آج حکومت کی عمر 112 دن ہو گئی ہے ،100 دن کے بارے جو گرد اٹھی وہ بیٹھ گئی ہے۔ روپے کی بے قدری سے سونے کی قیمتیں ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہیں۔ فی تولہ سونے کی قیمت 65400 روپے ہے۔ یہ گریڈ 17 کے افسر کی تنخواہ سے بھی زیادہ ہے۔ وزیراعظم نے کہا مڈٹرم الیکشن ممکن ہیں‘ لیکن دو روز بعد ہی شاہ محمود قریشی نے کہہ دیا مڈٹرم الیکشن نہیں ہونگے۔ مدت پوری کریںگے۔ ملک چلانے کیلئے سیاست سے زیادہ معیشت اہم ہے۔ یہ سیاسی تکون کی طرح تین ستونوں برآمدات‘ سرمایہ کاری اور بیرون ملک پاکستانیوں کی ترسیلات پر کھڑی ہے۔ 71 سالہ فنانشل ہسٹری میں تجارتی خسارہ 38 ارب ڈالر ہے۔ 4 سال سے برآمدات گرتی جا رہی تھیں۔ کرنٹ اکائونٹ کا خسارہ 18 ارب ڈالر ہو گیا تھا۔ ایکسپورٹ سیکٹر انڈسٹریز کیلئے گیس ٹیرف میں 44 ارب روپے کی سبسڈی منظور ہوئی ہے۔ ایکسپورٹ کا 60 فیصد ٹیکسٹائل کا مرہون منت ہے۔ ٹیکسٹائل کی 82 امپورٹ آئٹمز پر ریگولیٹری ڈیوٹی کم کی گئی ہے۔ ٹیکسٹائل سے موجودہ برآمدی آمدنی 13 ارب ڈالر ہے۔ بیرون ملک پاکستانی بنکنگ ذرائع سے ہر سال 20 ارب ڈالر ارسال کرتے ہیں۔ ہنڈی حوالہ سے آنے والی رقوم علیحدہ ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ کاروباراور سٹاک مارکیٹ کو مندی نے گھیر رکھا ہے۔ سرمایہ کاروں کا دل غیر مطمئن ہے۔ قومی اسمبلی میں عمران حکومت کو سادہ اکثریت جبکہ سینٹ میں طاقتور اپوزیشن کا سامنا ہے۔ یوں قانون سازی آسان دکھائی نہیں دیتی۔ پارلیمنٹ میں اتفاق رائے سے ہی حکومتی گاڑی چل سکتی ہے۔ پرانے پاکستان کی بنیاد قائداعظم محمد علی جناح نے رکھی تھی تو عمران دور میں نئے پاکستان کی بنیاد چیف جسٹس ثاقب نثار نے رکھی ہے۔ پارلیمنٹ میں اتفاق رائے پیدا کرنا ہی حکومت کا اصل امتحان ہے۔ اس کیلئے ذرا دل بڑا کرنا پڑے گا۔ اپنی آزادی‘ خودمختاری‘ سلامتی کیلئے اس سے اچھا بیان اور کیا ہوگا کہ کرائے کے قاتل ہیں نہ امریکہ کی بندوق بنیں گے۔ عمران خان دنیا بھر پر واضح کرتے جا رہے ہیں کہ کسی کی جنگ لڑیںگے نہ جھکیں گے۔ امریکہ کی جنگ لڑتے بہت زیادہ نقصان اٹھایا۔ ڈور مور کا مطالبہ کرنے والے آج مذاکرات کے خواہاں ہیں۔ اب وہ کریں گے جو ہمارے مفاد میں ہوگا۔ امریکہ افغان امن کیلئے پاکستانی شراکت داری یقینی بنانے پر تلا ہوا ہے‘ لیکن ساتھ ہی کہتا ہے افغانستان سے انخلاء ایک اور 9/11 کا موجب بنے گا۔ 40 فیصد افغانستان حکومت کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ ہم امریکہ سے برابر کے تعلقات چاہتے ہیں‘ لیکن یہ محض سفارتی اصطلاح ہے۔ برابری امیر کی امیر سے ہوتی ہے۔ غریب اور امیر میں برابری کہاں ہوتی ہے۔ ہمارا سارا انحصار قرضوں پر ہے۔ سول اور عسکری اداروں کی ہم آہنگی سے خارجہ پالیسی کا محور تبدیل ہو گیا ہے‘ لیکن ساتھ پاکستان پر غیرملکی قرضوں کا بوجھ تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔ قرضے 31 کھرب روپے سے تجاوز کر گئے ہیں۔ 26 ممالک کی معلومات سے حکومت کو 11 ارب ڈالر کا پتہ چلا ہے۔ ٹیکس وصولی بڑھانے‘ اخراجات کم کرنے کا فیصلہ ہوا ہے۔ فون کارڈز اور بوتلوں کے پانی پر ٹیکس سے حکومت کی مدد ہوگی، 43 ارب ملیں گے۔ غیرملکی قرضوں اور واجبات کا حجم 96 ارب 73 کروڑ 50 لاکھ ڈالر ہو گیا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں 50 لاکھ گھروں اور ایک کروڑ نوکریوں کاہدف سب سے بڑا ہے ، بڑھتی آبادی کے باعث وسائل دبائو کا شکار ہیں۔
ہر حکومت نے اپنے 5 سال کا ہی سوچا‘ ڈیم منصوبہ 5 سال میں کبھی نہیں بنتا‘ 5 سال میں تو اورنج لائن نہ چل سکی۔ گزشتہ 40 سال سے کوئی نیا ڈیم نہیں بنا جبکہ 2025ء میں پانی کی قلت بحران کی صورت اختیار کر جائے گی۔ سالانہ 3 ارب گیلن پانی زمین سے نکال لیا جاتا ہے۔ زمین سے نکالے گئے پانی کا تین چوتھائی ضائع کر دیا جاتا ہے۔ 30 سال بعد پاکستان کی آبادی 45 کروڑ ہو جائے گی، پھر موجودہ سڑکوں پرازدحام کا عالم کیا ہوگا۔
وزیراعظم ہوا کا رخ دیکھ رہے ہیں وہ جانتے ہیں ان کے مخالفین اور ناقدین کی تعداد ان گنت ہے اسی لیے انہوں نے جان لیا کہ زرداری اور سب کی خواہش ہے حکومت نہ چلے۔ ان کے نزدیک مڈٹرم الیکشن اور کابینہ میں تبدیلی ممکن ہے۔ عمران خان یہ بات کئی بار دہرا چکے ہیں کہ نیب میرے ماتحت ہوتا تو 50 بڑے بدعنوان آج جیلوں میں ہوتے کیا یہ ممکن نہیں کہ وزیراعظم 50 بڑے بدعنوان کے نام بے نقاب کردیں۔ آخر ایف بی آر بھی تو ٹیکس ڈائریکٹری شائع کر کے ٹیکس نادہندگان کو بے نقاب کرتی رہی ہے۔ گورنر ہائوس کی دیواریں غلامی کی علامت ہیں تو انگریزوں کی بنائی درجنوں عمارتوں ا ور ان کی دیواروں کو غلامی کی علامت قرار دیا جائے گا۔ کلرک ا ور بیورو کریسی بھی تو انگریزوں کی پیداوار ہے ان عمارتوں کو گرانے کا حکم کون صادر کرے گا اور پھر ان دیواروں کو گرنے سے روکنے کا حکم صادر ہو گا۔ عمران خان تسلیم کرتے ہیں کہ ہر حکومتی ا دارہ خسارہ میں ہے کوئی بھی چیز ٹھیک نہیں ۔ سرکاری دفاتر میں فائل رشوت بنا نہیں چلتی ذرا بھیس بدل کر ان مظلوم لوگوں سے مل کر دیکھیں جو پینشن کے لئے خوار ہوتے ہیں۔ سرکاری ملازمت میں رہتے ہوئے فوت ہونے والے لواحقین کو ایک ایک سال تک بقایا جات نہیں ملتے۔ عدالتوں سے کئی کئی ماہ وراثت کے سرٹیفکیٹ جاری نہیں ہوتے۔ کابینہ میں تبدیلی سے تبدیلی نہیں آئے گی۔ تبدیلی اس دن محسوس ہو گی جب سرکاری محکموں میں کام مہینوں یا سالوں میں نہیں دنوں میں ہونا شروع ہوں گے۔ چودھری پرویز الٰہی نے مشرف دور میں وزیراعلیٰ پنجاب ہوتے ہوئے ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کو تیار شدہ گھر دینے کے لئے پنجاب گورنمنٹ سرونٹس ہائوسنگ فائونڈیشن قائم کی تھی کسی کو پتہ نہیں کہ اسے اسی کے پیسوں کے عوض فائونڈیشن کب اور کہاں تیار شدہ گھر یا پلاٹ الاٹ کرے گی۔ حیرت تو ا س بات پر ہے کہ 2004ء سے 2018ء تک کی کارکردگی کا کچا چٹھا سامنے آ جائے تو وزیر اعلیٰ حیران رہ جائیں گے کہ اربوں روپے فائونڈیشن نے بے کار جمع کر رکھے ہیں اور ہر ضلع میں ریٹائرڈ لوگوں کے لئے نہ زمین خریدی نہ گھر بنائے چند اضلاع میں زمین خریدی تو اپنے ہی قواعد سے انحراف کر کے قرعہ اندازی کی پخ لگا دی۔ کیا فائونڈیشن کوئی خیراتی ادارہ ہے۔
ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں سے پیسہ کاٹا جاتا رہا پھر قرعہ اندازی کیسی؟ کاش نیب کا محکمہ تعلقات عامہ اس ادارے کے بارے میں اپنے معزز چیئرمین کو بتاتا کہ اس ادارے کی بھی خبر لی جائے۔ اگر وزیراعظم کے نزدیک کوئی بھی چیز ٹھیک نہیں تو وہ اور ان کی حکومت ان کے گورنر وزرائے اعلیٰ اور وزراء کس لئے ہیں۔ ہر ہر وزیر کی 100 دن کی پراگرس رپورٹ سامنے آنی چاہئے۔ سکولوں میں بھی تو سہ ماہی امتحان ہوتے اور ان کی رپورٹ والدین کے روبرو لائی جاتی ہے۔ ماڈل ٹائون کیس پر نئی جے آئی ٹی بنے گی۔ 2014ء سے اب 2019ء میں داخل ہونے والے ہیں۔ اتنے طویل عرصے میں کونسی طاقتیں سانحہ ماڈل ٹائون کے اصل ذمہ داروں کا تعین کرنے میں رکاوٹ بنی رہیں۔ اتنے بڑے سانحے کا ذمہ دار کوئی تھانیدار تو نہیں ہو سکتا۔ اس وقت تو شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ کے لامحدود اختیارات کا طوطی بولتا تھا۔ خدا کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024