نواز شریف کی پارٹی پر گرفت مضبوط، میدان قومی اسمبلی الیکشن میں لگے گا: بی بی سی
اسلام آباد (بی بی سی) نواز شریف کی اپنی سیاسی جماعت مسلم لیگ (ن) پر گرفت بظاہر مضبوط سے مضبوط ہوتی جارہی ہے۔ وہ نااہل کئے جانے کے باوجود اپنی جماعت کے دوبارہ سربراہ منتخب ہو چکے ہیں۔ اقتدار سے الگ ہو جانے کے باوجود وہ تقریباً ایک وزیر اعظم جیسی حیثیت حاصل کئے ہوئے ہیں لیکن انکی اصل مضبوطی 2018ءکے عام انتخابات میں ان کی کامیابی کو سمجھا جائیگا۔ فی الحال تو انکے ایک بڑے حامی مسلم لیگ (ن) کو دھچکا دینے والے تمام واقعات کو اگلے برس کے سینٹ کے انتخابات سے جوڑ رہے ہیں، یعنی ساری سازشیں مسلم لیگ (ن) کی سینٹ کے 2018ءکے انتخابات میں متوقع کامیابی کو روکنے کیلئے کی جا رہی ہیں۔ لیکن دیکھنے کی بات یہ ہے کیا واقعی سینٹ کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی کامیابی نواز شریف کو اسکے سیاسی زوال سے بچا سکے گی۔سینٹ کی ویب سائٹ کے مطابق سینٹ میں اس وقت مسلم لیگ (ن) کے 26 جبکہ پیپلز پارٹی کے 27 ارکان ہیں۔ ایم کیو ایم کے ارکان نے حالیہ قانون سازی کے دوران مسلم لیگ (ن) کا ساتھ دیا تھا۔ اس لحاظ سے سینٹ میں ایم کیو ایم کے ارکان کو مسلم لیگ کی حامی جماعت سمجھا جا سکتا ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے 6 ارکان، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے 5 ارکان، نیشنل پارٹی کے 3 ارکان، پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے 3 ارکان، بلوچستان نیشنل پارٹی (ایم) کا ایک رکن اور بلوچستان نیشنل پارٹی (اے) کے دو ارکان بھی مسلم لیگ (ن) کے حامی ارکان سمجھے جاسکتے ہیں۔ ان جماعتوں کے ارکان کسی نہ کسی سطح پر مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں یا تو براہ راست شریک ہیں یا بالواسطہ طور پر اس حکومت سے مستفید ہو رہے ہیں۔ قبائلی علاقوں کے 10 ارکان عموماً وفاقی حکومت کے ساتھ ہی چلتے ہیں۔ان اعداد و شمار کو سامنے رکھ کر اگر مسلم لیگ (ن) کی سینٹ میں طاقت کے بارے میں فراخدلانہ تجزیہ کیا جائے تو نظر آتا ہے حکمران جماعت کے پاس اس وقت بھی 104 کے ایوان میں 60 سے زیادہ ارکان کی حمایت موجود ہے۔ سینٹ انتخابات کے ممکنہ نتائج کو دیکھا جائے تو بعض تجزیوں کے مطابق مسلم لیگ (ن) کی نشستیں 26 سے بڑھ کر 30 ہوجائیں گی جبکہ آئین کے مطابق سینٹ میں کسی جماعت کی اکثریت سے نہ بجٹ کی منظوری پر کوئی اثر پڑ سکتا ہے اور نہ ہی حکومت سازی پر۔ ان حالات میں دیکھنا پڑے گا پھر مسلم لیگ (ن) کے حامی تجزیہ کار اور لیڈرسینٹ انتخابات کو اپنی سیاسی لڑائی کیلئے ایک بڑا سنگ میل کیوں قرار دے رہے ہیں۔ نواز شریف کی کوشش ہے۔ وہ اسٹیبلشمینٹ مخالف جہموری حلقوں اور اپنے ووٹ بینک کو زیادہ سے زیادہ فعال کر سکیں جس کے نتیجے میں ایک ایسی تحریک بن سکے جو انہیں اگلے برس کے انتخابات میں کامیابی دلا سکے۔ پس منظر میں یہی نظر آتا ہے کہ سینٹ کے انتخابات میں کامیابی کا پردہ رکھ کر مسلم لیگ ن اس وقت قومی اسمبلی کے عام اتخابات کیلئے مقبولیت کی ایک تحریک چلانے کی کوشش کر رہی ہے۔ غالباً مسلم لیگ (ن) کی اس حکمت عملی کو اس کے مخالفین بھی سمجھ چکے ہیں۔ اور انہوں نے اسکے مقبولیت کے گراف کو جھکانے مسلم لیگ (ن) پر اسکے اپنے گھر میں جا کر حملہ کیا ہے۔ اِدھر ا±دھر کے الزامات کے ذریعے کوئی بھی حکومت 14 افراد کے پولیس فائرنگ میں ہلاک ہونے کے واقعے کی ذمہ داری سے راہِ فرار اختیار نہیں کر سکتی۔ ماڈل ٹاو¿ن کا واقعہ ایسا ہے جس پر نوازشریف کے برادرِ خورد شہباز شریف کی پنجاب حکومت بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ غالباً اسی لیے پیپلز پارٹی کے رہنما آصف زرداری نے پاکستان عوامی تحریک کے ڈاکٹر طاہرالقادری کے ساتھ شہباز شریف کے استعفیٰ کا مطالبہ کردیا ہے اور تحریک انصاف کے عمران خان بھی اسی مطالبے کی حمایت میں کھڑے ہونے کو تیار ہیں۔دیکھنا پڑے گا کیا نواز شریف اس ووٹ بینک کو اسٹیبلشمینٹ مخالف نعرہ یعنی ’مجھے کیوں نکالا؟‘ بلند کر کے بچا سکیں گے؟ یا انہیں کچھ اور بھی کرنا ہوگا!
بی بی سی/ نوازشریف