لاہور میں صفائی کے لئے 22 ارب نہیں دے سکتے ۔ عوام کو دینے ہوں گے: علیم خان
ارے بھائی یہ کیا ہو رہا ہے۔ خود کو الیکشن مہم میں فرزند لاہور کہلوانے والے کس منہ سے یہ کہہ رہے ہیں کہ لاہور کی صفائی کے لئے 22 ارب روپے نہیں دے سکتے۔ اب یہ عوام خود دیں۔ کچرا اُٹھانے کا ٹیکس تو پہلے بھی لاہوری خود ہی دیتے ہیں ۔ یوں لاہور والوں کو کچرا ٹیکس یا صفائی ٹیکس کے نام پر 22 ارب کا نیا ٹیکس سہنا ہو گا۔ کہاں گئے اب خود کو لاہور کا محافظ کہلوانے والے۔ پہلے کیا مہنگائی کم ہے کہ اب ہر شہری خدا جانے یہ نیا ٹیکس کہاں سے دیں گے۔ پوش علاقوںمیں تو شہری پہلے ہی 1000 روپے یا 500 روپے متوسط علاقوں میں 200 سے 300 روپے ادا کرتے ہیں اب یہ نیا ٹیکس نجانے کتنے کا ہو گا۔ اب پوش علاقے والوں کو 1500 روپے متوسط علاقے کو 500 روپے کا جھٹکا برداشت کرنے کیلئے تیار رہنا ہو گا۔ الٹا زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے وزیر بلدیات فرما رہے ہیں کہ مہنگائی کا جن عوام کو سہنا پڑے گا۔ اسے کہتے ہیں ’’لڑتے ہیں مگر ہاتھ میں تلوار نہیں ہے‘‘۔ پہلے بھی مہنگائی کا مقابلہ عوام کر رہے تھے عذاب بھی عوام بھگت رہے تھے۔ اب پھر انہی کو سولی پر لٹکانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ کیا عذاب سہنا عوام کی ہی قسمت میں لکھا ہے۔ الیکشن سے پہلے عوام کو ریلیف دینے کی باتیں کرنے والے کس طرح عوام کوعذاب سہنے کی دعوت دے رہے ہیں۔ا گر اسی کا نام تبدیلی ہے تو پھر ’’بخشو بی بلی چوہا لنڈورا ہی بھلا‘‘ ڈالر نے روپے کو ٹکے ٹوکری کر دیا ہے۔ لوگ پہلے ہی روزمرہ اشیاء کی مہنگائی کا رونا رو رہے ہیں اور حکومت کہہ رہی ہے ’’ایک گناہ اور سہی‘‘
٭٭٭٭٭
ٹرمپ بے اصول شخص ہیں۔ سابق وزیر خارجہ ٹلرسن
صدر ٹرمپ کی اصل حقیقت کیا ہے یہ تو انکے ساتھ کام کرنے والے ہی بہتر جانتے ہونگے یا انکے گھر والے۔ اب بدقسمتی یہ ہے کہ ٹرمپ صاحب کے ساتھ یہی دونوں ہمیشہ دو دو ہاتھ کرتے نظر آتے ہیں۔ بقول شاعر …؎
باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو میرے
جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے
ٹرمپ صاحب کو ہمیشہ انہی دونوں یعنی گھر والوں اور اپنے رفقا کار سے ہی طرح طرح کی باتیں سننا پڑتی ہیں۔ اب امریکی صدر کی آئے روز کسی نہ کسی سے پنگا لینے کی عادت بھی تو نہیں بدلتی۔ کوریا، ایران، پاکستان، ترکی، سعودی عرب ، روس، چین سب کے ساتھ وہ ہر وقت سینگ پھنسانے کی کوشش کرتے پھرتے ہیں۔ اس صورتحال کا خمیازہ بھی انہیں ہی بھگتنا پڑتا ہے۔ ٹلرسن امریکہ کے سابق وزیر خارجہ ہیں۔ ٹرمپ کے قریبی ساتھی بھی رہے ہیں۔ پالیسی اختلافات کی وجہ سے ٹرمپ نے انہیں ہٹایا۔ وہ اکثر ٹرمپ کیلئے باعث شرمندگی بننے والے بیانات دیتے پھرتے ہیں۔ اب انہوں نے کہا ہے کہ ٹرمپ بے اصول ہیں۔ پاکستانیوں کو اس کا عملی تجربہ بھی ہے۔ عالمی برادری بھی اس سے انکار نہیں کر سکتی۔ اس پر ٹرمپ صاحب نے جوابی طور پر اپنے روایتی بوڑھی پڑوسن والے انداز میں انہیں احمق اور کاہل قرار دیتے ہوئے کہا کہ اب نئے وزیر خارجہ اچھا کام کر رہے ہیں۔ دیکھتے ہیں نئے وزیر خارجہ کب تک ٹرمپ صاحب کا بوجھ اٹھاتے ہیں اور بعد از برطرفی کونسا نیا لقب ان کیلئے تجویز کرتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
عمران نے وزارت اطلاعات کی پیشکش کی: شیخ رشید ۔ پھر بیان بدل لیا
نامعلوم غبارے سے ہواکیوں نکل گئی۔ ابھی کل ہی تماشہ میڈیا پر سب نے دیکھا۔ شیخ جی نے بڑے طمطراق سے کہا کہ گزشتہ روز ان کی وزیراعظم سے چار ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ انہوں نے مجھے وزارت اطلاعات سنبھالنے کا کہا اس کے ساتھ ہی وزیر اطلاعات چودھری فواد پر شیخ جی نے خوب زبانی وار بھی کئے کہ وہ لندن میں 8 دن سے پکنک منا رہے ہیں۔ وزارت ملی تو کہوں گا بہت بہت شکریہ۔ سب صحافی تو حیران تھے ہی تحریک انصاف کے وزرا بھی پریشان تھے کیونکہ آج کل افواہ ہے کہ وزیراعظم ناقص کارکردگی پر وزارتیں تبدیل کرنے کے موڈ میں ہیں۔ ابھی اس گرمی گفتار سے چارسو سناٹا چھایا ہی ہوا تھاکہ شیخ جی کی ٹلی نجانے کہاں سے کچھ اس طرح کھڑکی کہ خبر پھیلنے کے کچھ ہی دیر بعد انہوں نے تردید کرتے ہوئے کہا کہ میں نے یہ بات مذاق میں کہی تھی۔کہا یہ جملہ کہ میں نے انہیں (فواد چودھری) کو فوراً واپس آنے کا کہا ہے۔ کہاں یہ بیان کہ میں مذاق کر رہا تھا۔ وزیر اطلاعات فواد چودھری نے دل بڑا کرتے ہوئے لندن میں کہہ دیا کہ وہ وزارت چھوڑنے کو تیار ہیں انکے پاس جو کچھ ہے وہ تحریک انصاف کا دیا ہوا ہے۔ وزیر اعظم کا حکم سر آنکھوں پر۔ اب شیخ جی کے تردیدی بیان کے بعد باقی وزرا کی جان میں جان آئی ہو گی۔ ورنہ وہ پریشان تھے کہ کب کس کی باری آتی ہے۔ معلوم نہیں شیخ جی نے کس ترنگ میں آ کر ایسا بیان دیا۔ اب اور کچھ مگر عوام کے سامنے انکی سبکی ہوئی اور یہ بات پھیلنے لگی کے وزارتوں کی تبدیلی کی افواہ میں جان ہے۔
٭٭٭٭٭
بھارتی آفیشلز نے 2 کروڑ روپے میچ فکسنگ کی پیش کش کی تھی۔ فرحان محبوب
کرکٹ کے میدان کو میچ فکسنگ سے بدنام اور داغ دار کرنے والے بھارت نے اب دوسری کھیلوں پر بھی نظر یں گاڑھ لی ہیں۔ سکوائش کے کھیل میں پاکستان کی ایک بار پھر پیش رفت اس سے برداشت نہیں ہو رہی اس لئے اس نے 2014 ء میں ہانگ کانگ میں ہونے والے ایشیائی سکوائش چیمپئن شپ میں حصہ لینے والے پاکستانی کھلاڑی کو فائنل نہ کھیلنے کیلئے 2 کروڑ روپے کی پیشکش کی تھی۔ فرحان محبوب نے یہ پیشکش انکے منہ پر دے مارتے ہوئے کہا تھا کہ اگر ایک ارب روپے بھی ہوں تو بھی وہ ملک کے وقار کا سودا نہیں کرینگے۔ یہ ایونٹ پاکستان نے ملائیشیا کو ہرا کر جیت لیا تھا۔ اب اس انکشاف کے بعد دیکھنا ہے عالمی ادارے کیا ایکشن لیتے ہیں۔نجانے کیوں کھیلوں کے عالمی ادارے بھی بھارت کی کھیل دشمن پالیسیوں کے باوجود کھیلوں میں جوئے کی لت کو فروغ دینے کی کوشش کے باوجود اس کیخلاف موثر ایکشن لینے سے معذور ہیں یا مجبور ہیں۔ بھارت کا نام نہاد جمہوری چہرہ اور بڑا ملک ہونے کا لبادہ شاید اسکے بہت سے عیوب چھپا لیتا ہے۔ مگر اس کا کرپشن کے الزامات سے لتھڑا وجود ساری دنیا کے سامنے آتا رہتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ کھیلوں کی وزارت اس بات پر عالمی کھیلوں کے اداروں کو اعتماد میں لے۔ مگر ذرا دیکھ بھال کر کہ کہیں معاملہ پرانا ہونے کی وجہ سے ناقابل سماعت نہ ٹھہرے اور الٹا پاکستان کو ہی معاملہ چھپانے پر یا بروقت ظاہر نہ کرنے پر لینے کے دینے نہ پڑ جائیں۔ جیسے بھارت کی طرف سے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ڈیم بنانے کے معاملات ہم تب عالمی عدالت میں لے جاتے ہیں جب ڈیم 80 فیصد بن چکے ہوتے ہیں۔ یوں وہاں سے ہمیں برحق شکایت کے باوجود خالی ہاتھ لوٹنا پڑتا ہے۔
٭٭٭٭٭
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024