اس بات پر عمومی اتفاق ہے کہ پاکستان میں ناجائز طورپر پیسہ بنانے کا رحجان اسی کی دہائی کے آخر میں تیز ہوا۔ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں پہلی مرتبہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں ایک ایک نشست پر کروڑوں روپے لگائے گئے۔ جنرل ضیاء الحق نے یہ انتخابات پیپلز پارٹی اور دوسری سیاسی جماعتوں اور ان کے لیڈروں کے انتخابی عمل سے باہر رکھنے کے لئے کرائے تھے۔ سیاسی جماعتوں نے غیر جماعتی انتخابات کے انعقاد کی مخالفت بھی کی تھی۔ بیرون ملک سے بھی جنرل ضیاء الحق پر دباؤ تھا کہ وہ تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دیں۔ اس دباؤ کے تحت سیاسی جماعتوں کو بالآخر انتخابات لڑنے کی اجازت دے دی گئی۔ دوسری طرف سیاسی جماعتوں جس میں موومنٹ فار انسٹوریشن آف ڈیموکریسی میں شامل جماعتوں اور ان کی چوٹی کی قیادت نے ایبٹ آباد تحریک استقلال کے سربراہ ائیر مارشل (ر) اصغر خان کی اقامت گاہ پر ایک اجلاس منعقد کیا جس میں جنرل ضیاء الحق کی حکومت کی طرف سے منعقد ہونے والے انتخابات میں حصہ لینے یا نہ لینے پر غور ہوا۔ ملک کی صف اول کی سیاسی قیادت جس میں نواب زادہ نصراللہ خان‘ نصرت بھٹو‘ غلام مصطفے جتوئی‘ ملک قاسم اور کئی دوسرے لیڈر شامل تھے نے جنرل ضیاء الحق کی طرف سے منعقد کئے گئے انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ کیا۔ سیاسی لیڈروں کا خیال تھا کہ جنرل ضیاء الحق کی انتظامیہ انتخابات میں دھاندلی کرکے اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرے گی اس لئے ان انتخابات میں حصہ لینا بے سود ہے۔
اپوزیشن جماعتوں کے ایبٹ آباد کے اجلاس کے فیصلے پر جنرل ضیاء الحق نے سکھ کا سانس لیا تھا کہ غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں جو اسمبلی بنے گی ان میں کوئی بڑے قد کاٹھ کا لیڈر شامل نہیں ہوگا۔ 1985ء کے غیرجماعتی انتخابات میں جو اسمبلیاں وجود میں آئیں ان میں محدود لوگوں کے سواء اکثر غیر معروف لوگ اسمبلیوں میں پہنچ گئے۔
یہ اسمبلیاں 29 مئی 1988ء تک قائم رہیں۔ سندھ سے محمد خان جونیجو کو وزیراعظم بنانے کا فیصلہ ہوا۔ مسلم لیگ جونیجو گروپ کے نام سے ایک جماعت نے حکومت بنا لی۔ جن لوگوں نے غیر جماعتی انتخابات میں کروڑوں روپے لگائے تھے انہوں نے اپنے پیسے پورے کرنے کے لئے تگ ودو شروع کر دی ان اسمبلیوں میں کئی صعنت کار‘ تاجر کئی طرح کے دھندے کرنے والے منتخب تھے۔ محمد خان جونیجو ایک شریف اور دیانت دار شخص تھے۔ انہوں نے اپنی حکومت کو بدعنوانی سے پاک رکھنے کی پوری کوشش کی۔ جونیجو مرحوم نے اپنی کابینہ کے دو ارکان بلوچستان کے شہزادہ محی الدین‘ وزیر تجارت اور انور عزیز چوہدری وزیر بلدیات کو بدعنوانی کے الزام میں برطرف کر دیا تھا۔ مرحوم نے وزیراعظم ہاؤس کے اخراجات جو لاکھوں روپے سالانہ تھے۔ انتہائی کم کردئیے تھے۔ سرکاری اداروں میں کفایت شعاری اختیار کی گئی۔ حتی کہ فوجی جرنیلوں کو بھی سوزکی کار استعمال کرنے کے لیے کہاگیا تھا۔ جونیجو کے یہ اقدامات جنرل ضیاء الحق اور ان کے قریبی حلقوں کو پسند نہیں تھے۔ 29 مئی 1988ء کو وزیراعظم جونیجو کی حکومت کو آرٹیکل (58) 2 بی کے تحت برطرف کرکے اسمبلیاں توڑ دی گئیں۔ اکتوبر 1988ء میں نئے انتخابات کرنے کا اعلان ہوا۔ یہ الگ بات ہے کہ جنرل ضیاء الحق مزیدانتخابات کرانے کا موقع نہ ملا۔
جونیجو کی برطرفی اور جنرل ضیاء الحق کی طیارے کے حادثے میں موت کے بعد ہونے والے انتخابات میں بے نظیر بھٹو اور نوازشریف کی دودو حکومتیں بنیں۔ ان حکومتوں کو بدعنوانی آئین کے خلاف ورزیوں مسلم لیگ اور پی پی پی کی شدید محاذ آرائی کو گھر بھیجا گیا۔ اس عرصہ میں بدعنوانی میں اضافہ ہوتا رہا۔ سیاست دانوں کی آپس کی لڑائی اور کشمکش کی وجہ سے بیوروکریسی میں گروپ بن گئے جو پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کے ’’وفاداروں‘‘ میں شمار ہونے لگے۔ دونوں میں سے جو بھی حکومت اقتدار میں ہوتی بیوروکریٹس ریاست کے وفاداربننے کی بجائے اقتدار میں آنے والی حکومت کے وفادار بن گئے۔لوٹ مار کا ایک ایسا دور شروع ہوا جس سے ملک کے سارے ڈھانچے کو ہلا کررکھ دیا ۔ میرٹ اور انصاف کا تصور بھی ختم ہوگیا۔ جنرل مشرف نے بارہ اکتوبر 1999ء کو جب نوازشریف حکومت کو ہٹا کر ٹیک اوور کیا تو بدعنوان کے خاتمے کے لیے نیب کا ادارہ قائم کیا۔ جس کے سربراہ فوجی افسر بنتے رہے۔ اس دور میں بھی بدعنوانی ختم نہ ہوسکی۔
2008ء میں زرداری اور 2013ء میں نواز حکومت اقتدار میں آئیں تو دونوں نے پرانی روش اختیار کی۔ اپنے وفاداروں کو نوازا۔ پی ٹی آئی کی قیادت نے نیب کے ذریعہ جو احتساب شروع کیا اس سے ملک میں سیاسی محاذ آرائی پھر شدت اختیار کر گئی ہے اس محاذ آرائی کی وجہ سے مبینہ طور پر بدعنوانی میں ملوث سیاست دانوں اور بیوروکریٹس کی گرفتاریاں اور احتساب کا عمل جاری ہے لیکن جس کا احتساب ہورہا ہے وہ اسے انتقامی کاروائی قرار دے کر احتجاج کررہا ہے احتساب کو اس کو متنازعہ بنایا جا رہا ہے ۔ گزشتہ روز بدعنوانی کے خاتمے کے دن کے سلسلے میں جو تقریبات ہوئی ہیں ان میں وزیراعظم اور نیب کے سربراہ نے احتساب کا عمل جاری رکھنے کا عزم دہرایا ہے نیب کے چیئرمین نے احتساب کے عمل کا رخ تبدیل ہونے کا عندیہ دیا ہے گزشتہ تین دہائیوں میں بدعنوانی جس انداز میں پھیلی ہے اس کو ختم کرنے کے لیے ایک طرح کے جہاد کی ضرورتٰ ہے لیکن اس جہاد کی ملک اور معاشرے کو ایک قیمت بھی چکانا ہوگی۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024