ہمارا بیانیہ تو یہ ہے کہ بھارت ہمارے خلاف آبی دہشت گردی کرتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ آبی دہشت گردی صرف پاکستانی پنجاب کے خلاف ہے اور یہی سلوک پاکستان کے تین صوبے بھی پنجاب کے ساتھ کر رہے ہیں ۔بھارت کی آبی دہشت گردی کا نشانہ بھی پنجاب بنتا ہے اور صرف اسلئے کہ بھارت اپنی تین ریاستوں چندی گڑھ، ہر یانہ اور راجستھان کو سیراب کرنا چاہتا ہے اور ہمارے پنجاب کو بنجر اور ریگستان میں تبدیل کرنے پر تلا ہوا ہے۔ بھارت کے بارے میں جب ہم کہتے ہیں کہ وہ آبی دہشت گردی کا مرتکب ہوتا ہے تو ا سکا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے چناب اور جہلم کے پانی کا رخ اپنی طرف موڑ رہا ہے جس سے پاکستان کا صرف ایک صوبہ متاثر ہوتا ہے اور یہ ہے پنجاب ۔ اور جب ہم پنجاب کو پانی کے متبادل ذرائع کی بات کرتے ہیں جن میں کالا باغ ڈیم شامل ہے جو کہ دریائے سندھ پر واقع ہو گا تو ا سکی مخالفت میں پاکستان کے تین صوبے یک زبان نظر آتے ہیں۔ خیبر پختون خواہ کی لیڈر شپ کہتی ہے کہ کالا باغ ڈیم بنا تو اسے بم سے ا ڑا دیں گے۔ یہ دہشت گردی کی کھلی دھمکی ہے۔خیبر پختون خواہ والے یہ بھی کہتے ہیں کہ کالا باغ ڈیم بنا تو نوشہرہ ڈوب جائے گا۔، وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ کالا باغ ڈیم بنا تو ڈیرہ اسماعیل خان کا وسیع زرخیز علاقہ بنجر ہو جائے گا۔ خیبر پختون خواہ کی صوبائی ا سمبلی کئی بار کالا باغ ڈیم کے خلاف قراردادیں منظور کر چکی ہے۔ اب دیکھیں سندھ کا پنجاب کے بارے میں رویہ کیا ہے۔ سندھ اسمبلی بھی کالا باغ ڈیم کے خلاف قرارداد پر قرارداد منظور کرتی رہی ہے اور سندھ کی ہر پارٹی کی لیڈر شپ کالا باغ ڈیم کی مخالفت میں پیش پیش دکھائی دیتی ہے ، وہ یہ بھی کہتے ہیںکہ بھلے سندھ کا فالتو پانی سمندر میںگر جائے مگر یہ پانی سمندری حیات کے لئے ضروری ہے۔ا س لیے اسے ضائع نہیں کر سکتے۔ ہم لاکھ کہیں کہ سندھ کا فالتو پانی بدین اور دیگر ساحلی علاقوں میں جھیلیں اور دلدل بنا دیتا ہے مگر سندھ والے کہتے ہیں کہ یہ جھیلیں ہجرت کرنے والے پرندوں کے لئے از حد ضروری ہیں۔ بلوچستان کا بھی کالا باغ ڈیم کے خلاف یہی واویلا ہے۔ اس صوبے کی اسمبلی بھی کالاباغ ڈیم کے خلاف ان گنت قراردادیں منظور کر چکی ہے۔ بلوچستان کے علیحدگی پسند ہوں یا مبینہ محب وطن عناصر دونوں کالا باغ ڈیم کے خلاف متحد ہیں۔
تو صاحبو! آبی دہشت گردی میں بھارت اکیلا نہیں۔ ہمارے تین صوبے بھی پنجاب کو آبی دہشت گردی کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
کالا باغ ڈیم بنانے کاا علان نواز شریف نے اس روز کیا جب ا سنے ایٹمی دھماکے کئے مگر اٹھانوے کے بعد آج سن انیس آ گیا ، ایک ربع صدی ہونے والی ہے ۔ نواز شریف نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا۔ جنرل مشرف اس ملک کے سیاہ و سفید کا مالک تھا ۔ اسکی اتھارٹی کوکوئی چیلنج نہیں کر سکتا تھا ۔ا سنے بھی کالا باغ ڈیم بنانے کاا علان کیا مگر اس قدرایٹمی طاقت سے لیس اورا ٓمر مطلق بھی اپنا وعدہ ایفا کرنے سے قاصر رہا۔ ابھی جمعہ جمعہ آٹھ روز پہلے ایک چیف جسٹس نے کہا کہ وہ شمالی علاقوں میںمجوزہ دیا میر بھاشا ڈیم بنائیں گے ۔ ا سکے لئے انہوں نے ایک فنڈ قائم کیا۔ بچوں تک نے اس میں چندہ دیاا ور مجرموں سے زبردستی کروڑوں روپے لئے گئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وہ ریٹائر ہو کر اس ڈیم کے کنارے ایک جھونپڑی میں بیٹھ کر اس ڈیم کی تعمیر کی نگرانی کریں گے اورا سے مکمل کروائیں گے مگر نہ اس چیف جسٹس کا کسی کوا تا پتہ ہے اور رہا ڈیم فنڈتو اسٹیٹ بنک کے گورنر بتائیں کہ کیا یہ پیسہ ان کے بنک کھاتے میں موجود ہے۔ اور اگر موجود ہے تو پھر حکومت وقت اس ڈیم کو شروع کیوں نہیں کرتی۔ نواز شریف ٹولے کا کہنا ہے کہ وہ ڈیم کے لئے زمین خریدنے کے لئے ایک سو ارب کا فنڈ دے چکے ہیں تو اب پہلی اینٹ رکھ دی جائے۔ مگر اس ڈیم کی تعمیر میں بھی کئی مشکلات حائل ہیں ۔ ایک تو بھارت کا واویلا ہے کہ یہ ڈیم کشمیر کے متنازعہ علاقے میں ہے۔ اس کے پروپیگنڈے کی وجہ سے عالمی مالیاتی ادارے ڈیم کی فنڈنگ کے لئے آمادہ نہیں ہیں اور میںنے تو یہ بھی کسی سے نہیں سنا کہ چین جو سی پیک کا بہت بڑا علم بردار ہے وہ اس ڈیم کو سی پیک کے پراجیکٹ کا حصہ بنائے گا۔اب پاکستان میں سی پیک اتھارٹی قائم کی جا رہی ہے جس کے چیئر مین جنرل عاصم باجوہ کو میں خوش آمدید کہہ چکا ہوں۔ وہ قوم کی تسلی کرائیں کہ کیا یہ ڈیم سی پیک کی تکمیل کے لئے ضروری ہے یا نہیں۔ ایسے ذمہ داروں کی خاموشی کا مطلب یہی ہے کہ سی پیک والوں سے اس ڈیم کی تعمیر کی امید نہ رکھی جائے۔ صوبہ سندھ کا اس ڈیم پر بھی یہی کہنا ہے کہ دریائے سندھ کے پانی پر صرف اسی صوبے کا حق ہے۔ تو پھر یہ فیصلہ کرنا مشکل نہیں کہ پاکستان کے خلاف آبی دہشت گردی کون کر رہا ہے۔ میرے دل میں بھارت کے لئے کوئی نرم گوشہ نہیں۔ میں ا س کی ا ٓبی دہشت گردی کا بہت بڑا دشمن ہوں مگرمیں جانتا ہوں کہ اگر میںنے اس دشمنی کا برملاا ظہار کیاتو میری بقیہ عمر کوٹ لکھپت جیل میں گزرے گی کیونکہ بھارت مجھے دہشت گرد کہے گا۔ اقوام متحدہ اس پر صاد کرے گی۔ ایف اے ٹی ایف بھی میرے خلاف متحرک ہو جائے گی اور مجھے سقراط کی طرح زہر کا پیالہ پینے پر مجبور ہونا پڑے گا۔
بھارت کی دشمنی تو سمجھ میں آتی ہے ۔ وہ ہمارا روز اول سے دشمن ہے مگر ہم اپنے دشمن کیوں بن گئے، کیا ہم نہیںجانتے کہ متحدہ ہندوستان کی غذائی ضروریات اکیلا پنجاب پوری کرتا تھا اوراب سندھ ۔بلوچستان اور خیبر پختون خواہ کی مہربانی سے متحدہ ہندوستان کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا پاکستان بھی ٹماٹر، لہسن، پیاز اور ادرک کے لئے ترس رہا ہے۔ ہم اس حال کو کیوں پہنچے۔ بلا شبہہ اس میں بھارت کا بڑا عمل دخل ہے مگر پنجاب کو پانی سے محروم رکھنے میں اپنوںکا بھی عمل دخل بھارت سے کم نہیں۔
بھارت ترانے گاتا ہے کہ بوند بوند کو ترسے گا پاکستان۔ ریگستان بنے گا پاکستان۔ قبرستان بنے گا پاکستان۔ بھوکا مرے گا پاکستان ۔ بھارت جو بھی دھمکی دے،وہ خلاف توقع نہیں مگر یہ جو دھمکیاں ہم ایک دوسرے کو دیتے ہیں اور خاص طور پر پنجاب کو صلواتیں سنائی جاتی ہیںتو ا سکانتیجہ بھی ہم ہی بھگت رہے ہیں، پیاز اور ٹماٹر صرف لاہور کی سبزی منڈی میںنایاب نہیں ۔ پشاور، کراچی اور کوئٹہ میں بھی ہا ہا کار مچی ہوئی ہے۔ ہم جب اپنا گلا خود گھونٹیں گے توہمیں کسی بیرونی دشمن کی کیا ضرورت ہے۔
ابھی ہریانہ میں الیکشن مہم میں مودی نے کہا کہ جہلم اور چناب کے پانی پر چندی گڑھ، ہریانہ اور راجستھان کا حق فائق ہے۔ ان دریائوں کی ا یک بوند تک پاکستان کو نہیں دیں گے۔ اور ادھر ہمارے اپنے تین صوبے دریا ئے سندھ پر اپنا حق جتلاتے ہیں تو پھر پنجاب کہاں جائے۔کیا یہ بھارت سے پانی خریدے جیساکہ تقسیم کے فوری بعد بھارت نے پنجاب کا پانی بند کر دیا تھا تو لاہور کے دو بڑے زمین دار بھاگم بھاگ دہلی پہنچے اور نہرو سے پانی کی بھیک مانگی مگر ا سنے کہا پانی ملے گا مگرقیمت پر۔ تار یخ شاید اپنے آپ کودہرا رہی ہے۔ بھارت سے جہاں باقی تجارت ہوتی ہے۔ اسی طرح پنجاب کو بھارتی لیڈر نجوت سنگھ سدھو کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑیں گے ۔ سدھو کے کنٹرول میں دو بڑے ہیڈ ورکس ہیں جہاں سے ہمیں پانی مل سکتا ہے۔ سدھو پاکستان پر بے حد مہربان ہے، ہمارے گن گاتا ہے تو ہمارے لئے پانی بھی کھول سکتا ہے ہم نے فراخدلی دکھائی اوراس پر کرتارپور کے دروازے کھولے ۔ وہ خیر سگالی کے طور پر مادھو پور اور فیروز پور ہیڈ ورکس کے در ہمارے لئے کھول دے ،ہمارا راوی اور ستلج گندے پانی کے جوہڑ میں بدل چکے ہیں اور ہمیں پیازا ور ٹماٹر تک میسر نہیں۔ کیا سدھو ہم پر ترس نہیں کھا سکتا ، وہ بابا نانک ،بلھے شاہ ا ور بابا فرید کا پرستار ہے تو اسے معلوم ہونا چاہئے کہ نارووال سے ننکانہ تک باسمتی کی خوش بو ختم ہو چکی اور قصور اور پاکپتن کے کھیتوں سے خاک اڑتی ہے بلکہ بابا فرید اور بلھے شاہ کے مزاروں پر چھڑکائو کرنے کے لئے بھی ہمیں پانی دستیاب نہیں۔ سدھو کو بابا نانک، بلھے شاہ اور بابا فرید کے صدقے ہماری ضرورت کاپانی کھول دینا چاہئے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024