گذشتہ کئی روز سے حکومت کے اتحادیوں کے حوالے سے مختلف خبریں گردش میں ہیں۔ خبروں سے تعلق رکھنے والے افراد اپنے انداز میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اور اس کے اتحادیوں کے مابین تعلقات، اختلافات اور دیگر معاملات پر خبریں دیتے رہتے ہیں۔ ان خبروں پر تجزیے اور تبصرے بھی ہوتے ہیں۔ یوں خبر پھیلتے پھیلتے کیا سے کیا ہو جاتی ہے۔ اس کی حیثیت بدل کر رہ جاتی ہے۔ بعض اوقات خبر حقیقت کے قریب تر بھی ہوتی ہے۔ اکثر اوقات اتحادی خود ہی حکومت سے اختلافات بارے میڈیا کو بتا دیتے ہیں۔ بعض اوقات ملاقاتوں کی خبریں بھی نئی بحث کو جنم دیتی ہیں۔ موجودہ حکومت کے مختصر دور اقتدار میں ایسا کئی مرتبہ ہو چکا ہے۔ ان دنوں بھی ایسی ہی خبریں تواتر کے ساتھ سننے پڑھنے کو مل رہی ہیں۔ بلوچستان سے شروع ہو جائیں تو وہاں سے اختر مینگل کے تعلقات حکومت کے ساتھ کشیدہ ہیں۔ اختر مینگل حکومت کے اتحادی تو ہیں لیکن اعتماد کا فقدان ہے اور وہ وقتاً فوقتاً اس کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔ ان دنوں بھی اختر مینگل حکومت سے ناراض ہیں اور اس مرتبہ شاید وہ انتہائی قدم بھی اٹھا لیں۔ ان کے حکومت سے الگ ہونے کے امکانات موجود ہیں۔ یہ درست ہے کہ حکومت اب تک اتحادیوں کے اعتماد پر پورا نہیں اتر سکی اور ان کے مطالبات کو پورا نہیں کیا جا رہا۔ اس کے ساتھ دیگر عوامل بھی اتحاد میں دراڑ کا باعث ہیں۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وزیراعظم تک رسائی بھی اتنی آسان اور تسلسل کے ساتھ نہیں ہے جس کی وجہ سے درمیان کے کھلاڑی اپنا کھیل کھیلتے رہتے ہیں اور اس کھیل کے نتیجے میں اتحاد خطرے میں رہتا ہے۔ بلوچستان میں اس وقت یہ اتحاد شدید خطرے میں ہے اور اس کی وجہ حکومت کا عدم تعاون اور عدم توجہ ہے۔ حکومت کے غیر سنجیدہ رویے کی وجہ سے اختر مینگل اور عمران خان کے راستے جدا ہو سکتے ہیں۔ بہتر یہی ہے کہ وزیراعظم اس مسئلے پر خود توجہ دیں۔کسی بھی صوبے اتحاد کا ٹوٹنا دیگر صوبوں پراثر انداز ہو سکتا ہے اور ہواؤں کا رخ تبدیل بھی ہو سکتا ہے۔ گوکہ دیگر صوبوں میں اس کے امکانات کم ہیں لیکن اگر حکومت اتحادیوں کے ساتھ چلانی ہے تو پھر اتحادیوں کو اہمیت دینا ہی مناسب ہے۔ بلوچستان والے اس معاملے کو زیادہ سنجیدہ بھی لیتے ہیں اور پھر قومی سطح پر تنہائی اور بلوچستان کو نظر انداز کرنے کا پہلو بھی اجاگر ہوتا ہے۔ ان حالات میں بلوچستان کے لوگوں کو ساتھ ملا کر رکھنا حکومت کے مفاد میں ہے۔ تحفظات کو دور کرنے اور خدشات کو ختم کرنے کے لیے وزیراعظم کو خود کوشش کرنا ہو گی۔
سندھ کی بات کی جائے تو یہاں جی ڈے اے اور ایم کیو ایم والے نظر آتے ہیں۔ متحدہ والے فروغ نسیم سے قطع تعلقی کر چکے ہیں۔ وہ فروغ نسیم کو اپنا وزیر نہیں مانتے اور ان کا حکومت سے یہی مطالبہ ہے کہ فروغ نسیم کی وزارت کو ان کے کھاتے میں نہ گنا جائے۔ معاہدے کے مطابق انکے دو وفاقی وزیرحکومت میں ایک اور وزیر شامل کیا جائے۔ ایم کیو ایم کو یہ شکایت بھی ہے کہ انہیں مشاورتی عمل کا حصہ نہیں بنایا جاتا۔
سندھ میں جی ڈی اے والوں کے تحفظات بہت شدید ہیں انہوں نے وزیراعظم عمران خان کے آواز بلند کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم اتحادی ہیں دشمن تو نہیں کہ مشاورت میں بھی شامل نہیں کیا جاتا۔ وزیراعظم کو بتایا گیا ہے کہ اتحادیوں کے جائز کام بھی نہیں ہو رہے اور حکومت کی سرد مہری سے اتحاد کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ سندھ میں بڑے اتحادی ہونے کی وجہ سے جو مقام جی ڈی اے کو ملنا چاہیے وہ نہیں مل رہا وہ بھی ان حالات میں کہ سندھ میں پی ٹی آئی کی حکومت نہیں ہے۔ مستقبل میں کسی بھی قسم کے حالات میں اتحادی ہی مرکزی حکومت کی اصل طاقت ہوں گے۔ یوں اس طاقت کو نظر انداز کرنا یا اہمیت نہ دینا خود پی ٹی آئی کے لیے اچھا نہیں ہے۔ جی ڈی اے کی طرف سے وزیراعظم کو یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مناسب رابطے، تال میل اور اعتماد کا فقدان بھی مسائل پیدا کرتا ہے۔ جی ڈی نے واضح کیا ہے کہ وہ ایک ایسے صوبے سے حکومت کے اتحادی ہیں جہاں سے پیپلز پارٹی کے علاوہ کسی کا الیکشن لڑنا بھی بڑی بات سمجھا جاتا تھا کیونکہ آصف علی زرداری نے صوبے کو ایسا یرغمال بنا کر رکھا تھا کہ کوئی ان کے خلاف الیکشن لڑنے کو بھی تیار نہیں ہوتا تھا۔ اس کے باوجود جی ڈی اے ناصرف حکومت کے ساتھ ہے بلکہ ہر ممکن تعاون بھی کیا جا رہا ہے۔ جی ڈی اے کے ان تحفظات کو وزیراعظم نے غور سے سنتے ہوئے رابطوں کو بہتر بنانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ وزیراعظم نے جی ڈی اے کو یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ ہر وقت ذاتی حیثیت میں انہیں دستیاب ہوں گے اور جی ڈی اے کے تمام جائز مطالبات جلد پورے کیے جائیں گے۔ وزیر اعظم عمران خان نے یقین دہانی کروائی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف بھی ہر مشکل وقت میں اتحادیوں کا ساتھ دے گی۔ سندھ کی سیاست میں کچھ بڑی تبدیلیاں متوقع ہیں۔ حالات کو دیکھتے ہوئے جی ڈی اے کی اہمیت میں اضافہ ہوا ہے۔ اس اتحاد میں ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے صوبے اور مرکز کی سطح خدمات انجام دی ہیں۔ صوبے اور مرکز کے انتظامی معاملات کو چلانے کا تجربہ اور علاقائی سیاست پر گرفت کی وجہ سے جی ڈی اے کا اتحاد پاکستان تحریک انصاف کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے۔ سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کا مقابلہ کرنا آسان نہیں ہے۔ جی ڈی اے نے ناصرف مقابلہ کیا ہے بلکہ سیٹیں بھی جیتی ہیں۔ منتخب نمائندوں کے ووٹوں کا اپنا ایک وزن ہوتا ہے اور سیٹ جیتنے والے کا الگ مزاج ہوتا ہے۔ جی ڈی اے کے ساتھ بہتر ورکنگ ریلیشن شپ کا فائدہ پی ٹی آئی کو مرکز میں بھی ہو گا اور سندھ کی سطح پر بھی اس کے سیاسی فوائد حکمراں جماعت کو ملیں گے۔ جی ڈی اے کی شکایات پر وزیراعظم عمران خان نے گورنر سندھ عمران اسماعیل کی ڈیوٹی لگائی ہے کہ وہ اتحادیوں کے ساتھ رابطوں کو بہتر بنائیں اور ہر وقت اپنی دستیابی کو یقینی بنائیں۔ سیاسی اتحادیوں کی عزت نفس کا خیال رکھا جائے اور ایسے اقدامات سے بچا جائے کہ اتحادی اپنے آپکو اکیلا اور تنہا محسوس کرنا شروع کر دیں۔
پاکستان کی سیاست میں کسی بھی جماعت کے لیے اتحادیوں کے بغیر حکومت بنانا مشکل ہے۔ اتحادیوں کے ساتھ حکومت چلانا اس سے بھی مشکل ہے۔ یہ مشکل بہتر تعلقات اور اعتماد کی فضا قائم کرنے سے آسان ہو سکتی ہے۔ جائز کام چکر لگوائے بغیر کیے جائیں اور دوستوں کو عزت دی جائے تو اتحاد مضبوط اور دیرپا ہو سکتا ہے۔ پنجاب کے معاملات پر آئندہ بات کریں گے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024