دنیا کا ہر طاقتور شخص کبھی نہ کبھی مکافاتِ عمل کا شکار ہو ہی جاتا ہے جب آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہوں گے ٹھیک اس وقت چیف جسٹس کسی ضیافت میں الوداعی خطاب کر رہے ہوں گے۔ چیف جسٹس کا عرصہ بطور سپریم کورٹ جج اور چیف ایک عشرہ پر محیط ہے ہم اس کو تین حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ پہلا جب 12 اکتوبر 1999ءکو جنرل پرویز مشرف نے اپاہج جمہوریت پر لولہ لنگڑا شب خون مارا تھا۔ اس فوجی ایکشن کو اس وقت کی سپریم کورٹ نے جائز اقدام قرار دیا تھا نہ صرف یہ بلکہ چیف ایگزیکٹوکے طور پر آئین میں تبدیلی کا اختیار بھی دے دیا۔ یہ وہ اضافی سہولت تھی جس کی جنرل مشرف نے سپریم کورٹ سے ڈیمانڈ تک بھی نہ کی تھی اور افتخار احمد چوہدری اس خصوصی بنچ کا حصہ تھے۔ عسکری قیادت اور عدلیہ کے تعلقات بخیر و خوبی انجام پا رہے تھے۔ واقفانِ حال بتاتے ہیں کہ معاملات شاید اسی خوش اسلوبی سے چلتے رہتے کہ ایوانِ صدر میں ہونے والی ایک تقریب کے دوران اس وقت کے وزیراعظم شوکت عزیز کے ساتھ ہونے والی بدمزگی نے معاملات کو اس نہج پر پہنچا دیا کہ آخر جنرل مشرف کو اپنے جمہوری سیٹ اپ کو بچانے کیلئے چیف جسٹس کو بلوا کر استعفیٰ طلب کرنا پڑا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ایک نہیں دو بار پی سی او کے تحت حلف اٹھایا اور اس طرح انہوں نے ذاتی مفادات کے رستے میں آنے والی آئینی اور قانونی دیواروں کو خود ہی مسمار کیا۔ اس سارے ڈرامے کا دوسرا حصہ جسٹس افتخار محمد چوہدری کی اس عدلیہ بحالی تحریک پر مشتمل ہے۔ یہ وہ دور تھا جب جنرل مشرف اپنے ساتھیوں کے ہاتھوں اندرونی اور بیرونی سازشوں کا شکار تھے امریکہ اب اس سے جان چھڑانا چاہتا تھا ا س لئے این آر او کو جنرل مشرف پر مسلط کیا گیا جبکہ دوسری طرف سعودی عرب اور شریف برادران واپسی کی حکمت عملی ترتیب دے چکے تھے یہی وجہ ہے کہ ڈالروں اور ریالوں کی بوریوں کے ڈھیر وطن عزیز میں اُمڈ آئے اور نا مساعد حالات کے باوجود ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت مستحکم رہی۔ عدلیہ بحالی تحریک کو بلاشبہ اندرونِ ملک مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی مکمل سپورٹ حاصل تھی۔ دوسری طرف ملک بھر کے ایک لاکھ وکلا حضرات عدالتوں میں عدالتی کام ٹھپ ہونے کے باوجود ایک لمبا عرصہ کیسے سروائیو کر گئے یہ ایک سوالیہ نشان ہے؟
عدلیہ بحالی تحریک میں سب سے زیادہ پیپلز پارٹی نے جانی نقصان اٹھایا۔ پیپلز پارٹی کے کارکنان اور لائیرز فورم نے سینکڑوں جانوں کی قربانیاں دیں۔ سانحہ کارساز اور اسلام آباد بم دھماکہ اسی تحریک کا نتیجہ تھے۔ اسلام آباد پہنچنے کے بعد شہید محترمہ بے نظیر بھٹو جب پارٹی آفس پہنچیں تو وہاں پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ جس گھر میں چیف جسٹس کو مقید رکھا گیا ہے وہاں محترمہ جائیں۔ محترمہ نے چیف جسٹس کے گھر کے باہر گاڑی کی چھت سے باہر نکل کر میگا فون پر جنرل مشرف کو للکارا اور کہا کہ افتخار محمد چوہدری ہمارے چیف جسٹس ہیں۔ محترمہ کے اس لب و لہجے سے ایک طرف تو جنرل مشرف انتہائی پریشان ہوئے اور دوسری طرف وکلاءتحریک کو کافی تقویت ملی۔ اسی دوران محترمہ کی شہادت کا سانحہ رونما ہوا اور بعدازاں پیپلز پارٹی الیکشن جیت کر اقتدار میں آ گئی اور پہلے سے طے شدہ منصوبہ بندی کے مطابق آصف علی زرداری نے اس طریقے سے پتے کھیلے کہ جنرل مشرف کو بادل نخواستہ اقتدار چھوڑنا پڑا مگر وکلاءکی تحریک ابھی جاری تھی اور ملک کا ایک مخصوص طبقہ اور شریف برادران اس کو فُل سپورٹ کر رہے تھے اور پھر ایک پہلے سے تیار شدہ منصوبہ جس کو مسلم لیگ ن، عدلیہ، پیپلز پارٹی اور فوج کی درپردہ حمایت حاصل تھی کے تحت لانگ مارچ کا اعلان کر دیا گیا جو چیف جسٹس کی بحالی پر منتج ہُوا۔ اس سیریز کا تیسرا حصہ بھی پہلی دو قسطوں سے کم بھیانک اور خطرناک نہیں تھا۔ ملک بھر کی سول اور اعلیٰ عدالتوں میں جو لاکھوں کیسوں کی فائلیں پڑیں تھیں ان سے ایک امید سی بندھی کہ اب عدلیہ کا بول بالا ہوگا۔اب سستے اور فوری انصاف کی عملداری ہو گی۔ نئے نیب چیئرمین کا تقرر ہُوا اور پھر سوموٹوز کا ایسا دور شروع ہوا اور ایسے محسوس ہُوا کہ پورا نظام مفلوج ہو کر رہ گیا ہے۔ انتظامی افسران کو روزانہ کی بنیاد پر حاضری دینے کیلئے اسلام آباد بلایا جانے لگا۔ سٹیل مل اور رینٹل پاور کیس سمیت این آر او اور سوئس کیسز ری اوپن کر دیئے گئے اور پھر چار سال تک نہ ختم ہونے والی ڈرامہ سیریل شروع کر دی گئی۔
اصغر خاں کیس کا فیصلہ سامنے آیا اور سوئس کیس میں وزیراعظم گیلانی کو نااہل قرار دے کر گھر بھیج دیا گیا۔ مگر وہ لوگ جن پر سوئس کیسز تھے وہ اپنے 5 سال پورے کرکے ریڈ کارپٹ پر گارڈ آف آنر لے کر رخصت ہوئے اور سوئس کیسوں پر سینکڑوں ارب روپے خرچ کر کے بھی نتیجہ صفر رہا۔ سانحہ 12 مئی کراچی کے ملزمان آج بھی دندناتے پھر رہے ہیں۔ لاپتہ افراد کے کیس کو ایک ٹی وی ڈرامہ کی سیریل کے طور پر پیش کر کے عوام کا دھیان کسی اور سمت موڑا گیا اور اس مشق کا نتیجہ کیا برآمد ہُوا؟ 5 سال کے عرصہ کے دوران دہشت گردوں کو سزا دینے کی بجائے باعزت بری کیا جاتا رہا۔ 50 ہزار سویلین اور 12 ہزار عسکری جوانوں کے قاتلوں میں سے کسی ایک کو بھی تختہ دار تک نہیں پہنچایا جا سکا۔ ڈرامے بازی کی جمہوریت اور ڈرامہ باز عدلیہ متعارف کرائی گئی۔ چیف جسٹس کے اپنے فرزند پر ملک کے ایک سرمایہ دار کی طرف سے اربوں روپے کے اثاثہ جات بنانے کا نہ صرف الزام لگایا گیا بلکہ ثبوت بھی میڈیا کے سامنے پیش کئے جاتے رہے جس کے خلاف کوئی بھی ایکشن نہیں لیا گیا اور آج عالم یہ ہے کہ علی احمد کرد، اعتزاز احسن، عاصمہ جہانگیر جیسے چیف جسٹس کے دست راست چیف جسٹس سے اپنی راہیں جُدا کر چکے ہیں۔ خود موجودہ حکمران، موجودہ عدلیہ اور چیف صاحب سے اس حد تک خوف زدہ ہو چکے ہیں کہ چیف کی ریٹائرمنٹ کا انتظار کاﺅنٹ ڈاﺅن واچ لگا کر رہے ہیں۔ چیف صاحب آپ کو ریٹائرمنٹ کی زندگی مبارک ہو مگر یہ انصاف جسے آپ ادھورا چھوڑ کر جا رہے ہیں ایک دن کہیں آپ کے شب و روز کو پریشان نہ کر دے کیونکہ مکافاتِ عمل کا اختیار رکھنے والی ایک سپریم عدالت اور بھی ہے جس کے کٹہرے میں ہر ایک کو کھڑا ہونا پڑے گا۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024