ریٹائرڈ بیورو کریٹ عابد سعید کی بیٹی کی شادی کی تقریب تھی ۔ وہاںایک شخص نیاز مندی اور قدرے تغافر کے ملے جلے جذبات میں لیجنڈ پولیس آفیسر ذو الفقار احمد چیمہ سے کہنے لگا ۔ ’’سر!میرا بیٹا فلاں ضلع میں ایڈیشنل سیشن جج مقرر ہو گیا ہے۔ آپکا بچہ ہے ۔ آپ اسے بلا دھڑک ’’حکم احکام‘‘بھجوا سکتے ہیں‘‘۔ ذو الفقار احمد چیمہ چونک کر بولے ۔ ’’لیکن میں عمر بھر کسی جوڈیشل افسر کو کبھی سفارش کا سوچ بھی نہیں سکا‘‘ ۔ یہ کہہ کر وہ دوسری جانب متوجہ ہو گئے ۔ استاد دامن نے کہا تھا : ؎
چہرہ شاہی سکہ بھانویں لکھ ہووے
تاں وی لوگ ٹنکاکے ویکھدے نیں
ترجمہ :آج کاغذی کرنسی کے زمانے میں کوئی یہ کیسے سمجھ پائے گا کہ ایک زمانہ میں سونے چاندی اور تانبے کے چہرہ شاہی سکے ہواکرتے تھے لیکن لوگ انہیں بھی اپنے انگوٹھے اور شہادت کی انگلی کی مدد سے ہوا میں اچھال کر کھنک سے انکے کھوٹے کھرے ہونے کااندازہ لگایا کرتے ۔ادھر ذو الفقار احمد چیمہ کو جب بھی پرکھا گیا وہ پانسے کا سونا ثابت ہوئے ۔ ایمانداری ہو، دلیری یا پھر احساس ذمہ داری اور محنت ، وہ کسی میدان میں پیچھے دکھائی نہیں دیئے ۔ ان دنوں ایک احمدی نام کے اشتہار کی خبریں بہت گرم تھیں۔ اس کے بھتہ کی پرچی جسے ملتی وہ فوراً حکم کی تعمیل کرتا۔ احمدی کا تعلق ذو الفقار احمد چیمہ کی اپنی تحصیل وزیر آباد سے تھا، پھر وہ تھا بھی انہی کی جاٹ برادری سے ۔ ذو الفقار احمد چیمہ آر پی او گوجرانوالہ تھے ان سے کہا گیا ’’ چیمہ صاحب !لوگ کہتے ہیں کہ جرائم پیشہ اشتہاری احمدی اول آپکے بھائی کی الیکشن کمپین میں سرگرم رہا ہے ۔ دوم وہ آپکی جاٹ برادری سے تعلق رکھتا ہے ۔ اسی لئے آپ اس پر ہاتھ نہیں ڈال رہے ‘‘۔ ذو الفقار احمد چیمہ کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا۔ کہنے لگے ۔ ’’احمدی میری تحصیل وزیر آباد کا رہنے والا ہے۔ وہیں میرے کئی عزیز و اقارب کا زرعی رقبہ ہے ۔ان کے ڈیروں پر وہ دکھائی بھی دیتا رہتا ہے ۔ مجھے اپنے عزیزوں کے ڈیروں پر پولیس کے چھاپے اچھے نہیں لگتے لیکن میںایک بات بتا دوں کہ جب بھی وہ میرے قابو آگیا ،بچ نہیں سکے گا‘‘۔ پھر احمدی ذو الفقار احمد چیمہ سے بچ نہ سکا۔ ایک ضمنی الیکشن آگیا۔یہ ناقابل یقین سا واقعہ ہے کہ ذو الفقار احمد چیمہ نے بطور آر پی او گوجرانوالہ وہ الیکشن ’’آتشیں اسلحہ فری‘‘ کروا کر دکھا دیا۔ نوشہرہ ورکاںکے اس الیکشن میں صرف ڈانگ سوٹے کا استعمال ہو سکا۔ پھر ایسا ہی منظر نامہ گجرات کے ضمنی الیکشن میں بھی دیکھنے میں آیا۔ اس دن پولنگ ختم ہونے سے دو گھنٹے پہلے آر پی او گوجرانوالہ سے گجرات کی مقامی پولیس کی کمانڈ لے لی گئی تھی ۔ تبھی گجرات کے چوہدریوں کی ہار ممکن ہو سکی ۔جب وہ آر پی او شیخوپورہ مقرر ہوئے تو سرگودھا ڈویژن کا اضافی چارج بھی انکے پاس تھا۔ انہوں نے حکم دیا کہ کوئی شخص اپنے پرائیویٹ گن مینوں کے ساتھ باہر نہ نکلے ۔مجھے یاد ہے کہ حکومتی پارٹی کا ایک ایم این اے انکے پاس یہ کہتے ہوئے سفارشی ہوا۔ ’’فلاں شخص کو اپنے گن مینوں کے ساتھ باہر نکلنے کی اجازت دے دی جائے ۔ وہ چور ڈاکو نہیں ۔ صرف دشمن دار آدمی ہے ‘‘۔ ذو الفقار احمد چیمہ کا جواب تھا۔’’اسکی اسرائیل اور ہندوستان کے ساتھ دشمنی نہیں ۔ پھر آج کا سکہ رائج الوقت زمین کے ناجائز قبضے ہی ہیں ۔ آج چوری ڈاکے کا زمانہ نہیں رہا۔ وہ بڑا دشمن دار اپنے گھر پڑا رہے۔ بالکل باہر نہ نکلے ‘‘۔ پھر آر پی او ذو الفقار احمد چیمہ نے حکومتی پارٹی کے اس ایم این اے کی طرف اپنی کرسی پر بیٹھے بیٹھے رخصتی سلام کیلئے ہاتھ بڑھادیا ۔ آج کے نوجوان شاعر رحمٰن فارس نے کسی ایسے ہی منظر کی منظر کشی کی ہے ۔ ؎
دیکھنے والا تھا منظر جب کہا درویش نے
کج کلاہو!بادشاہو ! تاجدارو! تخلیہ
کالم نگار کو کامونکی سے مرحوم و مغفور رانا شمشاد ایم پی اے نے بتایاتھا کہ 2013ء کے الیکشن کے بعد ہم چند ہم خیال ممبران صوبائی اسمبلی ایک جگہ اکٹھے ہوئے۔ میاں نواز شریف کا آئندہ حکومتی رویہ زیر بحث تھا ۔ سبھی دوستوں کی رائے تھی کہ ذو الفقار احمد چیمہ کو آئی جی پنجاب لگانے یا نہ لگانے سے انکی آئندہ حکومتی ترجیحات واضح ہو جائیں گی۔ پھر سارے زمانے نے دیکھاکہ انہیں آئی جی پنجاب نہ لگایا گیا ۔کالم نگار محمدعامر خاکوانی نے ممتاز امریکی صحافی باب وڈ ورڈکی کتاب ’’ایجنڈا‘‘کا ذکر کیا ہے ۔اس کتاب میں مصنف نے بتایا کہ صدر کلنٹن اور اس کی قریبی ساتھیوں نے کس طرح جنونیوں کے سے انداز میں اچھی ٹیم سلیکٹ کی ۔ محمدعامر خاکوانی کی خواہش ہے کہ کاش عمران خان یہ کتاب پڑھ سکتے ۔اسطرح انہیں پتہ چلتا کہ جس لیڈر نے جوہری نوعیت کی تبدیلی لانی ہووہ کس طرح کے مشیر منتخب کرتا ہے اور وہ کس نہج پر کام کرتا ہے ۔ریٹائرمنٹ کے بعد ذو الفقار احمد چیمہ کو TEVETAکا سربراہ مقرر کیا گیا۔انہوں نے اس بے جان سے ادارے میں جان ڈال کر دکھا دی ۔ دیانت ، محنت اور لیاقت سے مردہ ادارے ضرور زندہ ہو جاتے ہیں۔ ن لیگی گھرانے سے تعلق رکھنے والے ذو الفقار احمد چیمہ سیاست سے لا تعلق ایک خالصتاً پیشہ ور بیورو کریٹ ہیں ۔ لیکن ایک عرصے سے وزیر آباد کی قومی اسمبلی کی سیٹ ان کے خاندان کے پاس ہے ۔اپنے اسی خاندانی پس منظر کے باعث ن لیگی حکومت ختم ہونے پر و ہ ٹیوٹا کی سربراہی سے استعفیٰ دینے کیلئے وزیر اعظم عمران خان کے پاس پہنچ گئے ۔پھر کتنا برا ہوا کہ اس قحط الرجال میں اس رجل رشید کا استعفیٰ منظور کرلیا گیا۔ اس استعفیٰ کی منظوری نے کالم نگار کو بھی محمد عامر خاکوانی کا ہم خیال بنا دیاہے اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ کاش حکومت میں آنے سے پہلے عمران خان نے باب وڈ ورڈ کی کتاب ’’Agenda-Inside the Clinton White House‘‘پڑھی ہوتی ۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024