قبل ازوقت انتخابات اور نیب قانون میں ترامیم
وزیر اعظم عمران خان نے ’’پسندیدہ اینکر پرسنز ‘‘ کے ایک گروپ کو انٹرویو دیتے ہوئے’’ قبل از وقت انتخابات ‘‘کا عندیہ دے کر سیاسی حلقوں میں کھلبلی مچا دی ہے موجودہ حکومت کا100روزہ ’’ ہنی مون‘‘ پیریڈ ختم ہی ہوا تھا۔ وزیراعظم نے ’’قبل از وقت انتخابات ‘‘ کی بات کر کے سیاسی حلقوں میں ایک نئی بحث کا آغاز کر دیا ہے۔ وزیراعظم آفس کی جانب سے عمران خان کی اس اس بیان کی کوئی وضاحت تو نہیں کی گئی البتہ وزراء کی جانب سے ’’کپتان‘‘ کی گفتگو کی مختلف تاویلیں کی جارہی ہیں ۔ اپوزیشن کی جانب سے آنے والے رد عمل میں ہم آہنگی نہیں پائی جاتی ۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے ترجمان سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر نے فوری رد عمل دیا ہے اور قبل از وقت انتخابات کے بارے میں عمران خان کے بیان کو غیر ذمہ دارانہ قرار دیا ہے ۔ متحدہ مجلس عمل کے سربراہ مولانا فضل الرحمن جنہوں نے عام انتخا بات میں ہونے والی دھاندلیوں کے بارے میں ایک پوزیشن لے رکھی ہے۔ عمران حکومت پر’’ حملہ آور‘‘ ہونے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے سے نہیں دیتے، نے کہا ہے کہ ’’مڈٹرم الیکشن بارے میں حکومت کے بیان کا نوٹس نہیں لینا چاہیے۔ حکومت کوئی اور چلا رہا ہے۔‘‘ انہوں نے اس بات کی وضاحت تو نہیں کون حکومت چلا رہا ہے ؟ البتہ ان کے دوست مسلم لیگ (ن) کے قائد محمد نواز شریف کا رد عمل اپوزیشن کے دیگر رہنمائوں سے قدرے مختلف ہے انہوں نے وزیراعظم عمران خان کے ’’قبل از وقت ‘‘ انتخابات بارے میں بیان کا خیر مقدم کیا ہے اور کہا ہے کہ’’ عوام قبل از وقت انتخابات کے اعلان سے خوش ہیں اور مسلم لیگ (ن) قبل ازوقت اتخابات کے لئے تیار ہے۔‘‘ میاں نوازشریف جنہوں نے پچھلے چند ماہ سے ’’چپ کا روزہ‘‘ رکھا ہوا ہے ان کی خاموشی کے بارے میں سیاسی حلقوں میں طرح طرح کے تبصرے کئے جا رہے ہیں۔ انہوں نے اس بات کا شکوہ بھی کیا ہے کہ وہ ایک مخصوص حالت سے گزر رہے ہیں لیکن لوگ ان سے نعرے لگانے کا تقاضا کرتے ہیں۔ خاموش رہوں یا کوئی بات کروں لوگوں کی باتیں ختم نہیں ہوتیں۔ میاں نواز شریف، وزیراعظم کے ’’قبل از وقت انتخابات ‘‘ کے بارے میں بیان کا خیرمقدم کر کے دراصل سیاسی بیان دیا ہے اور ’’کپتان‘‘ کو یہ باور کرایا ہے کہ ان کی جماعت ’’قبل از وقت انتخابات‘‘ کے لئے تیار ہے اور وہ اپنے مخالفین کے لئے سیاسی میدان خالی نہیں چھوڑے گی ۔ اگرچہ وزراء کی طرف سے کہا جا رہا ہے وزیراعظم عمران خان نے جس تناظر میں’’ قبل از وقت انتخابات ‘‘کی بات کی ہے اسے اپوزیشن نے غلط معنی دے دئیے ہیں، تحریک انصاف اپنی آئینی مدت پوری کرے گی۔ اپوزیشن کے پاس ’’قبل ازوقت انتخابات ‘‘ کے سوا اور کوئی شوشہ نہیں ۔ تحریک انصاف 5سال میں اپنے منشور کے اہداف پورے کرے گی۔ سیاسی تجزیہ کاروں کی یہ رائے بھی ہے عمران خان ’’پولیٹیکل ایڈونچر‘‘ پر یقین رکھتے ہیں ان کی22 سالہ سیا سی زندگی ’’پولیٹیکل ایڈونچرز‘‘ کرتے گزری ہے ۔ وہ پارلیمنٹ کو ’’فتح ‘‘ کرنے کے لئے کئی بار پارلیمنٹ پر ’’حملہ آور ‘‘ ہوچکے ہیں بالآخر انہوں نے ’’غیبی ‘‘ مدد سے پارلیمنٹ پر قبضہ کر لیا ہے۔ عمران خان اقتدار کی کرسی پر’’ براجمان ‘‘ تو ہو گئے ہیں لیکن وہ وفاق اور پنجاب میں اپنی پارلیمانی قوت سے مطمئن نہیں دکھائی دیتے ہیں وہ سمجھتے ہیں قومی اور پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف کی حکومت اتحادی جماعتوں کی بیساکھیوں کے سہارے کھڑی ہے اسی طرح ایوان بالا میں تحریک انصاف اقلیت میں ہے جہاں اپوزیشن حکومت کو نہیں چلنے دے رہی ۔ممکن ہے عمران خان کسی وقت بھی واضح مینڈیٹ کے حصول کے لئے عوام کی عدالت سے رجوع کر سکتے ہیں لیکن تو ابھی تو تحریک انصاف کی حکومت کی’’ مہندی ‘‘بھی ماند نہیں پڑی اس کی ’’قبل از وقت انتخابات ‘‘ کی سوچ تباہ کن ہو گی اگر تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت اپنی تمام تر توجہ عوام کے مسائل حل کرنے پر مرکوز رکھے اور’’ قبل ازوقت انتخابات‘‘ کے ایشو پر اپنا وقت ضائع نہ کرے ’’قبل از وقت انتخابات‘‘ اس وقت کرائے جاتے ہیں جب کوئی حکومت سمجھے کہ اس نے مقررہ وقت سے قبل اپنے اہداف پورے کر لئے ہیں تو وہ عوام کے پاس جا کر پہلے سے زیادہ نشستیں جیت سکتی ہے یا دوسری صورت میں جب کوئی حکومت اسمبلی کا اعتماد کھو بیٹھے تو اسے مجبوراً عوام کے پاس نیا مینڈیٹ لینا چاہیے۔ ماضی میں ’’قبل از وقت انتخابات ‘‘ کی بہت کم مثالیں دی جا سکتی ہیں دو عشروں تک آئین کے آرٹیکل58-2 بی کا ’’بے رحمانہ ‘‘ استعمال ہوتا رہا کسی اسمبلی کو آئینی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی لیکن جب آئین میں ترمیم کر کے صدر سے اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار واپس لے لیا گیا تو پھر کسی وزیراعظم نے اسمبلی کی آئینی مدت ختم ہونے سے قبل تحلیل نہیں کی ۔ وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے بھی ’’قبل از وقت انتخابات ‘‘کو3،4 سال بعد ہی ممکن قرار دیا ہے سابق چیئر مین سینیٹ میاں رضا ربانی جہاندیدہ سیاست دان ہیں نے کہا ہے کہ ’’ تحریک انصاف کی حکومت پارلیمنٹ میں’’ فیصلہ کن‘‘ اکثریت حاصل کرنے کے لئے قبل از وقت انتخابات کا ’’ایڈونچر ‘‘ کر سکتی ہے ‘‘ یہ 1976ء کی بات ہے اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی مقبولیت کے زعم میں قبل ازقت انتخابات کا ناکام ’’ایڈونچر‘‘ کر کے نہ صرف اپنی حکومت کے خلاف ملک گیر تحریک کو دعوت دے دی بلکہ ان کے قبل از وقت انتخابات کے فیصلے نے نہ صرف منقسم اپوزیشن کو’’ پاکستان قومی اتحاد‘‘ کے پلیٹ فارم پر اکٹھا کر دیا بلکہ وہ ان کے اقتدار کے خاتمہ کا باعث بن گیا لہذا تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت کو ماضی کے ’’تجربات‘‘ سے سبق حاصل کرنا چاہے ۔ اس وقت کی اپوزیشن نے انتخابی دھاندلیوں کے خلاف اسمبلیوں کا بائیکاٹ کرکے ملک گیر تحریک چلا کر ملک میں مارشل لاء لگوادیا لیکن آج کی اپوزیشن نے اسمبلیوں کا بائیکاٹ کرنے کی بجائے انتخابی دھاندلیوں کی تحقیقات کرانے کے لئے پارلیمانی کمیٹی قائم کرا کے پارلیمانی نظام کو مضبوط کیا ہے لہذا حکومت کو کوئی ’’پولیٹیکل ایڈونچر‘‘ کرنے کی بجائے جمہوری نظام کو مضبوط بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کو ’’قابو ‘‘ کرنے کے لئے نیب قانون بنایا گیا جس کے ’’بے رحمانہ‘‘ استعمال سے سیاست دانوں کو سیاسی وفاداریاں تبدیل کی جاتی رہیں ۔جنرل پرویز مشرف نے نیب قانون کا خوف دلا کر مسلم لیگ (ن) کی کوکھ سے ’’سرکاری‘‘ مسلم لیگ بنائی جو آج بھی مسلم لیگ(ق) کی شکل میں موجود ہے نیب قانون ایسا ہے جس کے تحت نیب کسی شخص کو طویل عرصہ تک اپنی تحویل میں رکھ کر اپنی راہ پر چلا سکتا ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے ادوار میں اس قانون میں ترمیم کر کے ایک ایسا قانون بنانے کے لئے مذاکرات ہوتے رہے لیکن یہ مذاکرات محض اس لئے کامیاب نہیں ہوسکے کہ ہر حکومت نے اس کو ختم کرنے کی بجائے اپنے مخالفین پر استعمال کرنے کے لئے جوں کی توں حالت میں رہنے دیا ۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) دونوں نیب قانون کو تبدیل نہ کرنے کی ذمہ دار ہیں۔ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان اور پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کے درمیان اس لئے مذاکرات ناکام ہو گئے کہ پیپلز پارٹی احتساب کمیشن کے دائرہ اختیار سے ماضی کے کیسز کو نکلوا کر آصف علی زرداری کو احتساب سے بچانا چاہتی تھی اسی طرح پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان احتساب کمیشن کے چیئرمین کی اہلیت پر اتفاق رائے نہ ہو سکا جب مسلم لیگ(ن) کے دور حکومت میں میاں نواز شریف ’’گرم پانیوں‘‘ میں تھے تو پیپلز پارٹی نے نیب قانون میں ترامیم میں مسلم لیگ (ن) سے اس لئے تعاون نہیں کیا کہ اس کا فائدہ کہیں میاں نواز شریف کو نہ پہنچ جائے ۔ اگرچہ پچھلے 100دن میں قومی اسمبلی کی کوئی مجلس قائمہ قائم نہیں ہوسکی لیکن خاموشی سے وفاقی وزیر قانون و انصاف فروغ نسیم ، مسلم لیگ(ن) کے احسن اقبال اور پیپلز پارٹی کے سید نوید قمر کے درمیان دو تین ملاقاتیں ہو چکی ہیں اس سلسلے میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے ادوار میں کئے جانے والے کام سے فروغ نسیم کو آگاہ کر دیا گیا ہے شنید ہے فروغ نسیم نے اس بارے میں اب تک کئے جانے والے کام کو سراہا ہے لیکن وہ اس قدر’’باختیار ‘‘ وزیر نہیں کہ اپنے طور پر کوئی فیصلہ کر سکیں لہذا نیب قانون میں ممکنہ ترامیم کے بارے میں وزیراعظم عمران خان کو اعتماد میں لئے بغیر بات آگے نہیں بڑھ سکتی ۔ یہ بات قابل ذکر ہے حکومت اور اپوزیشن کی دو جماعتوں کے درمیان ہونے والی بات چیت کے بعد حکومت نے’’خاموشی ‘‘اختیار کر لی ہے ایسا دکھائی دیتا ہے آج کی حکومت اپوزیشن (مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی) کے کسی رہنما کو کوئی ریلیف نہیں دینا چاہتی ۔ یہی وجہ ہے مسلم لیگ (ن) کے قائد محمد نواز شریف نے کہا ہے کہ’’ نیب کو اسی طرح رہنا چاہیے ہم بھگت چکے اب باقی بھگتیں‘‘ ۔ اگرچہ انہوں نے کسی کا نام نہیں لیا تاہم ان کا روئے سخن جو ہے اس سے سب آگاہ ہیں ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان نیب کے قانون میں ترامیم بارے میں کس حد سنجیدہ ہیں؟ آنے والے دنوں میں صورت حال واضح ہو جائے گی ۔اگر آج بھی نیب قوانین میں اصلاح نہ کی گئی تو کل یہ قانون ان لوگوں کے خلاف استعمال ہو سکتا ہے جو آج یہ سمجھ رہے ہیں وہ اس قانون کی گرفت میں نہیں آئیں گے ان کو اور جرات مندی سے ایسے فیصلے کرنے چاہئیں جن کے باعث مستقبل قریب میں کسی سیاست دان کو ’’بلیک میل ‘‘ نہ کیا جاسکے۔