ہفتہ‘ 4 صفر المظفر1446ھ ‘ 10 اگست 2024

حکومت کا جینا حرام کرنے کا ٹاسک نہیں ملا۔ گورنر کے پی کے کی وزیر داخلہ سے ملاقات۔
فیصل کریم کنڈی اور علی امین گنڈا پور سیاسی و انتخابی حریف بھی ہیں۔ اس تکون میں مولانا فضل الرحمن بھی شامل ہیں۔ گنڈا پور گرفتار ہوئے ان کے لمبے بال کٹے تو کہا گیا مولانا نے کٹوا دیئے ہیں۔ مگر بال کٹنے پر کبھی گنڈا پور نے شکوہ نہیں کیا۔ گھر کی کھیتی ہے پھر اگ آئے ہیں۔ گنڈا پور دبنگ لہجے اور خضابی مونچھوں کے ساتھ حریفوں کا مقابلہ کرتے ہیں۔ حلقے میں ان کا پلڑا بھاری رہتا ہے۔ آج کل مولانا اور گنڈا پور کے مابین سیز فائز ہے۔ معاملات گاڑھی چھیننے کی طرف جا سکتے ہیں جبکہ کنڈی کے ساتھ ان کے سینگ اورکنڈی پھنسی رہتی ہیں۔ دونوں صوبوں کے بڑے عہدوں پر براجمان ہیں۔ ایک دوسرے کو دھمکیاں لگاتے ہیں۔ دھمکیوں کے لئے جس انرجی کی ضرورت ہوتی دونوں ملک و قوم کے وسائل سے حاصل کرتے ہیں۔ اٹھا کر پھینک دوں گا، گھسیٹوں گا۔ ایک دوسرے کے لیے ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔بندہ دو چار جماعتیں پڑھا ہو تو کم از کم انداز گفتگو تو شائستہ ہوتا ہے۔ ڈگری ہولڈرز دونوں ہیں۔بقول اسلم رئیسانی کے ڈگری ڈگری ہوتی ہے اصلی ہو یا جعلی۔ کنڈی صاحب کو اگر حکومت کا جینا حرام کرنے کا ٹاسک مل جاتا تو کیا کرتے؟ گنڈا پور کے راستے میں کیل کانٹے بکھیر دیتے۔ باورچی سے مل کر کھانے میں نمک مرچ تیز یا ہلکی کرا دیتے۔ وزیر اعلیٰ ہاو¿س کا مین بریکر اٹھا دیتے۔یا شہد کی بوتلوں میں پانی ملا دیتے۔آخر جینا حرام کرنے کے لیے کچھ تو کرتے۔ ایمل ولی خان نے کہا ہے کہ انہیں دس لاکھ روپے بجلی کا بل آیا ہے کچھ بیچ کر ادا کرنا پڑے گا۔ دونوں میں ہونے والی نوک جھونک پرایمل ولی نے کہا کہ ان کے علاقوں میں حکومتی رٹ نہیں ہے۔ شام کے بعد پولیس تھانوں سے باہر نہیں نکلتی۔ یہ تو راز کی باتیں ہیں جو ایمل ولی طشت ازبام کر رہے ہیں۔وزیر اعلیٰ اور گورنر پانچ پانچ لاکھ روپے ڈال کر بل ادا کر دیں۔ ورنہ مزید راز افشاءکر سکتے ہیں۔
بھارت نے بنگلہ دیش سے غیر ضروری سفارتی عملہ واپس بلا لیا۔
عجب بات ہے کہ بھارت کی طرف سے بنگلہ دیش میں غیر ضروری عملہ بھی تعینات کر دیا گیا تھااور یہ غیر ضروری عملہ اتنی زیادہ اہمیت کا حامل نکلا کہ ان کی جانوں کی حفاظت کے پیش نظر ان کو فوری طور پر اپنے ملک واپس آنے کا کہہ دیا گیا۔جبکہ ضروری عملے کو اسی ملک میں رہنے دیا گیا جو غیر محفوظ ہو چکا ہے۔ گویا ضروری عملے کی حفاظت کی ضرورت نہیں ہے۔ویسے تو آج کل بنگلہ دیش میں خود بنگالی بھی محفوظ نہیں ہیں جس نے خود کو سب سے زیادہ غیر محفوظ خیال کیا وہ بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ تھیں جو ملک ہی نہیں بلکہ وزارت عظمی کا حسین عہدہ اور بھرا پرا محل چھوڑ کر بھارت چلی گئیں۔جس طرح کہتے ہیں اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا۔اسی طرح ضروری عملے کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ ا±دھر بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کے ملک سے راہ فرار اختیار کرنے کے بعد ڈاکٹر یونس گرامین بینک والے بنگلہ دیش پہنچ کر عبوری حکومت کے سربراہ کا حلف اٹھا چکے ہیں۔وہ فرانس میں موجود تھے ،کھڑے تھے ،بیٹھے تھے یا لیٹے ہوئے تھے۔اچانک ان کے سر پر ھما آ کر بیٹھ گیا۔ان کی تو لاٹری نکل آئی۔ پرانے زمانوں میں اعتقاد تھا کہ جس کے سر پر ہما بیٹھ جائے وہ بادشاہ بن جاتا ہے جدید دور میں جس کے کندھے پر کبوتر بیٹھ جائے اس کی پارٹی جیت کر اقتدار میں آ جاتی ہے۔ہمارے ملک میں بھی ہما کئی سروں پر بیٹھتے رہے ہیں۔کسی دور میں معین قریشی کوبھی پاکستان میں وزیراعظم بننے کے لیے اسی طرح طلب کیا گیا تھا۔ان کا جہاز راستے میں تھا ان سے اچکن کے بارے پوچھا گیا جو ان کے پاس نہیں تھی تو انکے سائز کے بندے کے ناپ کی ایمرجنسی میں شیروانی سلوائی گئی تھی۔
اینٹی کرپشن حکام کی حراست سے فرار ہونیوالے رکن اسمبلی امتیاز چوہدری دوبارہ گرفتار۔
فاضل رکن اسمبلی کا تعلق گجرات سے ہے۔ یہ آزاد رکن اسمبلی ہیں؟ انکاشمار پی ٹی آئی میں ہوتا ہے یا یہ سنی اتحاد کونسل سے تعلق رکھتے ہیں؟ اس بارے میں بہت سوں کو کنفیوڑن ہے۔شاید ان کو خود بھی ہو۔آج کل یہ بحث عام ہے کہ کون 47 اور کون 45 والا ہے۔بلے کا نشان حاصل کرنے کی کوشش کرنے والے کئی امیدوار آزاد حیثیت سے جیت کر قومی اسمبلی میں چلے گئے۔ سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں کے فیصلے کے بعد اب ان سے سوال ہوتا ہے 45 والوں میں ہو یا 47 والوں میں۔امتیاز چوہدری بھی انہی میں سے ایک ہیں۔ان کو چند روز قبل گرفتار کیا گیا تھا۔محکمہ اینٹی کرپشن والے ان کو عدالت میں پیش کرنے کے لیے گجرات سے منڈی بہاو¿الدین لے جا رہے تھے کہ کار سواروں ان پر فائرنگ کر دی اور اس ٹیم سے امتیاز چوہدری کو اڑا کر فرار ہو گئے۔ملزم ہاتھ سے گیا محافظوں کی جان بچی اور فائرنگ میں محفوظ بھی رہے سو لاکھوں پائے۔ملزم ہاتھ سے گیا خصماں نوں کھائے۔بعد میں وہاں سے گولیوں کے خول ملے یا نہیں؟ ہو سکتا ہے پھوکے فائر کیے ہوں ؟ اب خبر آئی ہے کہ اینٹی کرپشن حکام کی حراست سے فرار ہونے والے پی ٹی ا?ئی رکن اسمبلی امتیاز چوہدری کو دوبارہ گرفتار کرلیا گیاہے۔ اینٹی کرپشن حکام نے امتیاز چوہدری کو ملتان ائیرپورٹ سےگرفتار کیا جہاں سے وہ قطر فرار ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔ امتیاز چوہدری کا نام اسٹاپ لسٹ میں تھا۔ان کے فراریت کے دورانیے میں سپیکر کی طرف سے ان کے پروڈکشن آرڈر جاری کئے گئے تھے۔مگر جب بندہ ہی اسمبلی میں نہ جانا چاہے اولمپکس فرانس میں ہو رہے ہیں وہ قطر جانا چاہے تو سپیکر کیسے پروڈیوس کراسکتا ہے۔ملزم کی کہیں نہ کہیں شناخت پریڈ بھی ہوتی ہے اس میں یہ بھی دیکھا جائے کہ یہ وہی امتیاز چوہدری ہے جس کی اینٹی کرپشن کو تلاش تھی؟۔کیا وہ اپنے آپ کو دو چار دن غائب رہنے کے بعد ایم این اے کہتے ہیں یا سینٹر کہنے لگ پڑےہیں۔اپنا شمار 45 میں کرواتے ہیں یا 47 میں یا کہہ دیتے ہیں میں تین میں ہوں نہ 13 میں۔ یارو مجھے معاف کرو میں نشے میں ہوں۔
حکمرانوں کی غفلت اپنی جگہ، کیا ہم نے بھنگ، ستو پی لئے: فاروق ستار۔
چہک چہک کر باتیں کرنے والے فاروق ستار کے چہرے پر غصہ سجتانہیں۔مگر عوام کو مشکلات میں دیکھ کے ان سے رہا نہیں گیا۔عوام کو مشکل میں دیکھ کے وہ غصے میں لال پیلے ہو رہے ہیں ان کو طعنہ دے کر انگیخت بھی کر رہے ہیں کہ دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا۔بھنگ پی کربندہ مدہوش اور ستوپی کر سو جاتا ہے۔ ان کیلئے چین ہی چین ہوتا اور کوئی فکر فاقہ نہیں ہوتا۔ فاروق ستار نے کہا ہے کہ مہنگائی، بیروزگاری، بجلی کی لوڈ شیڈنگ کیخلاف اب شرافت کے ساتھ شاہراہ فیصل، ایم اے جناح روڈ پر اسمبلی سجائیں گے۔ "شرافت کیساتھ" کہنے کی ان کو کیوں ضرورت پیش آئی۔کراچی والے تو ایک عرصہ سے آپ کی اور آپکی پارٹی کی شرافت کے قائل ہیں۔کہیں شرافت تولوں ماشوں اور چھٹانکوں میں ملتی ہے۔ آپ کے ہاں تو شرافت کی بوریاں بھری پڑی ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ہر چیز خریدنے پر ہم ٹیکس دیتے ہیں، انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس کے بعد بھی بھتہ لیا جاتا ہے۔یہ ایم کیو والوں سے بھتہ کون لیتاہے اگر کوئی لیتا ہے تو کسی کا حق مارتا ہے اور حق مارنا ظلم ہے۔
 ایم کیو ایم کے کسی دور میں سربراہ رہنے والے فاروق ستار باور کراتے ہیں کہ ا?زاد کشمیر والوں نے سیدھی انگلی سے گھی نہ نکلا تو انگلی ٹیڑھی کی۔کیا ایم کیو ایم بھی ایسا ہی کرنے کا عزم ہمت اور ارادہ رکھتی ہے۔عوام تو مائل بہ احتجاج ہیں مگر ان کے احتجاج کو کبھی یرغمال بنا لیا جاتا اور کبھی نظریات کو بیچ کھایا جاتا۔ایم کیو ایم کبھی کراچی حیدرآباد میں اتنی پاور فل ہوتی تھی کہ چڑیا بھی پر مارنے کیلئے اجازت کی طلبگار ہوا کرتی تھی۔اپ چڑیاں انکے قریب سے چہچاتی دوسرے لفظوں میں قہقہے لگاتی، پھدکتی پھڑپھڑاتی گزر جاتی ہیں۔یہ سوچیں کہاں سہو ہوا، کہاں غلطی اور کہاں بلنڈر ہوا ہے۔

ای پیپر دی نیشن