میں حیران ہوں کہ عمران نے پہلے سودن دئیے ہیں۔ پانچ برسوں میں سو دنوںکی کیا اہمیت ہے۔ اگلی بات ہزار دنوںکی عمران کرے گا۔ وہ بھی گزر جائیں گے۔ مگر جو کچھ ہونا ہوتا ہے وہ آغاز ہی میں پتہ چل جاتا ہے۔ سو دن سے یاد آتاہے کہ امتحانی پرچے میں سو نمبر ہوتے ہیں جس میں پاس ہونے کے لئے 33 نمبروں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ابھی تو بھی عمران خان نے 33 نمبرنہیں لئے۔ جبکہ ہم تو چاہتے ہیں کہ وہ فرسٹ ڈویژن میں پاس ہو۔ اس کے لئے کم از کم نمبر 60 ہونا چاہئیں جبکہ دل تو یہ ہے کہ عمران کے نمبر 99 ہوں۔ عام لوگ اُمید بھی بہت عمران کے ساتھ لگا رہے ہیں۔ برادرم توفیق بٹ نے عمران کے اقتدار سے پہلے ایک گفتگو میں عمران کی موجودگی میں اپنے گھر میں کہا تھا میں خود بھی وہاں موجود تھا۔
’’میری خواہش اور دعا ہے کہ عمران خان کبھی اقتدار میں نہ آئے کیونکہ وہ ہماری آخری امید ہے۔ ‘‘ یہ 2012ء کی بات ہے۔ وہاں بہت سے اہل قلم اور صحافی موجود تھے۔ توفیق بٹ کے اس جملے پر قہقہے بلند ہوئے ا ور دیر تک تالیاں بجتی رہیں۔ شاید عمران خان بھی مسکرایا تھا۔ اس نے تالیاں تو بجائی تھیں۔ کیا برمحل بات توفیق بٹ نے کی مگر اب اس کا اپنی بات کے بارے میں کیا خیال ہے۔ توفیق بٹ نے اقتدار میں لانے کے لئے عمران خان کی بہت مدد کی۔ بہت کام کیا۔ اس لئے نہیں کہ اسے کوئی عہدہ چاہئے۔ توفیق بٹ کو میڈیا ایڈوائزر بننے کی پیشکش کی گئی۔ مگر اس نے عمران خان سے کہا کہ میں اس کے لئے میرٹ پر پورا نہیں اترتا جبکہ لوگ میرٹ کے بغیر بہت کچھ حاصل کرنے کے لئے کیا کچھ نہیں کرتے۔
٭٭٭٭
برادرم شیخ رشید نے کسی محفل میں اپنے پاس بیٹھے ہوئے میڈیا کے کسی خاص اپنے آدمی کے کان میں کہا۔ کل میری چار نشستیں عمران خان سے ہوئیں، میں نے اسے کہا کہ ’’مروائو گے سانوں‘‘ (ہمیں مروائو گے) لوگ خلاف ہو جاتے ہیں۔
یہ بھی شیخ رشید نے کہا کہ عمران نے مجھے کہا ’’تم وزارت اطلاعات سنبھال لو‘‘ اس کے ساتھ شیخ صاحب نے وزیر اطلاعات فواد چودھری کو فون پر کہا کہ تم لندن میں پکنک منا رہے ہو اور یہاں حالات بہت خراب ہوتے جا رہے ہیں۔
شاہ محمود قریشی ہمیشہ اچھی تقریر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے والد صاحب سجاد حسین قریشی ایک بڑے پیر تھے۔ ان کے پاس جو بھی ضرورت مند آتا اور کوئی کام کہتا تو وہ ایک ہی جملہ سب سے کہتے ’’اللہ کریسی ترا کم تھی ویسی‘‘
(اللہ کرے گا تیرا کام ہو جائے گا) کچھ کہنے لگے کہ ہم بیورو کریسی سے بہت تنگ ہیں، اب یہ اللہ کریسی نجانے کہاں سے نکل آیا ہے۔ وہ صدر جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں گورنر پنجاب تھے اور پیری مریدی بھی کرتے تھے۔
اپنے آبائی قصبے میانوالی میں اب تک عمران نہیں گیا نہ والد کی قبر پر فاتحہ پڑھی۔ میانوالی کا بظاہر ایک معمولی واقعہ ہے۔ میانوالی کے دوست شاعر اور براڈ کاسٹر نذیر یاد کیلئے منصور آفاق نے لکھا ہے کہ اس کے ریڈیو پروگرام میانوالی میں بہت مقبول ہیں۔ مگر اسے تین مہینے سے کچھ نہیں مل رہا۔ میرا خیال ہے کہ یہ چھ مہینے کا عرصہ ہے۔ ایک سرکاری ادارے سے بروقت کچھ نہ ملنا ایک عجیب واقعہ ہے۔ وہ کوئی پرائیویٹ ادارہ نہیں کہ کوئی سمجھے کہ اپنی جیب سے معاوضہ دینا پڑتا ہے۔ تحقیق یہ بھی ہو کہ کون یہ پیسے اپنے کسی معاملے میں لگا رہا ہے۔ نذیر یاد کے تقریباً 90 ہزار روپے واجب الادا ہیں۔ اب جو تقریباً ایک لاکھ تو ہو چکے ہونگے۔ کیا کبھی جنرل منیجر ریڈیو پاکستان میانوالی کو بھی تین مہینے سے تنخواہ نہیں ملی ہوگی؟ منصور آفاق نے شفقت جلیل کو بھی کئی بار کہا بلکہ مسیج کیا مگر کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ اتنے میسج تو کسی معاملے میں کسی لڑکی کو منصور آفاق نے نہ کئے ہونگے۔ شاید وزیراعظم عمران خان کو میسج کرتا ہوگا کہ وہ بھی میانوالی کے ہیں۔ جوگانے عمران خان کیلئے عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی نے گائے ہیں‘ وہ سب نذیر یاد نے لکھے ہیں مگر عمران خان صرف لالہ عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی کا دوست ہے۔ لالہ کوئی گانا اب گائے تو لکھنے والے کا نام بھی انائونس کرے۔ ایک بات میرے لئے البتہ خوشگوار حیرت کا باعث ہے کہ منصور نے لکھا ہے اتنے پیسے میں اپنی جیب سے دے سکتا ہوں۔
فیاض الحسن اور فواد چودھری دونوں کا ذکر بھی کالم میں ہوا ہے۔ دونوں وزیراطلاعات ہیں۔ ریڈیو پاکستان میانوالی کیلئے ایک خوشی ہے مگر ایک دفعہ بھی ریڈیووالوں نے مجھے کسی پروگرام کیلئے دعوت نہیں دی۔ اب پتہ چلا کہ وہ دعوت اور عداوت میں فرق نہیں کرتے۔ میں جب میانوالی میں تھا تو نذیر یاد بھی ہمارے ادبی قافلے میں تھا۔ وہ شاعر بھی اچھا ہے اور انسان بھی اچھا ہے۔ دوست بھی اچھا ہے۔ میری گزارش ہے کہ ایسے لوگوں کو تنگ نہ کیا جائے۔ کہتے ہیں کہ مزدوری مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کی جائے مگر پسنہ تو بہہ رہا ہے اور سرکاری افسروں کو خیال بھی نہیں ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ میں یہ کالم بھی پسینے میں قلم ڈبو کے لکھ رہا ہوں۔ مزید حیرت ہے کہ منصور آفاق نے یہ بات شفقت جلیل سے عمران خان کی موجودگی میں کہی۔ میانوالی عمران کا آبائی اور انتخابی ضلع ہے۔ شفقت جلیل کے پاس کئی محکمے ہیں۔
٭٭٭٭٭
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024