پولیس اہلکار زیر حراست افراد پر تشدد نہ کریں
ملک میں پولیس کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے پولیس اہلکاروں وافسران کو جدید تربیت کے ساتھ ساتھ بہتر اسلحہ ومواصلاتی نظام اور دیگر سہولتیں فراہم کرنے کی جانب اقدامات عمل میں لائے جارہے ہیں۔لیکن اس بات کی طرف توجہ نہیں دی جارہی کہ پولیس کا رویہ عوام کے ساتھ شائستہ اور اخلاقی اقدار سے قریب ہونا چاہیے ۔یہی وجہ ہے کہ عوام اور پولیس کے درمیان مؤثر اعتماد کا فقدان ہے ۔ اس ضمن میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ جب پولیس اہلکار کسی قانون شکن شخص کو حراست میں لیتے ہیں تو اس پر تشدد رو ا رکھتے ہیں۔غیر قانونی اجتماعات،جلوس، جلسے، دھرنے وغیرہ کے خلاف جب پولیس اقدامات کرتی ہے تو یہ بات بھی مشاہدہ میں آئی ہے کہ حراست میں لینے کے بعد پولیس اہلکار اس شخص پر لاٹھیوں ، لاتوں اور گھونسوں کا استعمال کرتے ہیں جو قطعی مناسب نہیں ہے کیونکہ پولیس کی حراست میں آنے کے بعد اس شخص یا ملزم کی حفاظت کرنا پولیس اہلکاروں پر لازم ہوتا ہے ۔اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ پولیس اہلکاروں کو اس ضمن میں انسانی حقوق کی پاسداری کے قوانین اور حراست میں لینے کے پیشہ ورانہ طریقہ کار سے آگاہی اور خصوصی تربیت دی جائے کہ وہ شہریوں کے ساتھ ناروا سلوک نہ رکھیں ۔پولیس اہلکاروں کو اعلیٰ اور جدید تربیت اسی لیے فراہم کی جاتی ہے تاکہ وہ سڑکوں پر قانون ہاتھ میں لینے والوں کے خلاف اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے مؤثر کارروائی عمل میں لاسکیں کیونکہ جلوس ، جلسے ،دھرنے وغیرہ کو کہا جاتا ہے کہ یہ جمہوریت کا حسن ہے لیکن یہ کہنے والے بھول جاتے ہیں کہ اس کی وجہ سے ہزاروں اور لاکھوں افراد اپنی روز مرہ زندگی کی مصروفیات میں خلل پڑنے کی وجہ سے مالی مشکلات کا شکار ہوجاتے ہیں ۔مریض علاج نہ ہونے کی وجہ سے مزید مشکلات کا شکار ہوتے ہیں ۔ٹریفک کی روانی متاثر ہونے سے پیٹرول کے اخراجات میں اضافہ ہوجاتا ہے لہٰذا س بات پر غور کرنا چاہیے کہ کسی بھی صورت میں سڑکوں کو بند نہیں ہونا چاہیے تاکہ زندگی کی معمولات ہر صورت میں جاری رہیںجو کہ ہر شخص کا بنیادی حق ہے ۔حراست میں لیے جانے والے افراد پر پولیس والوں کو قطعی طور پر تشدد نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اگر کوئی شخص قانون شکنی کا مرتکب ہوتا ہے تو اس کو قانونی تقاضوں کے مطابق سزا دی جاتی ہے ۔ پولیس اہلکاروں کو چاہیے کہ اگر زیر حراست شخص ان پر پتھراؤ کرنے کا مرتکب ہوا ہے تو اس کے جواب میں اپنے غصے پر قابو پایا جائے اور اس کے جرم کی سزادلوانے کے لیے قانونی تقاضوں کے مطابق کارروائی عمل میں لائی جائے۔پولیس کے اس رویے کے پیش نظر عوام کا بھی پولیس پر اعتماد ختم ہورہا ہے اور جرائم میں اضافہ ہورہا ہے اس کی وجہ عوام کا پولیس سے تعاون نہ کرنا ہے ۔اگر پولیس کا اخلاق عوام کے ساتھ دوستانہ ہوجائے تو جرائم پر قابو پانے میں عوام ان کی مدد کرنے میں آگے بڑھیں گے۔پولیس اہلکاروں کو غیر قانونی اجتماعات، جلوسوںمیں شامل لوگوں سے نمٹنے کے لیے خصوصی تربیت کی جانب بھر پور توجہ دی جائے اور مظاہروں سے نمٹنے کے دوران انھیں اپنی حفاظت کے لیے تمام ضروری سامان فراہم کیا جائے تاکہ وہ غیر مسلح افراد سے نمٹنے اور ان کو حراست میں لینے کے لیے اپنی صلاحیتوں کو مؤثر انداز میں استعمال کرسکیں۔مظاہروں میں شامل افراد کو حراست میں لیتے وقت کوشش کرنی چاہیے کہ جدید ٹیکنالاجی یعنی تصاویر ، ویڈیووغیرہ سے مدد لینی چاہیے تاکہ ثبوت کے ساتھ اصل ملزمان حراست میں لیے جاسکیںاور اس طرح پولیس کے محکمہ کو بدنامی سے بھی بچایا جاسکے۔ہر مظاہرہ/ اجتماع کے مقام پر مجاز افسر کو 24 گھنٹے موجود رہنا چاہیے تاکہ مظاہرین کی جانب سے قانون ہاتھ میں لینے والے مظاہرین کے خلاف اقدامات کی نوعیت کا وہ افسر فیصلہ کرسکے اور ذمہ داری سنبھال سکے۔سرکاری افسران کو بڑی بڑی مہنگی گاڑیاں اور دیگر بہتر سہولتیں سرکاری افسران کو حکومت کی جانب سے فراہم کی گئی ہیں جس کی وجہ سے وہ ایک آرام دہ زندگی گزار رہے ہیں۔لہٰذا قانون اور انصاف کے مطابق اپنی ذمہ داریاں نبھانے کے بھی وہ پابند ہیں۔اہلکاروں کوکارروائی کرتے ہوئے اس بات کا خاص خیا ل رکھنا چاہیے کہ وہ پارٹی نہیں ہیں بلکہ عوام کی بھلائی اور قانون شکنی سے باز رکھنے کے لیے اقدامات کررہے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی غور طلب ہے کہ پتھراؤ وغیرہ جیسے الزامات کے تحت حراست میں لیے جانے والے افراد کے خلاف بھی دہشت گردی جیسے مقدمات قائم کیے جارہے ہیں لہٰذا اس جانب فوری اور خصوصی توجہ کی ضرورت ہے کہ جب مقدمات قائم کیے جائیں تو دیگر جرائم کے قانون اور دہشت گردی کے قانون کے تحت قائم کیے جانے والے مقدمات کا بغور جائزہ لیا جانا چاہیے کیونکہ اگر توجہ نہ دی گئی تو اس کی وجہ سے مختلف پیچیدگیاں اور قانونی بحران پیدا ہوسکتے ہیں جس سے جرائم میں ملوث افراد اور دہشت گردوں کے درمیان فرق کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتاہے۔اس کے علاوہ اگر افسران کو قانون کی دفعات لگانے کا اختیار ان کی صوابدید پر چھوڑدیا جائے گا تو اس کی وجہ سے رشوت ستانی میں اضافے کے امکانات پیدا ہوجائیں گے اور بااثر افراد اپنی من پسندقانونی دفعات لگانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔