جمہوریت ہی پاکستان کا مستقبل ہے
پاکستان آرمی کے سربراہ جنرل قمر باجوہ نے جمعرات کو کوئٹہ میں ایک انتہائی ا ہم خطاب کیا۔جو ساری پاکستانی قوم کے لیئے توجہ کاطالب ہے۔ سب سے پہلے تو انہوں نے جمہوریت پر اپنے غیر متسز لزل یقین کو دہرایا۔انہوں نے کہا کہ "میں جمہورت پسند ہوں اور ووٹ کی طاقت اہم ہے "۔آرمی چیف نے کہا کہ "حکومت کرنا فوج کا کام نہیں "۔فوج ،سیاست دانوں ،سب نے غلطیاں کیں لیکن اب وقت آگیا ہے کہ سب اپنا اپنا کام کریں "۔ اس کے ساتھ ہی جنرل باجوہ نے پاکستان کے سب سے اہم مسلئہ کی نشاندہی کی کہ "پاکستان کی ترقی کے لیئے میرٹ کی بالادستی ،تعلیم ،انتظامی امور میں بہتری کی ضرورت ہے "۔جمہوریت کے سلسلے میں یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ آرمی چیف نے کہا ہے کہ پاکستان صرف جمہوری عمل کے ذریعے ہی ترقی کرسکتا ہے۔لیکن جمہوریت کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ہم عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے کے بعد عوام کی خدمت کرنے کے بجائے اپنے مفاد کو ترجیح دیں۔ انہوں نے یہ بات بھی زور دے کر کہی کہ سیاست دانوں کے پاس عوام کے ووٹوں کی طاقت ہوتی ہے ،جو کسی بھی طاقت سے زیادہ اہم ہے۔اس کے بعد ان تمام شکوک کو ملک میں ختم ہوجانا چاہیئے کہ جس میں یہ اندیشہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ کہیں حکومت یا جمہوریت کے معاملات میں فوج کوئی مداخلت کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے۔ یہ بڑا واضح بیان ہے اور فوج کی جانب سے جمہوریت کے لیئے ایک کمیٹمنٹ ہے۔ اب سیاست دانوں کو اپنے فروعی معاملات میں الجھنے کے بجائے جمہوریت اور ملک کی ترقی کی طرف اپنی تمام توجہ مرکوز کر دینی چاہیئے۔ عوام اس بات سے بہت تنگ ہیں کہ ہمارے سیاست دان آئے دن نئے نئے مسائل پیدا کرتے ہیں۔خواہ مخواہ اسے بحث مباحثے کا موضوع بناتے ہیں اور اس پر ڈٹے رہتے ہیں۔جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ملک میں آج ایک جمود سا طاری ہے اور لوگوں کو یہ سمجھ نہیں آرہا کہ وہ ترقی کہ سمت میں کیسے بڑھیں گے۔ جس مفاد پرستی کی جانب جنرل باجوہ نے اشارہ کیا ہے اس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اقتدار کی خاطر اختلافات کو دشمنی کی حد تک لے جانا کسی طور بھی جمہوریت اور ملک کے لیئے کسی طور سود مند نہیں۔ کیا پارلیمان موجود نہیں ؟۔ کیا سیاست دانوں کے لیئے ضروری نہیں کہ وہ اس محترم ایو ان میں قانون سازی کرکے لوگوں کی بہتری کے لیئے سہولتیں پیدا کریں ،ان کی تکالیف کو دور کریں اور جن مسائل میں ملک گھرا ہوا ہے اس سے نکالنے کی کوشش کریں۔ آج کل تو پارلیمان میں ڈرامہ بازی ، نعرہ بازی ، احتجاج ،شور شرابہ کرنا اور دستاویزات کو پھاڑنے کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔ لوگ اپنے نمائندوں سے یہ توقع رکھتے ہیں ،کہ وہ پارلیمان میں جاکر ان کی خاطر بحث مباحثے کے بعد یکجہتی کا مظاہرہ کریں گے۔لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مفاد پرستی اور اقتدار کی حوس نے ان سیاست دانوں کو اتنا اندھا کردیا ہے کہ ملکی مفاد تو ایک طرف، یہ اختلاف اور دشمنی کے فرق کو بھی بھول گئے ہیں اور ہر وقت ایک دوسرے سے دست بہ گریباں رہتے ہیں۔دوسری اہم بات جس کی جانب آرمی چیف نے ساری قوم کی توجہ مبذول کروائی وہ ہے ملک کا تعلیمی نظام اور ہماری ترجیحات کیا ہیں۔۔۔اس سلسلے میں جنرل باجوہ نے کہا کہ "اس وقت ملک میں اسکولوں سے زیادہ مدارس ہیں ،ملک بھر میں پھیلے مدارس زیادہ تر دینی تعلیم دے رہے ہیں ،تاہم اب اس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے "۔انہوں نے کہا کہ "ملک میں مدارس کی تعلیم ناکافی ہے کیونکہ یہاں جدید دور کے لحاظ سے طلبہ کی تربیت نہیں ہو پارہی۔جنرل قمر باجوہ نے کہا کہ وہ مدارس کے خلاف نہیں لیکن ہم مدارس کا اصل مقصد بھول چکے ہیں "۔انہوں نے کہا کہ ہمیں طلبہ کو جدید تعلیم دینے کی ضرورت ہے۔جنرل قمر باجوہ کا قومی تعلیم سے متعلق یہ فکر انگیز تجزیہ پاکستان کے 20 کروڑ عوام کے لیئے ایک ا لارم کی طرح ہے۔حکمرانوں ،پارلیمان ،سیاسی جماعتوں، اہل دانش، مذہبی لیڈروں ، علماء اور ملک کے عوام کو اس بات پر غور کرنا چاہیئے کہ ہم نے تعلیم کے ساتھ گزشتہ 70 برسوں میں کیا تماشہ کیا ہے!۔آخر ہم اپنی قوم اور ملک کے لیئے تعلیم کی ایک سمت متعین کرنے میں کیوں ناکام رہے۔ ہر لیڈر ، دانش ور اور عالم ،قوم کو یہ تو درس دیتا ہے کہ اسے ایسا کر نا چاہیئے اور ویسا کرنا چاہیئے۔ لیکن خود بحثیت رہنما ان کو کیا کرنا چاہیئے کبھی اس پر غور نہیں کیا۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ کیونکہ لوگ ان پر اعتماد کرتے ہیں اس لیئے وہ جو چاہیں کرسکتے ہیں۔ ان مختلف طبقوں کے لیڈروں نے کبھی یہ غور کرنے کی کوشش نہیں کہ جب یہ خود ایک ساتھ متحد نہ ہو سکے تو وہ عوام کو کیسے قائل کرسکتے ہیں کہ وہ یکجا رہیں۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ انہوں نے تعلیم کا ستیاناس مارنے کے بعد قوم کو تقسیم در تقسیم کردیا ہے۔ آج کی مسلم قوم کے لیئے جدید تعلیم کس قدر ضروری ہے یہ با لکل فراموش کر بیٹھے ہیں۔طلبا کی تربیت پر ان کی کوئی توجہ نہیں انہوں نے نوجوانوں کو ایک کرنے کے بجائے ،پارٹی ،سیاست ،اور نظریات کے نام پر یونیورسٹی ،کالجوں اور مدارس میں ایک دوسرے کے خلاف لڑنے پر اکسایا۔جس مذہب کا پہلا لفظ "اقرا" ہو اس کے ماننے والوں نے اسے بھلا کر اپنے آپ کو جاہلیت ،تعصب ، فرقہ واریت اور سیاسی دشمنیوں میں مبتلا کرلیا ہے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ، جس قوم کی سب سے پہلی ترجیح تعلیم و تربیت ہو، تو دنیا میں اس کو عروج حاصل کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔