سندھ کے شہری علاقوں کی سیاست نئے موڑ پر
سندھ کی سیاست میں ایم کیو ایم کے عروج و زوال کی وجہ سے بتدریج تبدیلی آتی ہے ۔ 23اگست2016کو نئی ایم کیو ایم پاکستان جو 33سالہ اور اگر اسکی جدوجہد کے لحاظ سے دیکھا جائے تو 39سالہ سیاسی تاریخ رکھتی ہے۔پارلیمنٹ کی سیاست میں اسکا کردار 30سالہ ہے۔ نومبر1987میں پہلی مرتبہ یہ جماعت بلدیاتی اداروں میں منتخب ہوکر آئی۔1988میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں پہنچی ۔ پہلا اتحادپاکستان پیپلزپارٹی کے ساتھ کیا۔ سندھ اور وفاق میں وزارتیں بھی ملیں۔ دوسرا اتحاد مسلم لیگ ن سے 1990میں ہوا۔ تب سے آج تک ایم کیو ایم کسی نہ کسی اتحاد میں شامل رہی۔ 2013کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے باوجود ایم کیو ایم نے اپوزیشن بنچوں کا چنائو کیا۔ تمام تر پیشکشوں کے باوجود وہ اب جبکہ اسمبلی اپنی مدت پورے کرنے کے قریب ہے اپوزیشن کا حصہ ہے۔اپوزیشن میں آنے کے بعد سندھ اور وفاق نے ایم کیو ایم کو آڑہے ہاتھوں لیتے ہوئے اسے کرش کرنے کے منصوبے کو عملی جامہ پہنایا۔ ہمارے خیال کے مطابق ایم کیو ایم کے خلاف حکومتوں کی چارج شیٹ اور ریزرویشنزکچھ اس طرح تھیں۔1۔ یہ کسی بھی وقت آنکھ بدل لیتی ہے2۔ حکومتوں کے گرانے میں کردار ادا کرتی ہے 3۔ بقول حکومتوں کے بلیک میل کرتی ہے4۔ ایم کیو ایم کے بانی جس سے ملتے ہیں اسکی ریکارڈنگ کر کے وقت آنے پر اسے بے نقاب کرتے ہیں۔5.۔ایم کیو ایم کے ہوتے ہوئے کراچی اور سندھ کے شہری علاقوں میں گرفت ممکن نہیں6۔ ایم کیو ایم غریب و متوسط طبقہ کے عوام کو ملک بھر میں پھیلا کر خطرہ بن سکتی ہے7۔ بلدیاتی سسٹم گراس روٹ لیول کا لا کر چوہدریوں ، وڈیروں کی سیاست میں مشکلات لا رہی ہے8۔ زرعی ٹیکس کا مطالبہ کرکے چوہدریوں اور وڈیروں کو زچ کرانا چاہتی ہے۔8۔ ایم کیو ایم کی گرفت بہت مضبوط ہے اسکے ورکرز بہت چارجڈ ہیں اسکی تقسیم ضروری ہے9۔ ایم کیو ایم کے اندر تباہی پیدا کی جائے10۔ انہیں اقتدار میں الجھا کر رکھا جائے11۔ انہیں اقتدار میں رکھ کر اپنی من مانی کی جائے احتجاج کریں تو جانے دیا جائے پھر منا کر واپس لایا جائے12۔ ایم کیو ایم کے مطالبات کو الجھا کر رکھا جائے انکی بات ایک آدھ مان کر اپنا الو سیدھا کیا جائے۔یہ حکومتوں کے Main Objectivesرہے ہیں۔ اس مرتبہ حکومتوں کو یہ موقع ایم کیو ایم کے بانی نے خود فراہم کردیا۔ ایم کیو ایم پاکستان کے موجودہ سربراہ ڈاکٹر محمد فاروق ستار نے 23اگست2016کو بانی ایم کیو ایم سے لاتعلقی اور ایم کیو ایم پاکستان کو امن پسند ، کرپشن فری، کرمنلز فری Criminals Freeکے طور پر پیش کیا ۔ ایم کیو ایم پاکستان پر سیاسی پنڈتوں نے اعتماد نہیں کیا اور یہ پروپیگنڈہ کیا جاتا رہا کہ یہ لندن کی جماعت ہے یہ سیریل ٹو ہے فاروق ستار رابطہ میں ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ رانا مبشر کے پروگرام میں ڈاکٹر محمد فاروق ستار نے قران مجید پر حلف لیکر الطاف حسین اور لندن سے تعلق کی نہ صرف تردید کی بلکہ کہا کہ انکی جماعت کا بانی ایم کیو ایم سے نہ تعلق ہے نہ ہوگا۔ اسکے بعد اب بحث بھینس کے آگے بین بجاناہے۔اب ان سوالوں کے جوابات جو ہماری تحقیقات کے مطابق ہیں ۔ 1۔ یہ بات درست ہے کہ یہ کسی بھی وقت آنکھ بدل لیتی ہے۔ایم کیو ایم کا اس معاملہ میں طرز عمل متعدد معاملات میں درست رہا۔ جب شہری علاقوں کو نظر انداز کیا جاتا تھا تو اسکا آنکھ بدلنا بنتا تھا۔2۔ یہ الزام ایسا ہی ہے جیسے یہ کہنا کہ ایم کیو ایم کا وزیر اعظم آسکتا ہے۔ ایم کیو ایم نے حقوق اور مظلوم عوام کے حوالے سے مثبت جدوجہد کی اور ہر حکومت کے پاس ہاتھ بڑھایا کہ وہ نا انصافیوں کا ازلہ کریں ۔ ناکامی پر ان سے منہ موڑ لیا۔ تحریری معاہدوں کو ہی دیکھ لیا جائے کہ ان پر کتنا عمل ہوا؟3۔ حکومتوں کو عوام کے حقوق کے لئے بلیک میل کرنا کوئی بلیک میلنگ نہیں ایم کیو ایم نے بلدیاتی نظام گراس روٹ لیول تک کرانے کے لئے بل منظور کرایا جسے قوم پرستوں کے ساتھ ملکر پی پی پی نے ایم کیو ایم کے اپوزیشن میں جاتے ہی مسترد کرکے نیابل منظور کرادیا یہ عمل کئی بار ہوا ایم کیو ایم حکومت میں تو بل منظورباہر تو مسترد۔ سندھ اسمبلی کو مذاق بنا دیا گیا۔ تمام نکات کے جواب میں یہ کہ ایم کیو ایم کو 1988سے پسندنہیں کیا گیا جب پہلی مرتبہ13کرتا پاجامہ پہنے اراکین قومی اسمبلی ایم کیو ایم ایوان پہنچے تو ایوان کے ہر فرد کی نگاہ ان پر تھی۔ پارلیمانی لیڈر ڈاکٹر عمران فاروق اور میئر بلدیہ عظمی کراچی ڈاکٹر محمد فاروق ستار کی سربراہی میں یہ افراد اسمبلی میں مہاجر مقدمہ پیش کرکے آئے۔ ایم کیو ایم کے تمام اراکین اسمبلی غریب و متوسط طبقہ سے تعلق رکھتے تھے ان میں بیشتر کی یہ اوقات بھی نہیںتھی کہ وہ ایک ہینڈبل بھی چھپوالیتے۔ اس سے قبل گنا بیچنے والے کو ڈپٹی میئر حیدرآباد بنایا گیا تھا۔ یہ ہی جرم اصل ہے جسکی چارج شیٹ تیار ہوئی اور ریڈ ٹیپ ایم کیو ایم پرلگ گیا۔ یہ نظام کے خطرہ ہیں یہ چوہدریوں وڈیروں ، زمینداروں کی چھٹی کرادیں گے۔ انہیں آگے نہ بڑھنے دو۔ اگر اسوقت یہ ہوتا کہ اچھی روایت بنتی اور انکی تقلید کی جاتی تو آج ملک ترقی کی طرف گامزن ہوتا۔ پانا ما لیکس، پیرادائز لیکس کی نوبت نہ آتی نہ کسی کا سرے محل نہ سوئس اکائونٹ۔ ایم کیو ایم پاکستان 23اگست کے بعد کئی کامیابیاں حاصل کرچکی ہے ۔ 30دسمبر کو نشتر پارک میں شاندار جلسہ عام ، 13اپریل کو چار یونین کونسلوں کی کامیابی، 23اپریل کو شاندار کراچی ریلی، 21مئی کو حیدرآباد ریلی، 5نومبر کو لیاقت آباد میں شاندار احتجاجی جلسہ اس کی انفرادی حیثیت منوا چکا ہے ۔ اب ایم کیو ایم پاکستان میرپورخاص ، نواب شاہ ، سکھر اور 8دسمبر کو حیدرآباد اکبری گرائونڈ میں جلسہ کرنے جا رہی ہے جو اسکی شہری علاقوں پر گرفت مضبوط کریگا۔ شہری علاقوں کی سیاست میں اب تبدیلی آرہی ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان اپنی ساکھ دوبارہ قائم کرتے ہوئے اہم رول ادا کرنے جارہی ہے جو عوام کی جانب سے پیغام ہے کہ ایم کیو ایم کو ختم اور تقسیم نہیں کیا جاسکتا۔ ہم بھی اپنے اس کالم میں ارباب اختیار کو مشورہ دیں گے کہ وہ اب تجربے بند کرکے ایم کیو ایم پاکستان کو مکمل آزادی دیں ۔