محبتیں کبھی بے اثر نہیں ہوتیں اور محبتیں کبھی بے ثمر نہیں ہوتیں۔ محبت دنیا کا وہ اِسم ہے جس نے کائنات کو طلسماتی بنا رکھا ہے اور محبتوں میں وہ طاقتیں عظمتیں رفعتیں ہوتی ہیں جو انسان کو موت کی کھائیوں سے نکال کر زندگی کی وادیوں میں لے آتی ہیں۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ جو لوگ منفی ذہنیت کے حامل، تنگ نظر اور نفرتوں کے خوگر ہوتے ہیں۔ وہ بلند قامت لوگوں کو نیچے اور پیچھے دھکیلتے دھکیلتے خود بھی پستیوں اور ذلتوں میں گِر جاتے ہیں اور جو لوگ مثبت سوچ، بلند نظریات اور وسعتِ قلبی کے مالک ہوتے ہیں۔ وہ دوسروں کی قابلیت ذہانت محبت اور دولت یا شہرت سے حسد کرنے کے بجائے خوش ہوتے ہیں یا رشک کرتے ہیں کہ اللہ نے کسی کو دنیا جہان کی نعمتوں سے نوازا ہے، خدا انہیں بھی اس قابل کرے۔ یہ ایک صحت مند رحجان اور پازٹیو سائن ہے۔ میں نے چھ ماہ کے عرصے میں اپنی زندگی کی طویل ترین اور سخت ترین بیماری کاٹی۔ چار ماہ مسلسل بستر تک محدود ہو کر رہ گئی تھی۔ دیکھا جائے تو میں دوبارہ زندگی کی طرف پلٹی ہوں۔ اس شدید بیماری نے مجھے اپنوں اور غیروں کی شناخت دی۔ لوگوں کے باطن واشگاف کئے۔ بے شمار لوگوں کی عظمتوں کا گرویدہ بنایا۔ زندگی اور صحت کا احساس دلایا۔ خدا سے قریب کیا۔ صبر، قربانی اور محبت خدمت جیسے جذبات کا عادی بنایا۔ بے پناہ تکلیف اور مصیبت اٹھانے کے باوجود مجھے یہ بتایا کہ اس دنیا میں بے لوث محبت کرنے والوں اور دل سے چاہنے والوں کی کوئی کمی نہیں۔ مجھے خود بھی کبھی اندازہ نہ ہوتا کہ اس دنیا میں سینکڑوں یا ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگ ہیں جو مجھ سے محبت کرتے ہیں اور انتہائی عزت کرتے ہیں۔ میں کسی کو کیا دیتی ہوں۔ میں تو صرف اپنے حصے کا کام عبادت سمجھ کر کرتی آئی ہوں۔ مجھے تو شکوہ رہتا تھا کہ اتنی خدمات انجام دیکر بھی اس ملک میں کوئی صِلہ نہیں ملتا۔ یہاں ذہانت اور قابلیت کا کوئی مول نہیں ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں حکومتوں میں وہ لوگ پیش منظر اور عہدوں کا حصہ ہوتے ہیں جن کی تعلیم و تربیت واجبی، کردار اور خدمات محدود مگر خوشامد چاپلوسی سفارش رشوت اقربا پروری اور منافقت میں جو ڈگری یافتہ ہوتے ہیں۔ تمام مراعات عنایات ٹکٹ عہدے مراتب ایوارڈز کے وہی حقدار قرار پاتے ہیں ۔ بہرحال یہ گِلہ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ یہ معاملہ بھینس کے آگے بین بجانے کے مترادف ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ہم اہل دانش اپنی صفوں میں عزت، شہرت اور تمکنت سے موجود رہتے ہیں لیکن ٹکٹیں، عہدے، ایوارڈز بانٹنے والے دو چار سالوں میں ہی منظر سے ہٹ جاتے ہیں اور خود ہمارے محتاج ہو جاتے ہیں اس لیے بیماری کے دوران میرے اندر سے یہ شکوہ بھی مِٹ گیا جب لاکھوں لوگوں نے میرے لیے بے لوث دعائیں کیں۔ چار ماہ بعد جب میں بستر سے اُٹھی تو بے شمار لوگ تھے جو میری صحت یابی کا جشن منانا چاہتے تھے۔ کئی یونیورسٹیوں، ادبی سماجی تنظیموں اور احباب نے وقت مانگا کہ وہ صحت یابی کا جشن منانا چاہتے ہیں۔ ان میں میری بہت پیاری دوست سابقہ ایم پی اے اور ق لیگ کی قابل رہنما بیگم آمنہ الفت، بیگم صفیہ اسحاق، رضیہ اختر، روبیعہ جیلانی، ممتاز راشدی، فرخ شہباز، نور الہدیٰ ، فراست بخاری، قمر بھٹی، شگفتہ غزل ہاشمی، الماس شبی، ایم زیڈ کنول ، گلشن عزیز، فاطمہ قمر، عزیز ظفر آزاد، اسحاق جیلانی، امین رضا مغل، اسد سلیم شیخ، عالیہ بخاری ، عائشہ غفار اور بزنس کمیونٹی سے بڑی تعداد میں لوگ شامل ہیں۔ میرے لیے ایکدم سے اتنی تقریبات میں جانا ممکن نہیں تھا۔ ہماری بہت پیاری دوست گلشن عزیز تین ماہ سے مسلسل مُصر تھیں اور وہ انگلینڈ سے جلدی محض اسی وجہ سے پاکستان آئی تھیں کہ وہ یہ تقریب منانا چاہتی تھیں۔ چنانچہ اُن کے محبت بھرے اصرار کے آگے مجھے ہاں کرنا پڑی۔ گلشن عزیز نے عسکری الیون میں اس تقریب کا اہتمام کیا۔ میرے کہنے پر انہوں نے تقریب الحمرا کی جگہ اپنی رہائش گاہ عسکری الیون میں منعقد کی جہاں علمی ادبی شخصیات کو مدعو کیا گیا تھا اور میری گزارش پر انہوں نے تقریب کو محدود رکھا تھا۔ اس تقریب میں شاعرات اور دانشور خواتین کو بُلایا گیا تھا۔ ادیبوں شاعروں اور دانشور مردوں کو مدعو نہیں کیا گیا تھا جس کا خمیازہ مجھے اور گلشن عزیز کو خفگی کی صورت میں بُھگتنا پڑا۔ تقریب میں مشاعرے کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔ تقریب میں ایم زیڈ کنول جو کمپیئر بھی تھیں۔ اپنے برمحل برجستہ اشعار سے چھائی رہیں۔ انہوں نے میرے لیے بھی ایک بہت خوبصورت نظم سنائی جس میں دعائوں کی سوغات اور محبتوں کی برسات تھی۔ دلشاد نسیم، شگفتہ غزل ہاشمی، گلشن عزیز، زرقا نسیم، کرن وقار، ایم زیڈ کنول سبھی نے اپنی شاعری سنائی۔ فاطمہ قمر، ڈاکٹر سلمیٰ، انجیل ظفر ، ثمر اور تمام شاعرات نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ دلشاد نسیم نے کہا کہ ادبی خواتین معاشرے کو سُدھار رہی ہیں اور اس میں ڈاکٹر عارفہ صبح خان کا نمایاں کردار ہے۔ ادیب اور شاعر خواتین معاشرے کی نباض ہوتی ہیں۔ جس طرح وہ معاشرے کا خیال رکھتی ہیں۔ معاشرے کو بھی اُنکا خیال رکھنا چاہئے۔ گلشن عزیز نے کہا کہ ادب سے تعلق رکھنے والی خواتین حساس اور نرم مزاج انسان ہوتی ہیں۔ ہمیں اُنکی عزتِ نفس اور وقار کا احساس ہونا چاہئے۔ ڈاکٹر عارفہ صبح خان کی بیماری سے یہ احساس زیادہ پیدا ہوا ہے کہ ہمیں اپنے ادبی اثاثوں کی قدر و منزلت کرنی چاہئے۔ شگفتہ غزل ہاشمی نے کہا کہ ادیب خواتین معاشرے کا چہرہ ہی نہیں، دل اور دماغ بھی ہیں۔ ڈاکٹر عارفہ کی شبانہ روز خدمات اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ایم زیڈ کنول نے کہا کہ ادب کے باغ میں شاعر اورادیب خواتین نے گلہائے رنگا رنگ پیدا کئے ہیں اور عارفہ صبح خان نے ادب بلکہ صحافت میں نئی اور روشن صبحوں کا آغاز کیا ہے۔ عالیہ بخاری نے کہا علم و ادب کے بغیر معاشرہ ویران ہے۔ زرقا نسیم نے کہا ہمیں عارفہ صبح خان کی صورت میں روشنیوں کی نئی منزل ملی ہے۔ فاطمہ قمر نے کہا کہ شکر ہے آج ہم نے اپنی دوست عارفہ صبح خان کو صحت سلامتی سے دیکھا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن سے معاشرہ بلکہ ملک ترقی کرتا ہے۔ گلشن عزیزنے انتہائی پُرتکلف کھانے کا اہتمام کیا تھا۔ گلشن عزیز کی تقریب سے میں دامن کو محبتوں کے پھول سے بھر کر لائی تھی۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024