منگل‘ 12 ؍ربیع الثانی 1441ھ ‘ 10 ؍ دسمبر 2019ء
اپوزیشن سنجیدہ نہیں ورنہ حکومت ایسے بے لگام نہ ہوتی۔ اختر مینگل
بلوچستان کی سیاسی جماعت بی این پی (مینگل) کے سربراہ سردار اختر مینگل نے اپنی ہی اتحادی جماعت تحریک انصاف کے اقدامات پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے حالات نہ بنائیں کہ مشرف والا مور پھر ناچنا شروع کر دے۔ مشرف والے مور کے ناچنے کے حوالے سے ظاہر ہوتا ہے کہ سردار اختر مینگل حکومت سے کچھ زیادہ ہی خفا ہیں۔ یوں سمجھئے کہ اُنہوں نے اپنے اتحادیوں کو وارننگ جاری کر دی ہے کہ وہ بے لگام نہ ہوں، ورنہ اُنہیں ’’نتھ‘‘ ڈالی جا سکتی ہے۔ انہوں نے اپوزیشن کو بھی تازیانہ لگا دیا ہے کہ اگر وہ سنجیدہ ہوتی تو حکومت ایسے بے لگام نہ ہوتی۔ امر واقع ہے کہ جنہوں نے حکومت کو کھڑا رکھنے میں کندھا پیش کر رکھا ہے ان میں سردار اختر مینگل بھی شامل ہیں۔ اتحاد میں شامل بی این پی کے ارکان کی تعداد بے شک زیادہ نہیں ، لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ بعض اوقات بھاری بھرکم مشینری کا ایک کیل گر جائے تو مشین بند ہو جاتی ہے۔ جہاں تک اپوزیشن کو سنجیدہ نہ ہونے کا طعنہ دینے کا تعلق ہے تو یہ بھی مینگل صاحب کی مہربانی ہے کہ اُنہوں نے جب وقت تھا اپوزیشن کو گھاس نہ ڈالی، ورنہ آج بے چاروں کی یہ حالت نہ ہوتی کہ یوسف بے کاررواں ہو کر پھر رہے ہیں۔ اپوزیشن پر عجب وقت آن پڑا ہے۔ لیڈر بیمار ہیں اور بیمار بھی ایسے ویسے نہیں ، نہایت سنگین بیمار ہیں۔ جسے لندن والے بھی جواب دے دیں، اُس سے آپ کس قدر سنجیدگی کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔ زرداری دل کو تھامے بیٹھے ہیں، جو دیسی بیماریوں سے بچ گئے ہیں اُنہیں نیب کا جان لیوا مرض لاحق ہو گیا ہے۔ آج انکشاف ہوا ہے کہ سردار صاحب پٹاری میں چھ نکات قسم کا ناگ لیے پھرتے ہیں ، جنہیں تسلیم کرنے کا مطالبہ کر کے اُنہوں نے ہمیں ڈرا دیا ہے۔ ہم پہلے ہی 6 نکات گزیدہ ہیں۔ اللہ خیر کرے!! حکومت والو، اپوزیشن کو چھوڑو اور خود ہی سنجیدہ ہو جائو ورنہ چھ نکات کا ڈسا پانی نہیں مانگتا۔
٭٭٭٭
تاخیر سے آنے پر باراتیوں کی پٹائی، دُلہا گرفتار، دُلہن کی پڑوسن سے شادی
بھارتی ریاست اُتر پردیش (یو پی) کے تاریخی شہر بجنور میں بارات تاخیر سے آنے پر دُلہن والوں نے نہ صرف باراتیوں کی پٹائی کر دی بلکہ جہیز مانگنے پر دولہا کو گرفتار بھی کرا دیا۔ دُلہن کی شادی پڑوس میں رہنے والے نوجوان سے کرا دی گئی۔ بدقسمتی کے سائے پیچھا کر رہے ہوں، تو اسی طرح گاڑیاں چھوٹ جایا کرتی ہیں۔ کار یا بس کے ٹائر پنکچر ہو جاتے ہیں۔ خبر میں یہ تو نہیں بتایا گیا کہ باراتیوں نے تاخیر کی کیا وجہ بتائی اور یہ کہ باراتیوں کے لئے تیار کھانے کا کیا بنا۔ یہ کہانی پڑھ کر مشہور شعر یاد آ جاتا ہے …؎
نصیب میں جس کے جو لکھا تھا وہ تِری محفل میں کام آیا
کسی کے حصے میں پیاس آئی ، کسی کے حصے میں جام آیا
جب اوپر والا مہربان ہو، تو نصیب ایسے ہی کھلتے جاتے ہیں۔ پڑوسی جوان نے تو کبھی خواب میں بھی نہ سوچا ہو گا کہ وہ ثمر جسے دیکھ کر آہیں بھرتا تھا کسی دن پکے پھل کی طرح خودبخود گود میں آن گرے گا۔ پڑوسی نوجوان مارے خوشی کے مرتے مرتے بچا اور جو باراتیوں کے لیے کھانا بنا تھا وہ کچھ اور لوگ کھا گئے، اسے کہتے ہیں دانے دانے پر مہر ہوتی ہے۔ بڑے ارمان سے بیاہنے آیا نوجوان اب تھانے میں صفائیاں دیتا پھرتا ہے کہ اُس پر جہیز مانگنے کا الزام غلط ہے۔ اس واقعہ کو محض خبر نہ سمجھا جائے۔ بلکہ، یہ بیک وقت ٹریجڈی بھی ہے اور کامیڈی بھی۔ تقسیم سے قبل بجنور یوپی کی مسلم تہذیب و ثقافت کا ایک اہم مرکز اور اُردو کا گہوارہ تھا۔ اُردو کا تاریخی اخبار مدینہ ملک نصر اللہ خاں عزیز کی زیر ادارت یہاں سے شائع ہوتا تھا۔ اب خدا جانے اس شہر کا کیا حال ہے۔
٭٭٭٭٭
بال رنگنے سے چھاتی کے کینسر کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ نئی تحقیق
امریکہ میں مختلف نسلوں سے تعلق رکھنے والی ہزاروں خواتین پر کی گئی ایک تحقیق میں یہ انکشاف ہوا ہے ۔ تحقیقات کی غرض سے 47000 ایسی خواتین کے اعداد و شمار جمع کئے گئے جن کی بہنیں بھی تھیں جبکہ خود ان میں چھاتی کے کینسر کی تشخیص ہو چکی تھی۔ ماضی میں بھی مختلف سائنسی تحقیقات سے یہ بات سامنے آ چکی ہے کہ مختلف کاسمیٹکس خواتین کی صحت کو متاثر کرتی ہیں اور ان میں کئی طرح کے اندرونی و بیرونی مسائل کو جنم دے سکتی ہیں۔ جس طرح خوش رہنا ہر کسی کا فطری حق ہے۔ اسی طرح، جوان رہنا اور خوبصورت بنے رہنے کی خواہش بھی فطری ہے۔ عورتیں سدا جوان یا خوبرو ہونے کے لیے بڑے مہنگے مہنگے جتن کرتی ہیں کہ اگر آپ کو کاسمیٹکس کی درآمد پر خرچ آنے والے زرمبادلہ کی شرح کا پتہ چل جائے تو آپ حیران رہ جائیں۔ گزشتہ ربع صدی میں بیوٹی پارلرز کھمبیوں کی طرح نمودار ہوئے ہیں، بعض بیوٹی پارلرز تو اتنے مہنگے ہیں کہ دلہن کو تیار کرنے کا لاکھوں وصول کر لیتے ہیں اور یہ ساری تیاری اگلی صبح تک ہوتی ہے، جب دُلہن بیدار ہوتی ہے۔ حسن وہی دل آویز ہوتا ہے جو سادہ ہو، سدا جوان نظر آنے کی متمنی خواتین میں ایک اورکمزوری پلاسٹک سرجری کی بہت پائی جاتی ہے۔ محترمہ نور جہاں نے پلاسٹک سرجری کرا رکھی تھی، ہاتھوں پر دستانے پہنے ہوئے ہوتے تھے لیکن پھر بھی دیکھنے والے اس ساری کاوش کو تاریخی عمارت پر رنگ و روغن سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے۔ دانت جھڑ جاتے ہیں نئے لگوانے کے لیے لاکھوں خرچ کر دئیے جاتے ہیں، مگر جب وہ مرتا ہے تو ورثا دفنانے سے پہلے سونے کے دانت نکال لیتے ہیں۔ اسی طرح گنجے فرشتے، گنج چھپانے کے لیے بالوں کا ٹرانس پلانٹ کراتے ہیں۔ یہ بھی بہت مہنگا سودا ہے۔ سدا جوان اور خوبرو رہنے کا خبط آج کی پیدا وار نہیں، بلکہ ماضی میں بھی بادشاہ، اُمرا اور عیاش لوگ ، سدا جوان رہنے کے چکر میں سونے اور چاندی کے ورق اور کشتے استعمال کرتے تھے اور کچھ مدت بعد ایسے لوگوں کے گردے فیل ہو جایا کرتے تھے اور ایڑیاں رگڑ رگڑ کر جان دیتے تھے۔ خواجہ حسن نظامی مرحوم نے مغل بادشاہوں کی کُشتہ خوری کے بڑے بڑے عجیب قِصے لکھے ہیں۔ ہم وثوق سے کہہ رہے ہیں کہ کوئی ایک خاتون بھی اس تحقیق سے متاثر ہو کر ہیئر کلرنگ کو خیرباد نہیں کہے گی۔ مدھوبالا (ممتاز جہاں دہلوی) بالی وڈ کی سب سے خوبصورت اداکارہ تھی، عین جوانی میں کینسر سے وفات ہوئی، اُس کے مرقد پر جو غالب کا شعر لکھا ہے۔ اُس کا ایک مصرع یہ ہے …ع
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں