتوں کو یہی پیغام دیا ہے۔ اگر عالمی اور علاقائی برادری میں ایک دوسرے کی آزادی اور خودمختاری کو مقدم نہیں رکھا جائیگا تو ’’مائیٹ از رائیٹ‘‘ کا غالب ہوتا تصور اس کرۂ ارض کی تباہی کی نوبت لا کر رہے گا۔