اسرائیلی بربریت، بچوں سمیت مزید 4 فلسطینی شہید: امریکی فیصلے کیخلاف غم و غصے کی لہر جاری
واشنگٹن‘مقبوضہ بیت المقدس ( این این آئی‘اے این این ‘نیٹ نیوز) مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت بنانے کے امریکی فیصلے کیخلاف دنیا بھر میں غم و غصے کی لہر جاری ہے۔ اسرائیل نے بمباری کر کے دو بچوں سمیت مزید 4فلسطینیوں کو شہید کر دیا۔ روس کے وزیر خارجہ سر گئی لاروف نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیلی ریاست کا دارالحکومت قرار دینے کے فیصلے کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ا نہوں نے کہا ٹرمپ نے القدس کے حوالے سے یک طرفہ فیصلہ کرکے عالمی معاہدوں کی کھلی خلاف ورزی کی ہے۔انہوں نے اپنے امریکی ہم منصب ریکس ٹیلرسن سے ٹیلیفون پر بات چیت کی اور کہا کہ روس امریکا کی طرف سے صدی کی ڈیل کو مشرق وسطی میں فلسطین اسرائیل تنازع کے منصفانہ تصفیے کے طور پردیکھ رہا تھا مگر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فلسطینیوں اور اسرائیل کے مطالبات کو ایک ہی ضرب میں حل کرنے کے بجائے صرف اسرائیل کی حمایت کی ہے۔ اسرائیل کے عبرانی ذرائع ابلاغ نے دعوی کیا ہے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دیے جانے کے فیصلے پر اسرائیل کو غیر متوقع رد عمل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ عالمی رد عمل اسرائیل کے لیے حیران کن ہے۔مصرکی سب سے بڑی دینی درس گاہ جامعہ الازھر ایک بار پھر القدس کے حوالے سے اپنا دیرینہ موقف دہرایا ہے۔ جامعہ الازھر نے کہا ہے کہ اسرائیل ایک غاصب اور قابض ریاست ہے۔ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت کیسے بنایا جاسکتا ہے اورامریکی سفارت خانے کو بیت المقدس منتقل کرنے کا کیا جواز ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی صدر نے فیصلے سے ایک روز قبل فلسطینی صدر محمود عباس کو اس بات سے آگاہ کیا کہ وہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو ساتھ ہی انہوں نے محمود عباس کو یہ بھی باور کرایا کہ ان کے پاس ایک امن منصوبہ تیاری کے مراحل میں ہے جس کا مقصد فلسطینیوں کو راضی کرنا ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق ایسا نظر آتا ہے کہ ٹرمپ کی اس بات کا مقصد بیت المقدس کے حوالے سے اپنے فیصلے کے اثرات پر روک لگانا ہے جو اس مسئلے پر طویل عرصے سے قائم امریکی پالیسی کی مخالفت کرتا ہے۔بھارت میں فلسطینی سفیر نے کہا وزیر اعظم نریندر مودی جلد ہی فلسطین کا دورہ کریں گے۔ تا ہم بھارتی وزارت خارجہ کے ایک اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ ہمیں وزیر اعظم کے کسی دورے کے منصوبے کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے اور فلسطینی سفیر کے بیان پر ہماری طرف سے کوئی تبصرہ کرنا فی الوقت مناسب نہیں ہو گا۔مسجد اقصی کے امام وخطیب اور فلسطین کے جید عالم دین الشیخ عکرمہ صبری نے کہا پوری مسلم امہ بالخصوص فلسطینی قوم کی نظریں استنبول میں ہونے والی عالمی اسلامی کانفرنس پر مرکوز ہیں۔ توقع ہے کہ ترکی کی میزبانی میں ہونے والی عالمی اسلامی کانفرنس میں القدس کے حوالے سے ٹھوس اور فعال فیصلے کیے جائیں گے۔روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن اپنے ترک ہم منصب سے ملاقات کیلئے ترکی کا دورہ کریں گے جہاں وہ امریکا کی جانب سے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے اور شام کے تنازع پر مذاکرات کریں گے۔امریکہ کے صدر منتخب ہونے سے صرف آٹھ ماہ قبل ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ میں اسرائیلی لابی کے سب سے طاقتور گروپ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ایران کے ساتھ جوہری کو توانائی کے معاہدے کو ختم کر دیں گے اور امریکی سفارت خانے کو بیت المقدس منتقل کر دیں گے۔امریکہ نے اس تاثر کی تردید کی ہے کہ صدر ٹرمپ کی جانب سے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے اعلان کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ مشرقِ وسطی میں جاری امن عمل سے دستبردار ہوگیا ہے۔صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وائٹ ہائوس کی ترجمان سارہ ہکابی سینڈرز نے کہا کہ بیت المقدس سے متعلق اپنے خطاب میں صدر ٹرمپ نے واضح کردیا تھا امریکہ پہلے کی طرح ہی امن عمل سے منسلک ہے اور وہ فریقین پر مذاکرات اور بات چیت کے لیے دباو ڈالتا رہے گا۔امریکی صدر ٹرمپ کے بیت المقدس کے بارے میں اشتعال انگیز اعلان کے بعد فلسطینی تیسرے روز بھی سراپا احتجاج رہے جبکہ اس دوران صہیونی فوج کی بمباری سے دو بچوں سمیت مزید 4افراد شہید ہو گئے جس کے بعد 24گھنٹوں میں شہادتوں کی تعداد 8ہو گئی۔اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس نے حماس کی جانب سے غزہ سے راکٹ فائر کیے جانے کے جواب میں فلسطین کے عسکری گروپ حماس کے خلاف فضائی کارروائیاں کی ہیں۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ ہفتے کی صبح کی جانے والی کارروائیوں میں ہتھیار تیار کرنے والے ایک مرکز اور اسلحے کے گودام کو نشانہ بنایا گیا۔امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے کہا ہے کہ اسرائیل میں امریکی سفارت خانے کو فوری طور پر یروشلم منتقل کرنا ممکن نہیں ہے، اس میں سالوں لگ سکتے ہیں۔میڈیارپورٹس کے مطابق انہوں نے کہا کہ تل ابیب سے امریکی سفارت خانے کی منتقلی کے لیے کئی برس درکار ہیں۔ پیرس میں اپنے فرانسیسی ہم منصب ژاں ایو لیدریاں کے ساتھ ملاقات کے بعد ایک مشترکہ کانفرنس میں ایک سوال کے جواب میں کہی۔ ٹلرسن نے کہاکہ رواں یا اگلے برس کے دوران ایسا ممکن نہیں ہو سکتا۔دریں اثناء انڈونیشیا کی وزارت خارجہ نے امریکی سفیر کو دوبارہ طلب کرلیا، اور متنازع بیان پر وضاحت طلب کرلی۔