احسان جعفری کی صاحبزادی نسرین جعفری اب امریکہ میں مقیم ہیں انہوں اس سانحے کی دہلا دینے والی یادیں تازہ کی ہیں کہ حاضرین کو خون کے آنسو رْلا دیا ہے ملاحظہ فرمائیں۔’’میرے ابا نے اتنا مضبوط گھربنایااس جگہ پر، کیونکہ انہیں یقین تھا کہ وقت بدل رہا ہے لوگ سمجھ رہے ہیں لوگ اچھے ہورہے ہیں 2002میں تین دن تک اس گھر کو جلایاگیااس گھر کواتناجلایاگیا کہ ہم صرف وہاں سے تھوڑی سی راکھ لے کر قبرستان جاکر دفنا کرآگئے ہیں آج بھی جب میں اس گھرمیں جاتی ہوں جہاں پر میں بڑی ہوئی جہاں پر میرے بچے کھیلے ہیں جہاں میرے ابا کا باغیچہ تھا جہاں ان کی کتابیں تھیں، میں چپل باہر اتارکرجاتی ہوں کہ مجھے نہیں پتاکہ ان کا سر کہاں کاٹاگیاتھا۔ ان کے ہاتھ کہاں کاٹے گئے تھے۔
میں آپ کو یہ بات اس لیے بتانا چاہتی ہوں کہ آپ سوچ رہے ہونگے جیسا کہ 32سال سے امریکہ میں ہوں، میں یہاں رہتی ہوںہر طرح سے محفوظ ‘ مہذب لوگوں میں پڑھے لکھے لوگوں میں لیکن میں بھارت میں اکیلی ہوں کوئی یہ بات سامنے لانا نہیں چاہتا، سب اپنی اپنی دھن میں چاہتے ہیں کہ یہ بات مووآن’ فارگیٹ لیکن آپ نے ایک یا دوگھر نہیں جلائے ہیں آپ نے ہزاروں گھر جلائے ہیں۔ ہزاروں لوگوں نے،میں آپ کو کس کس کی مثال دوں ہمارے قریب خان انکل لوگوں کا گھر تھا۔ ان کے بچے تین سال ہسپتال ہسپتال اپنے ابا کو ڈھونڈتے رہے کہ انہیں لاش نہیں ملی ان کی۔ وہ یہی سوچتے رہے کہ کہیں ہسپتال میں کہیں گلی میں وہ مل جائیں گے ۔یہ احمد آباد کی بات کررہی ہوں یہ2002کی بات کررہی ہوں۔ یہ کوئی دور دراز گاؤں نہیں تھا کوئی اندھیری رات نہیں تھی جہاں پرپولیس نہیں آسکتی جہاں پرایمبولینس نہیں آسکتی جہاں پرسٹیٹ گورنربہت دور ہو یہ تو گاندھی نگراحمد آباد سے10 کلومیٹر پر ہے۔ گاندھی آشرم 5کلومیٹر ہے ہم سائیکل لے کر گاندھی آشرم میں کھیلنے جایاکرتے تھے بچپن میں لیکن اس دن 2002میں جس طرح کی پلاننگ کی گئی تھی ہمارے ابا فون پر فون لگاتے رہے کنٹرول روم کو ہمارے ابا نے ہر ایک کوبلایا ان کے پاس ایک بلیک بک ہوا کرتی تھی جس میں ان کے سب نمبر لکھے تھے انہوں نے سب کو فون کیا یہاں تک فون کے تار کاٹ دیئے گئے جب وہ بہت تنگ آگئے بہت ہی ان کو لگا کہ کوئی مددکرنے نہیں آنے والا ہے آپ کو پتا ہی ہے اوربہت مجبوری میں انہوں نے ایک کال مودی کو بھی کی توانہوں نے دیکھا کہ لڑکیوں کو کھینچاجارہا ہے باہر چھوٹے چھوٹے بچوں کو کھینچ کھینچ کر لے جارہے ہیں ہرطرف کی کھڑکیاں توڑ دی گئی ہیں اوراندر گیس کے ٹینک چھوڑے جارہے ہیں ان کو جلا جلا کے انہوں نے آخری بار فون کیا تو آپ کو پتا ہے ان کو وہاں سے کیا جواب آیا:
’’جعفری ہم کچھ نہیں کرسکتے خود بھگتو‘‘۔
ہمارے ابا جس جگہ پر رہتے تھے چاروں طرف سے ہندو انتہا پرستوں کا گھیرائوتھا۔ میرے ابا بہت پراعتماد تھے ان میں اعتمادتھا کہ میں یہاں رہ کر bridge بنائوں گا۔ لوگوں میں محبت بڑھائوں گا۔ میں کہیں دورجاکر نہیں رہوں گا۔ میں یہیں پہ سب کے ساتھ مل کررہوں گا ہم وہاں پررہے ان کے ساتھ، سب سے ہم کھیلتے تھے، ہم ہرانسان کو دودوتین کلومیٹرپرسب کوجانتے تھے۔ بچپن میں توآپ کو یاد ہی ہوگا کوئی سامان لینا ہوتا ہے تو ہم تھیلی لے کر جاتے ہیں۔ کم از کم دس پندرہ بلاک چل کرجاتے ہیںلیکن 2002 کے دن کوئی نہیں آیا۔ہمارے ابا نے یہ دنگل اکیلے لڑاہے وہ 73 سال کے تھے اس لیے مجھے لگتا ہے کہ اگرپھرسے ایک باراس طرح کی پلاننگ کرنا یہ الیکشن وغیرہ آنے کے وقت کوئی اس میں ان کو دیر نہیں لگے گی۔ جب بھی الیکشن آتا ہے اب مجھے ڈرلگتا ہے کہیں نہ کہیں معصوم لوگوں کی جان جائے ایسا کہیں ڈیموکریسی میں ہوتا ہے؟…؎
داغ چھوٹا نہیں، یہ کس کا لہو ہے قاتل
ہاتھ بھی دکھ گئے، دامن ترا دھوتے دھوتے
گجرات میں فسادات کا سب سے بڑا مجرم موذی مودی ہے جس کی گواہ اس وقت کے فسادات پر قابو پانے کیلئے آنیوالے جنرل ضمیر شاہ ہیں۔ ڈاکٹر احمد سلیم کی اس حوالے سے ہوشرباتحریر نظر سے گزری۔ وہ لکھتے ہیں:
جب پولیس مسلمانوں کی نسل کشی کو روکنے میں ناکام رہی تو بھارتی فوج کو بلانے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ فیصلہ28 فروری کو کیا گیا۔ ساتھ ہی یہ بھی طے ہوا کہ آرمی وہاں کے ہوائی اڈے پر اترے گی اور اسکے بعد آرمی کو نقل و حمل کے لیے گاڑیاں اور دیگر سہولتیںمودی کی سول حکومت فوری طور پر فراہم کرے گی۔ اس سپیشل انوسٹی گیشن ٹیم کو بیان دیتے ہوئے اس وقت کے ایڈیشنل چیف سیکرٹری اشوک نارائن نے یہ کہا کہ آرمی کو تمام سامان اور ہر قسم کی سول مدد وقت پر فراہم کر دی گئی تھی اور ریاستی حکومت نے اس سلسلے میں کسی قسم کی کوئی کوتاہی نہیں کی۔ ان کی اسی گواہی کی بنیاد پر ریاستی حکومت اور مسٹر مودی مبینہ طور پر بیگناہ قرار پائے۔ جب گجرات کے مسلم کش فسادات کو روکنے کے لیے بھارتی فوج سے مدد کی درخواست کی گئی تو فوج کا جو دستہ بھیجا گیا اسکی کمان جنرل ضمیرالدین شاہ کر رہے تھے۔سب سے حیرت کی بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے قائم کی جانے والی سپیشل انوسٹی گیشن ٹیم ( جس نے مودی جی کو بے قصورقرار دیا تھا) نے اس سلسلے میں جنرل ضمیر کا بیان لینے کی زحمت ہی نہیں کی۔ اب جنرل ضمیر شاہ فوج سے ریٹائیر ہو چکے ہیں۔ گزشتہ ماہ انہوں نے اپنی یاد داشتوں پر مشتمل ایک کتاب شائع کی ہے جس کا نام انہوں نے ’’ سرکاری مسلمان ‘‘ رکھا ہے۔ انہوں نے اپنی اس کتاب میں 2002ء میں گجرات میں پیش آنے والے واقعات کے بارے میں لرزہ خیز انکشافات کئے ہیں۔
جنرل ضمیر شاہ کے مطابق یکم مارچ2002ء کو اپنی زیر کمان 3000 فوجیوں کے ہوائی اڈے پر اترنے سے پانچ گھنٹے قبل صبح 2 بجے اس وقت کے چیف منسٹر مودی سے انکے گھر پر اس وقت ڈیفنس منسٹر جارج فرنینڈس کی موجودگی میں ملاقات کی اور ان دونوں کو اپنی ضروریات سے آگاہ کر دیا ۔ اس دن صبح ان کا فوجی دستہ وہاں کے ہوائی اڈے پر اتر گیا لیکن اس کے باوجود ان کو اگلے 34 گھنٹے تک ضروری ساز و سامان اور گاڑیاں مہیا نہ کی گئیں اور اس دوران ا نتہا پسند فسادیے پورے شہر میں کھل کر مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلتے رہے۔ اس دوران سول انتظامیہ بھی خاموش تماشائی بنی رہی۔ کرفیو کا حکم تو جاری کیا گیا تھا لیکن پولیس نے اس حکم پر عمل درآمد کروانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔
جنرل صاحب کے بقول انہوں نے جو کچھ ہوتے دیکھا اسے سول انتظامیہ کی مکمل ’’انتظامی ناکامی‘‘ کے علاوہ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ جنرل شاہ نے اس انوسٹی گیشن ٹیم کی رپوٹ کے کچھ حصوں کو ’’ سفید جھوٹ‘‘ قرار دیا ہے۔ کتاب کی رونمائی کی تقریب میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ انویسٹی گیشن ٹیم کی رپوٹ جو مرضی کہے انھوں نے اپنی کتاب میں جو کچھ لکھا ہے اسکا ایک ایک لفظ سچائی پر مشتمل ہے۔ اس وقت کے چیف آف جنرل سٹاف جنرل پدمانابھن نے اس سلسلے میں ممتاز بھارتی خبر رساں ایجنسی IANS سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جنرل ضمیر شاہ اس وقت عملی طور پر وہاں موجود تھے اس لیے وہاں پیش آنے والے واقعات کے بارے میں ان سے زیادہ کون سچائی کا علم رکھ سکتا ہے۔علاوہ ازیں انہوں نے جنرل ضمیر کے اس دعویٰ کی بھی تصدیق کی کہ انہوں نے یہ تمام واقعات گجرات کے آپریشن کے بعد اپنی " After Action Report on Operation Aman" میں بھی رقم کئے ہیں۔
جنرل ضمیر نے NDTV سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر مودی حکومت فوج کو ٹرانسپورٹ اور دیگر ضروری سہولیات وقت پر مہیا کر دیتی اور قیمتی 34 گھنٹے ضائع نہ کیے جاتے تو سینکڑوں جانیں بچائی جا سکتی تھیں۔ (ختم شد)
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024