عجب سا منظر دِکھائی دیتا ہے۔۔۔۔

میرے سوہنے رب کا یہ خاص کرم ہے کہ بحیثیت انسان مِٹی کے ذرے کو اشرف المخلوقات بنا کر آقا کریمﷺ کا اُمتی بنا دیا اور اپنی لامحدود صفات طیبہ میں جن صفات کو سب سے زیادہ پزیرائی بخشی وہ "رحمن " اور "رحیم" ہیں ۔ اور اس غلطی کے پتلے کو ہر بار غلطی پر معافی مانگنے پر معاف کرنے کی نوید خاص بھی سنائی ہے۔ یہ کرم اور فضل کے معاملات ہیں اور لفظ "فضل" کے لفظی معنی بھی یہی ہیں کہ جس چیز کیلئے کوئی حقدار نہیں ٹھہرتا ، میرٹ پر پورا نہ اترے مگر اُسے عطا ء کر دیا جائے یہ "فضل " ہے ۔
بحیثیت انسان ہماری فطرت میں شامل ہے کہ ہم ہر چیز کو ایسے دیکھتے ہیں جیسے ہم دیکھنا چاہتے ہیں ایسے نہیں دیکھتے جیسے وہ ہے۔ ہر غلطی Justify کرتے ہیں اور ہر بات سے اپنے فائدے کی تشریح کرتے ہیں ۔ آج تک اسلامی مملکت پاکستان میں قائد اعظم کے بعد تقریباً جتنے حکمران آئے سب اپنا اپنا رول ادا کر کے چلے گئے مگر تاریخ لکھنے والا جب تاریخ لکھے گا تو وہ ملک و قوم کیلئے اُن کی خدمات کے تذکرے کے ساتھ ساتھ حصولِ اقتدار سے لیکر طوالت اقتدار تک اُن کی جدو جہد اور وجۂ اختتامِ اقتدار اور بربادی ٔ ء ِ گلستان ضرور بیان کرے گا۔
سقوطِ ڈھاکہ سے لیکر آج تک ہم سے بہت غلطیاں ہوئی ہیں مگر سیاستدانوں کی اُچھل کود سے ایسے لگتا ہے کہ ہم نے اُن غلطیوں سے سبق نہیں سیکھا ۔ لوگ کہتے ضرور ہیں کہ تاریخ سے سبق سیکھنا چاہیے مگر شاید تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ اُ س سے کوئی سبق نہیں سیکھتا ۔
بحیثیت سیاسی کارکُن میں یہ سمجھتا ہوں کہ شاید ہماری Ownership Regarding Pakistan آج تک On Ground Establish ہی نہیں ہوئی کہ ہم پاکستان کے مالک ہیں اور ہماری مائوں ، بہنوں اور بیٹیوں کے سروں پر دوپٹے پاکستان کی وجہ سے محفوظ ہیں ۔ کاش ہمیں اس کا ادراک ہوتا ۔
اگر ہم بحیثیت مسلمان اپنے ایمان کو مضبوط کریں اور دُنیا کو عارضی سمجھیں توشاید پھر کوئی مسلمان اللہ کی ناراضگی سے بچنے کیلئے حقوق العباد پر ہر صورت کار بند ہو جائے ۔ جناب علیؓ فرماتے ہیں کہ اللہ سے جب بھی مانگو ضرورت مانگو کہ اللہ فقیرکی ضرورت کو بھی پورا کرتے ہیں خواہش نہ کرو کہ خواہشات کبھی بادشاہوں کی بھی پوری نہیں ہوتیں ۔ آج ہم نے ضرورتوں کو چھوڑ کر اپنی ناجائز خواہشات کی تکمیل کیلئے اپنے آپ کو دنیا میں ذلیل و رسوا کر لیا ہے جبکہ یہ دنیا عارضی ہے۔ ہم اقتداراور ہوسِ زَر میں موت کو بھی بھول گئے ہیں ۔
میں نے پڑھا ہے کہ ایک بہت بڑے قبرستان کے سامنے سے ایک شخص گزرا اُس نے دیکھا کہ قبرستان کے دروازے پر ایک تختی لگی ہوئی تھی جس پر لکھا تھا کہ اس قبرستان میں بہت سے وہ لوگ دفن ہیں جوکہتے تھے کہ کائنات کا نظام ہمارے بغیر نہیں چل سکتا ۔
ایک دن واپس جانا ہے کوئی نہیں روک سکتا وہ دولت بھی نہیں جس کیلئے انسانوں کے گلے کاٹتے ہو۔ صاحبِ اقتدار کی ذمہ داری عام لوگوں سے زیادہ ہے جس کا اُسے روزِ محشر جواب دینا ہوگا۔اگر کوئی حکمران یہ سمجھے کہ مجھے رعایت ملے گی تو پھر جنابِ عمر فاروقؓ سے پوچھو جو فرماتے تھے کہ دریائے دجلہء کے کنارے اگر کوئی کتا بھوک سے مر گیا تو مجھے روزِ محشر اس کا بھی جواب دینا پڑے گا۔جناب عمر فاروقؓ جنھیں دیکھ کر شیطان راستہ بدل لیتا تھا اگر وہ خلیفہ عمر حساب سے نہیں بچ سکتے تو آپکی حیثیت تو ان کے پائوں کی خاک کے برابر بھی نہیں ہے۔
اگر کوئی حکمران یہ سمجھے کہ وہ "سانحہ بلدیہ"، "سانحہ ساہیوال" اور "سانحہ ماڈل ٹائون" سے روزِ محشر بچ جائے گا تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔ پاکستان کی بنیادوں میں جن معصوم بہنوں، بیٹیوں اور بچوں کا خون ہے اس ملک کو مذاق اور اپنے باپ دادا کی جاگیر سمجھ کر لوٹ کر اترانے والے یہ سمجھ لیں کہ شہدائے پاکستان آپ سے روزِ محشر اس کا حساب لیں گے۔
اللہ کریم دنیا میں آزمانے کیلئے رسی دراز کرتا ہے مگر جب اللہ کی پکڑ آتی ہے تو وہ بہت مضبوط ہے کوئی چھڑا نہیں سکتا ۔پاکستانی قوم انتہائی ٹیلنٹڈ اور سادہ قوم ہے بہت جلد اعتبار بھی کرتی ہے اور اس قوم کی بھولنے اور قربانی دینے کی عادت بھی لاجواب ہے ۔ جب محبت کرتے ہیں تو اتنی کہ ملک و قوم کو لوٹنے اور اسی قوم کے بچوں کے مستقبل سے کھیلنے اور ملک کو گروی رکھنے والوں کے ہاتھ بھی چومنے سے گریز نہیں کرتے ۔ اور ماشااللہ لیڈر ایسے کہ سمندر پی جائیں اور خشک ہونٹوں کے ساتھ اپنی مظلومیت کی کہانیاں سنا کر بھولے بھالے لوگوں کو آسانی سے بیوقوف بنا کر اپنے سحرِ اُلفت کی غلامی سے بھی نہ نکلنے دیں ۔ ان کیلئے میں یہی کہوں گا کہ:۔
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ تم قتل کرو ہوکہ کرامات کرو ہو پاکستانی قوم اس وقت انتہائی مشکل وقت سے گزر رہی ہے ۔ مہنگائی اور اوپر سے بے روزگاری اور حکومت کی بے حسی نے قوم کو جس بے بسی کی دلدل میں دھکیل دیا ہے آخر کب تک ایسا چلے گا کب تک قوم اپنے بھوکے بچوں کا منہ دیکھے گی۔
حکومتِ وقت جتنی جلدی ہو سکے بہترین ریفارمز لا کر لوگوں کو زندہ رہنے کا حق دیں اگر ایسا نہ کیا تو ایک خونی انقلاب دروازے پر دستک دے رہا ہے غریب کو دال روٹی چاہیے اُسے کسی گوگل سے نوکری چھوڑنے والی اور کسی کو وسیم اکرم یا شیر شاہ سوری بنتے دیکھنے سے غرض نہیں ہے ۔
انھیں بس روٹی جناب عالی۔
حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ آپ کا بہترین دوست وہ ہے جو آپ کو آپکی خامیاں بتائے ۔ اس لیے بڑے باادب طریقے سے عرض کرتا ہوں کہ ہر طرف عوامی چیخ و پکار ہے کہ ہم سے زندہ رہنے کا حق کیوں چھینا جا رہا ہے ۔ میں بحیثیت وزیر مہمانداری اپنی ذمہ داریاں نبھاتا رہا ہوں ۔ میں وزیر اعظم پاکستان کو لاہور ائیر پورٹ سے الوداع کہنے کیلئے چیف سیکریٹری اور ایڈیشنل I.G شیخ اسرار صاحب اور گورنر پنجاب کے ساتھ موجود تھا وزیر اعظم پہنچنے والے تھے میں نے شیخ اسرار صاحب ایڈیشنل I.G جو کہ اگلے ہفتے ریٹائرہو رہے تھے اُن سے پوچھا کہ آپ نے بہت اچھی سروس کی ہے آپ اپنے تجربات کی کوئی با ت بتائیں تو پنجابی میں کہنے لگے ۔
"چوہدری صاحب جیہڑا اپنی آئی تے آجائے اوہدے توں وَلا جائو" کبھی کسی چیز کی انتہا کو نہیں دیکھنا چاہیے کہ چھوٹی لڑائی ، چھوٹا قرض اور چھوٹی بیماری کو کبھی ایزی نہ لیں ۔ جناب عالی:۔
"History Repeat Itself but in Reverse Direction"
جنابِ وزیر اعظم قوم کو آپ سے بہت امیدیں ہیں جو اب مایوسی میں ڈھلنا شروع ہو گئی ہیں اور لوگ یہ کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ:۔
عجب سا منظر دکھائی دیتا ہے
ہر شخص یہ دہائی دیتا ہے
محل کے سامنے اِک شور ہے بر پا
کہ امیر شہر کو اونچا سنائی دیتا ہے
پاکستان زندہ باد