شاید ہمیں یہ جان کر حیرت ہوکہ ہر سال پاکستان کی آبادی میں 60لاکھ افرادسے زائد کا اضافہ ہو رہا ہے، اوراگر آبادی اسی تناسب سے بڑھتی رہی تو 1930ء میں پاکستان کی آبادی 40کروڑ سے زائد یعنی دوگنا ہوجائے گی۔ اور قارئین کو شاید یہ جان کر بھی حیرت ہو کہ آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ وسائل بڑھنے کے بجائے کم ہو رہے ہیں۔ آبادی کے بڑھنے کے مسائل سے شہروں میں رہائش کے مسائل تیزی سے بڑھ رہے ہیں اور گھروں کی کمی محسوس کی جارہی ہے۔معاشی عدم تحفظ و گرتے ہوئے معاشی حالات و غربت سے تنگ آئے ہوئے افراد میں خود کشی کے رجحان میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے، لہٰذا یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے خاص طور پر پاکستان جیسے ملک میں جہاں معاشی حالات بہتر نہیں ہیں افراد میں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے لوگ روٹی کپڑا اور مکان کی جستجو میں لگے ہوئے ہیں بڑھتی ہوئی آبادی کو کنٹرول کرنے کے بہت سے اقدامات ناگزیر ہیں۔ اس حوالے سے چیف جسٹس آف پاکستان نے اپنے تئیں کوششوں کا آغاز تو کر دیا ہے مگر جب تک ہم تعلیم عام نہیں کرتے، عوام میں شعور نہیں آجاتا اور دیہاتوں کی سطح پر تربیت کے پروگرام شروع نہیں کردیتے ہم آبادی کے بڑھتے ہوئے دبائو کو نہیں روک سکتے۔اس حوالے سے پوری شدومد کے ساتھ وزیراعظم اور چیف جسٹس آبادی کو کنٹرول کرنے میں اپنے قرب وجوار کے لوگوں کی ذہن سازی کررہے ہیں۔ابھی گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں سپریم کورٹ کے آڈیٹوریم میں ہوئے لا اینڈ جسٹس کمیشن کے زیر اہتمام بڑھتی ہوئی آبادی کے حوالے سے ہوئے سمپوزیم (ایک طرح کی کانفرنس یا میٹنگ جس میں کسی خاص مضمون کو زیربحث لایا جاتاہے)میں پوری شدت کے ساتھ اس بات پر زور دیا گیا کہ آبادی کو کنٹرول کیا جائے۔سمپوزیم سے وزیراعظم عمران خان نے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت ملک میں تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے مسئلے سے بخوبی آگاہ ہے اس مسئلے پر موثر انداز میں قابو پانے کیلئے بالخصوص علماء کرام ، ذرائع ابلاغ اور معاشرے کے تمام طبقات کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ سمپوزیم کی خاص بات دینی طبقے میں ایک الگ پہچان رکھنے والی شخصیت معروف عالم دین مولانا طارق جمیل کی شمولیت تھی۔،مولانا طارق جمیل نے سمپوزیم سے خطاب کرتے ہوئے کہا آبادی میں اضافے کی وجہ معاشرتی دبائو اور غربت ہے۔دیہات میں لوگ سمجھتے ہیں کہ جتنے زیادہ بچے ہوں گے اتنا ہی اچھا ہوگا کیونکہ ایک باپ سمجھتا ہے کہ اس طرح اس کی مزدوری بڑھے گی۔ ان ساری چیزوں کے پیچھے سبب جہالت ہے۔حکمرانوں کی نیتوں کا اثر عوام پر پڑتا ہے۔
لیکن سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں آبادی کے بڑھنے کے عمل کو روکنے جیسے اقدامات کو غیر شرعی قرار دے دیا جاتا ہے اور اسے مذہب اسلام کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے۔ میرے خیال میں آبادی کے معاملے کو کسی اصطلاح، مذہب یا عالمی سیاست سے وابستہ کئے بغیر فطری انداز میں دیکھنا چاہیے۔ فطری انداز وہی ہے جو عقلِ عام پر مبنی ہو۔ خاندان کو سماج کی اکائی مانا گیا ہے۔ اگر خاندان مضبوط اور توانا ہو گا تو سماج بھی طاقت ور ہو گا۔ خاندان میاں بیوی کے رشتے سے قائم ہوتا اور بچوں کو محیط ہو جاتا ہے۔ یوں رشتوں کا ایک خوب صورت گل دستہ وجود میں آتا ہے۔ اگر میاں بیوی صحت مند ہوں اور ان کے پاس اتنے وسائل ہوں کہ وہ بچوں کو بہتر تعلیم دے سکیں، ان کی اچھی تربیت کر سکیں اور ان کی دیگر مادی و اخلاقی ضروریات پوری کر سکیں تو ایسا خاندان خوش حال ہو گا اور ساتھ ہی وہ پورے معاشرے کے لیے باعث خیر بھی۔
اب یہ خاندان کے سربراہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ خاندان کی فلاح اور بہتری کے لیے منصوبہ بندی کرے۔ ہمارے سماجی نظام میں یہ حیثیت مرد کو حاصل ہے۔ اس کو دیکھنا ہے کہ بیوی کی صحت کیسی ہے جس کے گرد گھر کی چکی گھوم رہی ہے۔ بچوں کو کیا مناسب تعلیم اور تربیت مل رہی ہے؟ اگر وہ بیمار پڑ جائیں گے تو کیا ان کے علاج معالجے کے لیے اہتما م کیا جا سکتا ہے؟ خاندان کا ایک اچھا سربراہ وہی ہے جو ان سب امور کو سامنے رکھتا ہے۔
اگر ماضی میں جھانکیں تو آج سے 200سال قبل زمین پر انسانوں کی تعداد ایک بلین تھی یا شاید اس سے بھی کم۔آج دنیا کی آبادی 7.7بلین کے قریب ہوچکی ہے۔1804ء میں دنیا بھر کی آبادی ایک بلین کے قریب تھی جوکہ1930ء میں بڑھ کر 2بلین ہوگئی اور صرف 30سالوں میں یہ مزید بڑھتے ہوئے3بلین تک پہنچ گئی اور پھر14سالوں یعنی 1974ء میں یہ اندازاََ4بلین سے بڑھ چکی تھی۔1987ء میں 5بلین ہوئی اور 2011ء میں یہ دنیا 7بلین افراد کے وجود سے بھر گئی۔ 2018ء میں یہ آبادی 7اعشاریہ 7بلین ہوچکی ہے اور2055 میںاقوام متحدہ کے ایک اندازے کے مطابق دنیا کی آبادی 10بلین سے زائد ہوجائے گی۔183سالوں میں دنیا کی آبادی 1بلین ہوئی اورصرف207سالوں میں آبادی بڑھتے بڑھتے 7بلین سے زائد ہوگئی۔1955ء میں پاکستان دنیابھر میں آبادی کے لحاظ سے 14ویں نمبر پرتھا اور پھر 1970ء میں 10ویں نمبر پر پہنچ گیا اور پھر 2005ء میں گلوبل رینک میں پاکستان کا نمبر6ہوگیا جو ہنوز قائم ہے۔1968ء میں بائیولوجسٹ پال آلرک کی لکھی کتابThe Popultaion Bombمارکیٹ میں آئی جس میں مصنف کا کہنا تھا کہ آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے جبکہ پوری دنیا میں موجودہ آبادی کو خوراک مہیا کرنے کے وسائل نہیں۔دنیا بھر میں مختلف ممالک نے ایک یا 2 سے زائد بچوں کی پیدائش پر قدغن لگادی۔
ترقی پذیر ممالک کے وسائل پر قابو پانے اور دہشت گردی کی عالمی لہر نے اقوام عالم کے مسائل میں مزید اضافہ کیا ہے۔ جنوبی ایشیا مشرق وسطی اور کئی مغربی ممالک نے دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے اخراجات میں اضافی بوجھ برداشت کیا ہے اور کرنا پڑ رہا ہے۔ جنگی صورتحال اور سرحدی اور نظریاتی تنازعات کی وجہ سے آبادی کا وسیع تر حصہ عملی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا یا عضو معطل ہو کر رہ گیا۔ وہیں غذائی ضروریات کیلئے کئے گئے اقدامات کو بھی نقصان پہنچا۔ انسانی سمگلنگ اور انسانی حقوق کی پامالی سمیت کئی مسائل جنگ زدہ علاقوں میں آفریت بن کر ابھرے۔ماہرین کے مطابق کرہ ارض پر موجود بنی نوع انسان کو وسائل کے استعمال اور متبادل پر سوچ بچار کے ساتھ ساتھ کچھ عملی اقدامات کی ہنگامی ضرورت ہے۔ خوراک کے حوالے سے بات کی جائے تو ایک طرف بھوک کی شدت ہے تو دوسری جانب امرا کی کھانے کی میز پر اوسط دو افراد کا اضافی کھانا ضائع ہو رہا ہے۔ مختلف تقاریب، ہوٹلوں اور صنعتوں میں اضافی کھانے کے ضیاع کا مشاہدہ عام ہے۔ اس کی روک تھام کیلئے نہ صرف جامع قانون سازی کی ضرورت ہے بلکہ اس کے متبادل کا انتظام بھی ضروری ہے۔
دریاوں کے پانی کے اوسط ضیاع کو موثر حکمت عملی سے سمندر میں ضائع ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔ اس کیلئے عوامی شعور وآگاہی کلیدی حیثیت رکھتی ہے ماہرین کے مطابق کمزور معیشت کے حامل ممالک پر مضبوط معیشت رکھنے والے ممالک کا اثر بھی وسائل میں ناہمواری کا باعث بنا ہے۔ چند طاقتور ممالک نے اپنے مخصوص اہداف کے حصول کیلئے کمزور ممالک پر معاشی اور تجارتی پابندیوں سے عالمی سطح پر معاشی ناہمواری کو تقویت دی ہے۔ ان تمام مسائل سے نمٹنے کیلئے اقوام عالم کو مل کر معاشی ناہمواری کا خاتمہ کرنا ہو گا یہی بنی نوع انسان کی بقا کے لیے ضروری ہے۔
اور اگر کوئی یہ سمجھتا ہے یا اس حوالے سے سیاست کرنا چاہتا ہے کہ ہم آبادی کے بڑھتے مسائل پر کنڑول حاصل کیے بغیر ترقی کر سکیں گے تو یہ ناممکن ہے، ہمیں مستقبل میں ایک بہت بڑے مسئلے کا سامنا ہوگا، اور یقینا یہ مسئلہ جس کا ہر سطح پر ادراک کیا جا رہا ہے اسے حل کرنے کے لیے ہمیں علماء کرام کی خدمات لینا ہوں گی، انہیں اس حوالے سے اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے، تاکہ وہ جمعہ کے خطبے میں اس حوالے سے آگہی پیدا کریں اور عوام میں شعور پیدا کیا جا سکے ورنہ یہ مسئلہ اتنا ہی اہم ہوتا جائے گا جس قدر آج ہم پانی کے حوالے سے جنگ لڑ رہے ہیں!
گاڑیاں بنانے والے پاکستانی اداروں میں قیمتیں گھٹانے کی دوڑ
Mar 16, 2024 | 13:40