بیرون ممالک تعینات نان کیریئر سفیروں کو عہدے چھوڑنے کیلئے حکومت کی جانب سے دی گئی مہلت ختم ہو گئی۔ انہیں چارج چھوڑنے کیلئے سات دسمبر تک کی ڈیڈلائن دی گئی تھی۔ جن کی مہلت ختم ہوئی ہے‘ انہوں نے چارج اپنے نائب سفیروں کے حوالے کر دیا ہے۔ امریکہ میں متعین سفیر علی جہانگیر صدیقی نے بعض ذاتی مجبوریوں کی وجہ سے اپنے عہدے کا چارج چھوڑنے کیلئے دو ہفتے کا وقت مانگ لیا۔
اگر تو بہتر لوگ لانے کیلئے‘ نان کیریئر سفیروںکو واپس بلایا جا رہا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ سفیر صرف ڈگری ہولڈر یا فارن سروس کے کسی کورس کا تمغہ یافتہ ہی نہیں بلکہ وہ سفارتکاری کے اسرار و رموز سے آگاہ‘ ذہین‘ پُراعتماد‘ خوش لباس‘ خوش گفتار اور دلکش شخصیت کا مالک ہونا چاہئے۔ جس ملک میں تعینات کیا جا رہا ہو‘ انگریزی کے علاوہ اس ملک کی زبان پر بھی عبور رکھتا ہو۔ رائے عامہ پر اثرانداز ہونے والے طبقوں اور ذرائع ابلاغ سے خوشگوار تعلقات بنانے کی اہلیت رکھتا ہو۔ امریکہ میں ٹرمپ ایسے صدر کے دربار میں‘ جو اپنے وزیرخارجہ کو احمق اور گائودی کہنے سے بھی نہ چوکتا ہو‘ سفارتکاری آسان نہیں۔ آزادی کے بعد بھارت‘ عرب ملکوں میں اس لئے اثر و رسوخ بڑھانے میں کامیاب ہو گیا کہ اس نے ان ملکوں میں سفارتکاری کیلئے ایسے مردانِ کار کو منتخب کیا جو مسلمان تھے‘ یا عربی فرفر بولتے تھے۔ ہمارے پاس صرف وہ لوگ تھے جو انگریزی کے علاوہ دوسری زبانوں اور بالخصوص عربی سے نابلد تھے۔ چنانچہ مصر نے جوکہ عرب دنیا کا دارلثقافہ و العلوم ہے‘ مدتوں پاکستان کو انگریزی کالونی سے زیادہ اہمیت نہیں دی۔ یہی عالم سعودی عرب کا تھا جہاں پنڈت نہرو کا السید نہرو اور سفیر السلام (امن کا سفیر) کے نعروں سے استقبال ہوا۔ صرف زبان ناآشنا سفارتکاروں کی وجہ سے عرب دنیا میں پاکستان کو وہ مقام نہ مل سکا جس کا وہ مستحق تھا۔ مختصراً یہ کہ اب ان کی جگہ ایسے لوگ لگائے جائیں جو بااثر اور مقتدرحلقوں تک پاکستان کا مقدمہ بنام بھارت‘ کشمیر پر مظالم‘ دہشت گردی اور بھارت کی آبی جارحیت کے مسائل پر بااثر طبقات تک پہنچا سکیں جو تاجروں اور صنعتکاروں کی قربت حاصل کر سکیں اور انہیں پاکستان میں سرمایہ کاری پر آمادہ کر سکیں۔ جو صرف ادھر کی ڈاک اُھر اور اُدھر کی اِدھر پہنچانے کو ہی فرض منصبی نہ سمجھیں‘ ورنہ یہ ساری مشق بے کار ہوگی۔ دہشت گردی نے پاکستان کے بیرون ملک امیج کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ لہٰذا اب ایسے سفیروں کی ضرورت ہے جو بھارت اور امریکہ کے اڑائے چھینٹوں کو صاف کرنے کی اہلیت کے حامل ہوں۔ ایسے باکمال لوگ صرف فارن سروس ہی نہیں‘ بلکہ حکمران پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتوں میں بھی موجود ہیں بلکہ بہتر ہوگاکہ نان کیریئر سفیروں کا جماعتی وابستگیوں سے بالا ہوکر انتخاب کیا جائے۔چودھری سر ظفر اللہ خان اور ذوالفقار علی بخاری (پطرس بخاری) جیسے لوگ اب بھی مل جاتے ہیں‘ صرف دیدہ وری اور قومی درد کی ضرورت ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024