اسامہ شہید … نوجوان رول ماڈل (2)
ڈاکٹر غزالی جنازے کے موقع پر اپنے خطاب میں بتا رہے تھے کہ احادیث کی روشنی میں اسامہ اور جہاز کے حادثے میں انتقال کر جانے والے مسافر شہید ہیں اور شہداء کی روحوں کو فرشتے بڑے اعزاز اور پروٹوکول کے ساتھ وہاں لے جاتے ہیں جو جنت ہی کا حصہ ہے ۔ جنازے کے بعد تدفین کے موقع پر خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ کہہ رہے تھے کہ اسامہ ان کے صوبے کا بہترین اور مثالی افسر تھا۔ خیبر پختونخوا کے نیک نام چیف سیکرٹری عابد سعید جن کیلئے اس موقع پر اپنے آنسو ضبط کرنا مشکل ہورہا تھا بھی اسی طرح کے جذبات کا اظہار کر رہے تھے ۔ اسی سے ملتے جلتے جذبات کا اظہار روز یر اعظم پاکستان نے اسامہ کے والد محترم کو اپنے ٹیلی فون اورخط میں کیا۔
تدفین کے بعد لیویز کے دستے نے اپنے ہر دلعزیز نوجوان شہید ڈپٹی کمشنر کو آخری سلامی دی اور پھر اسامہ شہید ، بیگم آمنہ شہید اور ننھی ماہ رخ شہید کی قبروں پر پھولوں کی چادریں چڑھائی گئیں اور انہیں آنسوئوں میں لپٹی ہوئی دعائوں کے ساتھ رخصت کیاگیا۔ جس طرح اسامہ کی سروس مثالی اور قابل فخر کارناموں کی بناء پر قابل رشک رہی اسی طرح اس کا سفر آخرت بھی قابل رشک تھا اور ان شاء اللہ آخرت میں داخل ہوتے ہوئے اسامہ اور اس کے دیگر شریک سفر شہداء کی روحوں کا فرشتوں کی طرف سے استقبال بھی قابل رشک ہوا ہو گا۔
اسامہ نے زندگی میں کبھی کسی کا دل نہ دکھایا اس کے مزاج میں خوئے دل نوازی بہت نمایاں تھی وہ اپنی دوستانہ اور دل کش شخصیت اور سب کا خیال رکھنے کی وجہ سے عوام اور سول سروس کے مختلف گروپوں سے تعلق رکھنے والے اپنے ساتھی افسران میں یکساں مقبول تھا۔ ایک بار اس کے ایک ساتھی پولیس افسر کو اپنے فرض کی ادائیگی کے دوران گولی لگ گئی پھر وہ پولیس افسر جب تک ہسپتال میں داخل رہا اسامہ ہر روز اپنی ڈیوٹی کے اوقات کے بعد بلاناغہ اس زخمی پولیس افسر کے پاس آتارہا اور مسلسل اس کی حوصلہ افزائی اور دل جوئی کرتارہا۔ شہید کے بہت سے ساتھی افسران بار بار ذکر کرتے رہے کہ اسامہ کے پیش نظر ہر وقت عوام کا مفاد اور ان کو دی جانے والی سہولتوں کی بہتری رہی۔ وہ دوستوں کے ساتھ کسی غیر سرکاری سفر پر بھی ہوتا تو راستے میں مفاد عامہ کا ہی سوچتا اور منصوبے بناتارہتا اس کے ساتھیوں نے بتایا کہ راہ چلتے ہوئے اچانک وہ کہتا کہ " دیکھو اگر یہ سڑک یہاں سے چوڑی کر دی جائے تو عوام کا کس قدر فائدہ ہو گا یا اگر یہاں پارک بنادیاجائے تو عوام کے لئے کس قدر مفید ہو گا۔ اگر یہاں عوام کو فلاں سہولت فراہم کر دی جائے تو ان کو کس قدر ریلیف ملے گا ۔ " یہی سوچ تھی ، یہی عمل تھا ۔ جس کی بناء پر وہ جہاں بھی رہا دلوں میں بستا چلا گیا۔ عوام بالخصوص غریب لوگوں کو سہولتیں فراہم کرنے کا جنون رکھنے والا اسامہ اپنی ذات کے لئے سہولتوں کے حوالے سے بالکل بے نیاز تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے سادگی اور قناعت کی دولت سے مالامال کر رکھا تھا۔ اسے جدید دور کے نوجوان افسروں کی طرح نئے، سٹائلش اور خوبصورت کپڑوں کا بھی کوئی خاص شوق نہ تھا۔ اس کی امی اس کے لئے جو کپڑے سلواکر بھیجتیں وہی خوشی سے پہن لیتا۔
ہماری باجی کا ہنستا بستا گھر بلاشبہ مثالی، جنت نظیر اور قابل رشک تھا ان کے شریک حیات ڈاکٹر فیض احمد کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی قابلیت، دیانت، اصول پسندی ، تحمل ، برداشت، بردباری اور غریب پروری سمیت بے پناہ خوبیوں سے نوازا ہے۔ ان کے تینوں بچوں نے اپنے والدین کی خوبیاں ورثے میں پائیں۔ ہمارا بڑا بھانجا سعد(اسامہ کا بڑا بھائی) فارن سروس میں ہے اور ماشاء اللہ اس کا شمار فارن سروس کے قابل ترین افسروں میں ہوتاہے۔ وہ آج کل اقوام متحدہ میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے سفارت کاروں میں شامل ہے۔ گزشتہ دنوں سعد نے اقوام متحدہ میں اپنے خطاب میں جس مؤثر انداز میں پاکستان کی نمائندگی کا حق ادا کیا اور جس طرح بھارت کے مکروہ چہرے اور اس کی ریاستی دہشت گردی بالخصوص کشمیر میں اس کے وحشیانہ مظالم کو عالمی برادری کے سامنے بے نقاب کیا اس پراس نے تمام متعلقہ قومی حلقوں سے دادوتحسین وصول کی۔ سعد سے چھوٹی اور اسامہ سے بڑی بہن ہماری بھانجی ملیحہ ماشاء اللہ ڈاکٹر ہے اس کے میاں بھی ڈاکٹر ہیں اور وہ دونوں امریکہ میں مقیم اور خوش ہیں ۔ ڈاکٹر ملیحہ بھی اپنے والدین اور سسرال کا خیال رکھنے والی فرمانبردار بیٹی ہے ۔اور اسامہ ، سب سے چھوٹا اور سب سے لاڈلہ ماں باپ کا لخت جگر، سب سے ہونہا ر اور سب سے تابعدار بچہ جس کو ہوش سنبھالنے کے بعد اپنے آئیڈیل اور رول ماڈل ماموں جان ذوالفقار احمد چیمہ کی طرح ہر وقت اپنے والدین کے آرام کی فکر رہتی تھی جو پورے خاندان کا قابل فخر بیٹااور جگمگاتا ہوا ستارہ تھا۔ جس کی سروس کا ابھی آغاز تھا او ربہت روشن مستقبل اس کا منتظر تھا ۔ مگر آہ ! 7 دسمبر2016 ء کے فضائی حادثے نے سب کچھ بدل دیا۔
؎ اک حادثے سے گرگئے تارے زمین پر
\ہم رشک آسماں تھے ابھی کل کی بات ہے
بلاشبہ یہ حادثہ ہمارے گھرانے کے لئے قیامت صغریٰ سے کم نہ تھا ۔ اسامہ سول سروس کا روشن ستارہ اور رول ماڈل، جس کی صرف دو سال پہلے شادی ہوئی تھی ، اچانک اپنی بیگم اور گیارہ ماہ کی معصوم بیٹی کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے وہاں چلا گیا جہاں سے کبھی کوئی لوٹ کر نہیں آیا۔ مگر یہ اس کی مرضی ہے اس کا فیصلہ ہے جو خالق بھی ہے اور مالک بھی۔ وہ جسے چاہے جب چاہے اپنے پاس بلا لے ۔ کون اس کے فیصلوں میں مداخلت کر سکتاہے اور کون اس کے فیصلوں کو غلط کہہ سکتاہے!
اللہ تعالیٰ نے اسامہ کی امی اور ابوجان کو بے پناہ صبر اور حوصلہ بخشا ہے ۔ تعزیت کے لئے آنے والی خواتین اسامہ کی امی کی زبان سے نکلنے والے یہ جملے حیرت سے سنتی رہیں کہ’’ یہ مت کہیں کہ اسامہ کی نوجوانی میں اس دنیا سے رخصتی کتنی بے وقت ہے ۔ کاش! ایسا نہ ہوتا، کاش! وہ اس جہاز پر سوا نہ ہوتا۔ نہیں ایسا ہی ہونا تھا اللہ کے فیصلہ بے عیب ہیں وہ غلط نہیں ہو سکتے ۔ باقی ماندہ زندگی میں ہر روز کلیجہ پھٹے گا اور میں ہر روز صبر کی کوشش کروں گی۔ آپ سب دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے صبر عطا فرمائیںـ‘‘۔
؎گزرتو جائے گی تیرے بغیر بھی لیکن
بڑی اداس بڑی بے قرار گزرے گی
اسامہ کی امی نے کمال صبر اور حوصلے کے ساتھ یہ بھی کہا (اور یہی بات انہوں نے چند روز پہلے گاؤں میں اس وقت بھی کہی جب ہم وہاں امی جان اور اباجان کے لئے قرآن خوانی اور دعائے مغفرت کے لئے اکٹھے ہوئے تھے ) کہ " اگر مجھے اختیار دیاجائے کہ تم اپنا پیارا اسامہ واپس لینا چاہو تو لے لو تو میں ایسا نہیں کروں گی۔ وہ تو شہید ہے اس کو اللہ نے شہادت کا رتبہ دے کر وہ اعلیٰ مقام عطاکردیا ہے جس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے ۔ تو میں کیوں اسے اس اعلیٰ مقام سے نیچے بلانے کی خواہش کروں۔ یہ عارضی دنیا دارالامتحان ہے ۔ اس امتحان میں اسامہ اللہ کے فضل سے پاس ہو گیا ہے ۔ اسے شہادت کا رتبہ دے کر اللہ تعالیٰ نے اس کا نتیجہ سنادیا ہے۔ میں ہمیشہ دعا کرتی تھی کہ اے اللہ ہم سے اور ہمارے بچوں سے کوئی ایسی غلطی نہ ہو جو آخرت کے امتحان میں ہمارے لئے نقصان دہ ہو ۔ اللہ کا شکر ہے کہ مجھے میرے اسامہ کے آخرت کے امتحان کا نتیجہ سنادیا گیا ہے اور الحمداللہ وہ پاس ہے۔ " بے شک جو آخرت کے امتحان میں پاس ہیں وہی کامیاب وکامران ہیں وہی رشک جہاں ہیں اور وہی رشک آسماں ہیں۔