قرونِ وسطیٰ کا دور اور مسلمان
قرون وسطی ٰ کا دور طلوع اسلام اور اسلامی عروج وارتقاء کا دور ہے۔ اس دور میں مسلمانوں نے ایک طرف سیاسی اورعسکری فتوحات کے ذریعے ایک عالم کو اپنا زیر نگیں بنایا تو دوسری طرف انہوں نے علم و اور تہذیب کے میدان میں وہ ترقی کی جس کی مثال تاریخ میں پیش کر نے سے قاصر ہے۔ ساتویں صدی عیسوی کے اوائل میں مدینہ طیبہ میں اسلامی ریاست کی ابتدا ء ہوئی اور نویں صدی عیسوی کے وسط تک اسلامی سلطنت کی حدود شمال میں بحیرہ اسود ، جنوب میں ملتان ،مشرق میں سمرقند اور مغرب میں فرانس اور ساحل اوقیانوس تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس زمانے میں بغداد ، ایران ، مصر ، سپین اور سسلی سے اسلامی علوم و فنون اور تہذیب و تمدن کی نورانی لہریں اٹھ رہی تھیں اور ایک عالم کو بقعہ نور بنا رہی تھیں۔ مسلمان جہاں گئے وہاں خوبصورت عمارتوں ، رنگا رنگ پارکوں ، سڑکوں ، نہروں ، باغات ، پلوں ، تالاب ، مدرسوں اور کتب خانوں کا جال بچھا دیا۔ انہوں نے دنیا بھر سے علمی شاہپارے جمع کیے ، انہیں جہاں بھی کسی عالم کی موجودگی کا علم ہوا اسے دربار خلافت میں بلا کر علم کی خدمت پر لگا دیا۔ انہوں نے علما ء کی حوصلہ افزائی کی جس کے نتیجے میں علماء نے یونان کے فلسفہ کو عربی میں منتقل کیا۔ اس کی خامیاں تلاش کیں اور انہوں نے اس جامد فلسفہ کو اپنے مسلسل تجربات کے ذریعے انسانیت کی فلاح اور ترقی کے لیے استعمال کیا۔ ان کی ان مسلسل کو ششوں سے اسلامی شہروں اور ان شہروں میں بسنے والوں کی جو کیفیت تھی اس کی ایک جھلک پیش خدمت ہے۔
عہد مامون (813ء تا 833ئ) میںبٖغداد کی آبادی دس لاکھ تھی جس میں تیس ہزار مساجد ، دس ہزار حمام ، ایک ہزار محل اور آٹھ سو آٹھ اطباء تھے۔ نیز ایک دارالحکومت تھاجس میں ایران ، عراق ، شام ، مصر اور ہندوستان کے سینکڑوں حکماء دنیا بھر کے علوم وفنون کو عربی میں منتقل کر رہے تھے۔ سڑکوں پر ہر روز گلاب اور کیوڑے کا عرق چھڑکا جاتا تھا۔د مشق میں سو حمام ، سو فوارے ، چھ سو مساجد اور بے شمار باغات تھے۔ آبادی ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ تھی۔ شہر کا طول بارہ میل اور عرض تین میل تھا۔ یہاں ولید اول نے ایک مسجد تعمیرکروائی جس پر بارہ ہزار مزدور آٹھ سال تک کا م کرتے رہے۔
رابرٹ بریفالٹ لکھتا ہے کہ عربوں کے نفیس کتانی، سوتی ، اونی اورریشمی لباس ، بغداد کے حریر و پر نیاں ، دمشقی مشجر ، موصل کی ململ ، غازہ کی جالی، غرناطہ کے اونی کپْرے ، ایرانی تافتہ اورطرابلس کے شیفون نے یورپ کی نیم برہنہ آبادی کو اعلیٰ لباس کا شوقین بنا دیا۔ اس قسم کے مناظر اکثر دیکھنے میں آئے کہ بشپ گرجے میں عبادت کر رہا ہے اور اس کی عباپر قرآنی آیات کاڑھی ہوئی ہیں۔ مرد تو رہے ایک طرف عورتیں بھی عربی قمیص اور جبہ بڑے فخر سے پہنتی تھیں۔ سپین اور سسلی میں بے شمار کر گھے تھے۔ صرف اشبیلیہ میں سولہ ہزار تھے قرطبہ میں ریشم بافوں کی تعداد ایک لاکھ تین ہزار تھی۔ سسلی کے پایہ تخت میں تین ہزار سے زیادہ جامہ باف تھے ۔ ان کی تیار کردہ عبائوں ، قبائوں اور چادروں پر قرآنی آیات بھی رقم ہوتی تھیں جنہیں عیسائی بادشاہ اور پادری فخر سے پہنتے تھے ۔ سسلی میں عیسائی عورتیں نقاب اوڑھتی تھیں۔
عبدالرحمان سوم ( 912 ء تا 961 ئ) کے زمانے میں قرطبہ کی آبادی پانچ لاکھ تک پہنچ گئی تھی۔ اس میں سات سو مساجد ، تین سو حمام ، ایک لاکھ تیرہ ہزار مکانات ، اکیس مضافاتی بستیاں اور ستر لائبریریاں تھیں۔ اس میں شیشہ سازی اورچمڑہ رنگنے کے کارخانے بھی تھے۔ مسلمانوں نے سسلی میں نہریں نکالیں۔ دور دور سے شفتالو اورلیموں وغیرہ کے درخت منگا کر لگائے۔ کپاس اور نیشکر کو عام کیا۔ ریشم کو رواج دیا۔ تعمیرات میں سرخ و سفید پتھر استعمال کیا۔ نوکدار محرابوں ،آرائشی طاقچوں ، جالیوں اور میناروں کو مقبول بنایا۔ محلات ومساجد پر خط طغرائی میں آیات نویسی کا سلسلہ شروع کیا۔ جابجا درس گاہیں اورکتب خانے قائم کیے۔ ایک سو تیرہ بندرگاہیں بنائیں اور وہاں کے لوگ اسلامی تہذیب سے اس قدر متاثر ہوئے کہ ان کا لباس ، تمدن ، نظام تعلیم اور رہن سہن سب کچھ اسلامی سانچے میں ڈھل گیا۔ (جاری ہے)
(جاری ہے)