فعال عرب سفرائ‘ یمنی وقطری صلح ‘ ولی عہد کو درپیش شدید خطرات
کروڈ آئیل اوپیک ونان اوپیک امریکی اور سعودی متحارب پالیٹکس سمیت آج بھی قلمی کاوش کے کئی اجزاء ہیں پہلے اسلام آباد میں عرب سفراء کی فعالیت‘ 3 دسمبر کی شام فائیو اسٹار ہوٹل میں متحدہ عرب امارات کے سفیر حمد عبید ابراہیم سالم الزعابیی کی طرف سے امارات کے 47 ویں قومی دن کی تقریب ہوئی۔ مجھ سے قائمقام سفیر اور بہت محنتی و مسکراتے عبدالعزیز النیادی نے پوچھا ہمارے انتظام‘ مہمان نوازی اور اعلیٰ ترین شخصیات کو دیکھ کر آپ نے کیا محسوس کیا؟ چونکہ تقریب میں سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ‘ نیوی و ائیر فورس قائدین کے ساتھ ساتھ چیئرمین سینٹ‘ وفاقی وزرائ‘ عرب سفرائ‘ میڈیا سے وابستہ شخصیات بھی موجود تھیں۔ بطور خاص چھوٹے بچوں کا شو اور اماراتی موسیقی کا دلچسپ اور ولولہ انگیز منظر نامہ یہ سب کچھ اماراتی ذہن رسا کی محنت شاقہ کا اظہار تھا لہذا مجھے اعتراف کرناپڑا کہ تقریب حسن انتظام کا اعلیٰ ترین شاہکار تھی۔ ہم سفیر محترم کو مبارک بادپیش کرتے ہیں کہ انہوں نے آل نھیان اور آل رشید کے متحدہ عرب امارات کے ہونہار اور مدبر نمائندہ ہونے کا حق ادا کیا مگر مجھ سے ایک عرب مہمان نے پوچھا کہ یہاں علماء و شیوخ نظر نہیں آ رہے تو میں مسکرا دیا کہ علماء و شیوخ (شیعہ و سنی) صرف سعودی سفارتی تقاریب میں مدعو ہوتے ہیں جبکہ امارت صحرائی دانش کا عالمی اقتصادی خطہ ہے۔ حمد عبید سالم الزعابی نے اگلے روز وزیراعلیٰ عثمان بزادار سے لاہور میں ملاقات کی۔ رحیم یار خان اور ارد گرد کے علاقوں میں آل نھیان نے بہت زیاہ تعمیر و ترقی کروائی ہے۔ جنگلی حیات کے فروغ میں بھی مال و دولت خرچ کر رہا ہے لہذا وزیراعلیٰ بزادار نے اماراتی سرمایہ کاری کے لیے پنجاب کو پیش کیا ہے۔ قطر کے قومی دن کی تقریب بھی ہوئی مگر اس کا سعودی اماراتی اتحاد ممالک کے سفراء نے مقاطعہ کیا کیونکہ سعودی و امارات کے قطر سے تعلقات تاحال منجمد ہیں۔ اگرچہ شاہ سلمان نے متوقع خلیج تعاون کونسل کے ریاض اجلاس میں امیر قطر کو شرکت کی دعوت دے دی ہے۔ کیا اس سے توقع پیدا ہو رہی ہے کہ سعودیہ و امارات کے قطر سے کشیدہ تعلقات میں صلح اور اخوت کا ظہور ہو جائے؟ میرے وجدان میں ایسا ممکن ہے کیونکہ مقتول جمال خاشکجی بہت طاقتور ہو چکا ہے اور مقتول خاشکجی کی قلمی اور دانش قوت کا یہ تخلیق کرہ منظر نامہ ہے کہ اقوام متحدہ کی زیر نگرانی حوثی و یمنی حکومتی وفود صلح کے لئے سویڈن میں جمع ہیں۔ اس کے مطابق اطراف قیدوں کی رہائی کے لئے متفق ہیں۔ گھروں میں نظر بند شخصیات کو بھی آزاد کرنا طے پایا ہے۔ صنعاء ائر پورٹ کو کھولنا بھی طے پا گیا ہے۔ یہ اس لیے ہوگیا کہ مقتول جمال خاشکیجی کا مرحوم قلم اور کالم فیصلہ ساز اثرات مرتب کر چکے ہیں کیا اب بھی دنیا قلم اور کالم نگار کے فکر‘ دانش ‘ تشکیل رائے عامہ‘ اور پرنٹ میڈیا کے ہمہ گیر اثرات اور فوائد سے منکر رہے گی؟
ولی عہد محمد بن سلمان جنوری تک بہت زیادہ احتیاط کریں۔ ’’دشمن‘‘ ان کے خلاف بہت منظم ہیں اور انہیں محروم اقتدار کرنے کی سازشیں جنوری تک بہت فعال دیکھ رہا ہوں ۔ اپریل تک خطرات رہ سکتے ہیں وہ بہت نرم خو‘ ملنسار ‘ ہمدرد‘ مشفق ہو جائیں۔ آل سعود شہزادوں کے قلوب واذہان کو اپنی حقیقی مروت‘ محبت‘ خدمت سے مسخر کرلیں ورنہ بہت زیادہ نقصان بھی ہوسکتا ہے کیونکہ سی آئی اے ان کے اقتدار کے خلاف بہت زیادہ متحرک اور منظم کوششوں کو سامنے لانے میں دن رات مصروف ہے۔امریکی سینٹ میں سی آئی اے چیف جینا ہیسپل نے ’’بند کمرے‘‘ اجلاس میںجو اہم بریفنگ دی ہے وہ ولی عہد مخالف ہے اورانہیں امریکی پارلیمان وسینٹ کے ذریعے محروم اقتدار کرنے بلکہ انہیں عالمی مجرم ثابت کرتی زہریلی سازش ہے۔ ترکی نے سی آئی سے موافقت سے ہی کچھ سعودی شخصیات کی گرفتاری کا مطالبہ کرکے ولی عہد کوبلیک میل کرنے کا راستہ اپنایاہے میری نظر میں ولی عہد کا ’’جرم‘‘ یہ ہے کہ وہ صدر ٹرمپ اورصدر پیوٹن سے بھی بڑی شخصیت بن چکے ہیں اور انہوں نے اپنے وژن ‘ اپنی فعالیت‘ اپنے ساحرانہ فیصلوں ‘عالمی وعلاقائی معاشی واسٹرٹیجیک استعاروں‘ کنایوں‘ وعدوں کے ذریعے ریاض کو مکمل حاکمانہ کردار دے دیا ہے۔ بس یہی وہ ’’جرم‘‘ ہے جو ولی عہد سے سرزد ہوگیا ہے۔ سی آئی اے مشرق وسطی میں پہلے بھی بادشاہتوں میں خاندان کے اندر سے ہی تبدیلیاں لاتا رہا ہے ماضی بعید کے کرنل لارنس کی عسکری روح اور عقل وتدبیریں آج سی آئی اے اور مغربی ایجنسیوں کے پاس ہیں اورمشرق وسطی میں انہیں بہت پراسرار حکمت عملی سے عرب بادشاھتوں کے فعال وجود اور خود مختار حاکمانہ فیصلہ ساز کردار کو نیست ونابود کرنے میں مصروف ہیں مکمل خودمختار مکمل آزاد اورناقابل گرفت ولی عہد محمد سی آئی اے سے ’’ہضم‘‘ نہیں ہورہا۔ ریاض میں عربی زبان پر عبور رکھنے والے جنرل جان ابی زید کو بطورامریکی سفیرنئے عہد کا کرنل لارنس دیکھنے کی جرِِأت کررہا ہوں۔ عرب سفراء سرمایہ کاری ہمارے میڈیا میں لاسکتے ہیں؟ اگر وہ ایسا کریں تو ’’ عرب دوست میڈیا‘‘ کی تاسیس ہو جائے گی انشاء اللہ ۔ عرب سفراء میں سعودی سفیر المالکی سب سے زیادہ فعال رہتے ہیں۔ 7 دسمبر کو انہوں نے نیول چیف ایڈمرل ظفر محمود عباسی سے ملاقات کی اورپاک سعودی بحری دفاعی تعاون پر بات چیت کی۔عرب بادشاھتوں کے خلاف ’’ہائبرڈوار‘‘ (HYBIRD WAR) کئی عشروں سے مسلط ہے اس کا دفاع میڈیا اور اہل قلم کے تعاون سے بھی کرنا ہوگا ۔
کروڈ آئیل پالیٹکس:
صدر ٹرمپ ہر قیمت پر کروڈ آئیل کی عالمی مارکیٹ میں فراوانی چاہتے ہیں تاکہ ایرانی تیل پر امریکی پابندیوں کو کامیاب دیکھ سکیں اسی لیے سعودیہ سے مسلسل مطالبہ رہا ہے کہ وہ اپنا اور خلیجی ریاستوں کا وافر کروڈ آئیل مارکیٹ میں لائے۔ چونکہ سی آئی اے صدر اردوان کے ساتھ مل کر ولی عہد کو ’’مجرم‘‘ بناتے ہوئے اقتدار سے محروم کرنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے لہذا شہزادہ بھی اب ان سے ناراض ہے۔ جی 20 ممالک کانفرنس میں دنیا دیکھ چکی کہ صدر پیوٹن ہر قیمت پرمحمد بن سلمان کو اپنی طرف لانا چاہتے تھے لہذا صدر پیوٹن نے اپنی معاشی بدحالی میں مطلوب کروڈ آئیل وافر سپلائی ضرورت کو بھی پس پشت ڈال کر کروڈ آئیل پالیٹکس میں فی الحال ولی عہد سیاست کا ساتھ دے دیا ہے۔ اوپیک اور نان اوپیک ممالک اتحادیوں نے اتفاق رائے سے سابق سعودی وزیر انرجی علی النعیمی کی تجاویز کو قبول کیا اور 12ملین بیرل یومیہ کم پیداوار سپلائی فارمولہ اپنا لیا ہے۔ یوں عالمی کروڈ آئیل ڈیپلومیسی بھی ولی عہد عقاب صفت جیت گئے اور کروڈ بحران کو بھی اپنے حق میں فیصلہ ساز کے طورپر سامنے لے آٰئے ہیں جبکہ وزیر انرجی خالد الفالح خاموش رہے ہیں میں یہ دیکھ کر خوفزدہ ہوں کہ کروڈ آئیل پالیٹکس میں ولی عہد اسی منفرد مقام پر آگئے ہیں جہاں مغرب کے سامنے ماضی بعید میں سینہ تان کر شاہ فیصل اپنے وزیر انرجی ذکی یمانی کے ساتھ آگئے تھے۔ اچانک شاہ فیصل اپنے ہی بھتیجے کے ہاتھوں قتل ہوگئے تھے۔ اللہ تعالیٰ ولی عہد کو دشمنوں کے شر سے محفوظ بنائے آمین کیا ایرانی مدبرین اس صورتحال کو سمجھ رہے ہیں؟