اگست کا مہینہ ہے اس مہینے میں ہمیں آزادی ملی تھی۔ جن لوگوں نے ہجرت کے مناظر دیکھے ہیں وہ چیزیں آج بھی ان کے ذہنوں پر نقش ہیں۔ جو ظلم ہجرت کرنے والے مسلمانوں پر ہوئے ہیں جو زخم لگے، جس طرح گردنیں کاٹی گئیں، معصوم بچوں کو آزادی کی سزا دی گئی، خواتین کی عصمت دری کی گئی ہمیں وہ سب یاد ہے۔ اپنے بزرگوں سے سنتے سنتے بڑے ہوئے ہیں۔ خوش قسمت ہیں کہ آج بھی نظریہ پاکستان کے فروغ کے لیے کام کر رہے ہیں۔ ہجرت کی تکالیف اپنے بزرگوں کی قربانیوں اور قربانیوں کا یہ انمول خزانہ نئی نسل کو منتقل کرتے رہتے ہیں۔ یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اس امانت اور علم کو نئی نسل تک پہنچائیں تاکہ انہیں یہ اندازہ ہو سکے کہ آزاد وطن کے لیے کتنی قربانیاں دی گئی ہیں اور اس ملک کی بنیاد کیا ہے۔ اس ملک کی بنیاد دو قومی نظریہ ہے۔ چودہ مئی انیس سو ستاون کو نوائے وقت میں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کا بیان شائع ہوا تھا۔ مادر ملت نے نظریہ پاکستان کے فروغ اور اس حوالے سے ہماری ذمہ داریوں کو نہایت احسن انداز میں بیان فرمایا ہے۔ محترمہ فاطمہ جناح نے فرمایا تھا کہ پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے اور عوام کو چاہیے کہ وہ اس مملکت کے بنیادی اصولوں کو یقین محکم بنائیں۔ آپ یاد رکھیں کہ مادی نقصان کی تلافی تو ہو سکتی ہے لیکن بنیادی نظریہ میں ہی یقین نہ ہو تو اس نقصان کی تلافی نہیں ہو سکتی۔ کیا آج حکمرانوں اور سیاست دانوں کو یہ الفاظ یاد ہوں گے یقیناً نہیں اگر ہوتے تو نظریہ پاکستان کے فروغ کے لیے یقیناً کام ہوتا نظر آتا۔ مادر ملت نے فرمایا تھا کہ آزادی کے تحفظ کے لیے ہمیشہ چوکنا رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ عوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے حقوق اور پاکستان کے بنیادی اصولوں پر کوئی زد نہ پڑنے دیں۔ جن لوگوں کو آج دفاعی بجٹ پر مروڑ اٹھتے ہیں ان کے سامنے محترمہ فاطمہ جناح کے یہ الفاظ دہرائے جانے چاہییں۔ ہمیں ہمیشہ کی طرح آج بھی اپنی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی 1957 میں تھی۔ محترمہ فاطمہ جناح نے فرمایا تھا کہ بہت ہی کم پاکستانیوں کا اس حقیقت کا احساس ہے کہ پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے۔ رنگ، نسل، زبان اور جغرافیہ کے بجائے اس ملک کی بنیاد نظریہ پر ہے اور وہ نظریہ یہ ہے کہ مسلمان ایک الگ جداگانہ قوم ہیں۔ اسلام اور پاکستان ہی دو ایسے رشتے ہیں جن سے محبت اس قوم کو متحد و مربوط رکھ سکتے ہیں۔
قارئین کرام یہ الفاظ ہم سب کے یاد رکھنے کے لیے ہیں۔ بنیادی طور پر اس نظریے کے فروغ کے لیے حکومتی سطح پر کام ہونا چاہیے تھا۔ بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو سکا۔ دو قومی نظریے کے فروغ اور ترقی کے لیے امام صحافت مجید نظامی مرحوم نے بہت کام کیا۔ اس حوالے سے ان کی خدمات سنہرے حروف میں لکھے جانے کے قابل ہیں۔ نظریہ پاکستان ٹرسٹ، ایوان کارکنان پاکستان کے پلیٹ فارم سے کام کر کے انہوں نے اپنی قومی ذمہ داری کو نبھایا ہے۔ وہ ایک بہترین ادارہ ہمیں دے کر گئے لیکن ان کے انتقال کے بعد یوں محسوس ہوتا ہے کہ ساری سرگرمیاں مجید نظامی کی وجہ سے ہی تھیں۔ نظریہ پاکستان ٹرسٹ کو قائد اعظم محمد علی جناح، محترمہ فاطمہ جناح کے پیغامات اور دو قومی نظریے کے فروغ، ترویج و ترقی کے لیے ملک کے بڑے تعلیمی اداروں کے ساتھ مل کر مستقل بنیادوں پر پروگراموں کا انعقاد ضروری ہے۔ اس ادارے کے ذمہ داروں پر بہت بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے اگر یہ ادارہ وہ ذمہ داری پوری نہیں کرتا تو مجید نظامی مرحوم کی روح کو تکلیف پہنچے گی۔ دو قومی نظریے کو عام کرنے کے لیے غیر معمولی اقدامات کی ضرورت ہے۔ تعلیمی اداروں، سرکاری دفاتر اور مدارس میں بھی مسلسل تقریبات منعقد کرنے کی ضرورت ہے۔ ان سب سے بڑھ کر اراکین پارلیمنٹ کے ساتھ بھی سیشن رکھنے چاہیے۔ تاکہ ملک چلانے والوں کو اندازہ ہو سکے کہ پاکستان بنانے والوں کی جدوجہد کی بنیاد کیا تھی۔ آج ہماری سیاست میں بھی نظریے کی کمی ہے۔ اگر سیاست اپنے نظریے پر قائم نہیں رہ سکتے تو کم از کم دو قومی نظریے پر قائم رہنے کے لیے ہی کچھ کام کر لیں۔ یہ سب کام کرنے کی ذمہ داری نظریہ پاکستان ٹرسٹ کو ہی اٹھانا پڑے گی۔
چودھری اقبال الدین احمد انگلینڈ سے لکھتے ہیں کہ ہر سال اگست کا مہینہ آتا ہے تو خیالات کی اڑان اگست 1947 کے اس دن کی طرف چلی جاتی ہے جب پرتاپ اخبار نے سرخی لگائی تھی کہ "پاکستان کا دارالخلافہ کراچی ہو گا" اور پڑھنے والے سکھ نے' رکھا سینی ' دوکاندار سے کہا " ْہن انہاں ْمسلیاں نو ں عرب جانا ای پویگا ، یا پھیر ایتھے ْچوہڑے چمار بن کے رہن گے"۔ یہ بات مشرقی پنجاب کے ' گھنولی ' ٹاؤن کی ہے جہاں پر ہمارا سکول تھا اور یہ روپڑ/ْروپ نگر کے نزدیک پڑتا ہے۔ اس علاقے کو ضلع ہوشیار پور سے صرف دریائے ستلج جدا کر تا ہے۔ ہمارا سکول جانے کا غالبا" وہ آخری دن تھا۔ ہمارا گاؤں 'چک کرماں' کے چالیس پچاس گھر کوہ شوالک کی پہاڑیوں کے اگلے حصے میں سطح مرتفع سے کچھ بلندی پر تھا۔ دوسرے ہی دن ہم نے اپنے مکانوں کی چھتوں پر چڑھ کر دیکھا کہ دریا ئے ستلج سے پار ہوشیار پور کے علاقہ میں ایک گاؤں کے بعد دوسرے سے ،پھر تیسرے سے ، غرضیکہ مسلمانوں کے تمام دیہات سے دھوئیں کے بادل نکلنے شروع ہو گئے۔ اور اس سات آٹھ میل کے فاصلے سے آگ کے شعلے صاف دکھائی دے رہے تھے۔ امن کے زمانے میں مسلمانوں کا خوب رعب اور دبدبہ تھا۔ لیکن اب مہاراجہ پٹیالہ اور دوسری ہندو ریاستوں کے تربیت یافتہ رضاکاروں اور ریٹائرڈ فوجیوں کا آپس میں را بطہ تھا۔ ہمارے دیہاتی مسلمانوں نے اقلیت میں ہونے کے باوجود بڑے جوش و خروش سے مسلم لیگ اور قائد اعظم کے نعرے لگا کر پاکستان کے حق میں ووٹ ڈالے تھے اور ہمارے بڑے بھائی نے تو اپنے گھر کی چھت پر مسلم لیگ کا جھنڈا بھی لگا دیا تھا یہ جھنڈا اونچی جگہ ہونے کی وجہ سے دور سے نظر آتا تھا۔ لیکن ایسے وقت کیلئے کسی کو تیار نہ کیا گیا تھا اور نہ ہی کوئی حفاظت کا انتظام کیا گیاتھا۔ سینکڑوں لوگ اپنی جانیں بچا کر اور دریائے ستلج عبور کرکے ہمارے علاقے میں آ گئے۔ دوسری طرف ہمارے علاقے کے ساتھ ریاست نالا گڑھ لگتی تھی جو روپڑ کی حدود سے شملہ تک جاتی تھی۔ وہاں کا راجہ رحمدل مانا جا تا تھا۔ اس کی رعایا کی بہت بڑی تعداد مسلم گوجروں پر مشتمل تھی۔ بلکہ جناب حاجی بدرالدین، حال مقیم کرسٹل پیلس، لندن کے مطابق یہ راجہ خود بھی گوجر تھا۔ ریاست میں ہونے کی وجہ سے ان کا ووٹ تو نہ تھا لیکن ان سب کی ہمدردیاں پاکستان کے ساتھ تھیں۔ روپڑ کے علاقے کے لوگوں کی رشتہ داریاں اس ریاست میں بہت تھیں اسلئے ہمارے علاقے کے بہت سے لوگوں نے اپنے بیوی بچوں کو اس ریاست میں اپنے رشتہ داروں کے ہاں پہنچا دیا تاکہ لڑنا پڑے تو ڈٹ کر مقابلہ کیا جا سکے۔ ریاست میں نہایت امن چین تھا۔ ایک دن پتہ چلا کہ ریاست کے موضع بھوگ پور اور بھانگلاں کے درمیان پہاڑی علاقہ پر مشتمل شاملات میں اردگرد کے دیہات سے مسلمان اکٹھے ہوئے ہیں۔ دوسرے یا تیسرے دن ان پر ایسا حملہ ہوا کہ خدا کی پناہ۔ یہ ایک قتل عام تھا جس کے دوران بہت سی عورتیں اٹھائی گئیں ان میں سے جو بچ گئے وہ رات کے وقت پہاڑوں کو عبور کرتے ہوئے ہمارے علاقے میں پہنچ گئے جسے 'انگریزی علاقہ' کہتے تھے۔ ان میں ہماری چچی بھی شامل تھی ، جن کا خاوند لاہور میں ملازم تھا اوروہ بھائی کے پاس بھانگلاں میں گئی ہوئی تھیں۔ بہت سے لوگ ہندو بن گئے اور جو راجہ کے ملازم تھے ان کو راجہ نے وقتی طور پر ہندو بننے کیلئے کہا اور ان کی حفاظت کا خود ذمہ لیا۔ ہمارے ایک عزیز نے ایسا ہی کیا لیکن اس کی بیوی 'مکابر'نے اسے کہا کہ اب نکاح ٹوٹ گیا ہے اور وہ راتوں رات پہاڑیوں ندی نالوں کو عبور کرتی اپنے ماں باپ کے پاس موضع احمد پور پہنچ گئی۔
ہمارے گاؤں میں پتہ چلا کہ روپڑ شہر کے ریلوے سٹیشن پر شیخ رحمت الٰہی اور شیخ تابعی کے خاندان کو پاکستان لے جانے کیلئے گاڑی لگ گئی ہے اور کوئی بھی مسلمان اس گاڑی میں پاکستان جا سکتا ہے۔ والد صاحب مرحوم اس میں جانے کیلئے تیار ہو گئے لیکن پھر گاؤں والوں کے اصرار پر رک گئے۔ بعد میں پتہ چلا کہ اس گاڑی کو سرہند شریف روک لیا گیا تھا اور شیخ تابعی اور شیخ رحمت الٰہی کے خاندان کے افراد کو چن چن کر شہید کیا گیا۔ روپڑ شہر کے اس شیخ خاندان نے 1937 ء کے لگ بھگ عید قربان کے موقع پر موضع ملک پور میں سکھوں اور مسلمانوں کے درمیان ہونے والی لڑائی میں ملک پور ، موضع دْگری اور ارد گرد کے دیہات سے جمع مسلمانوں کی مدد کی تھی۔ لڑائی کی وجہ یہ تھی کہ مسلمان سال ہا سال سے سڑک کے کناے بنی مسجد میں بقر عید پڑھتے اور وہیں پر قربانی دیا کرتے تھے۔ سکھوں نے بھی وہیں پر اپنا گردوارہ بنا لیا اور مسلمانوں کو قربانی دینے سے منع کرنے لگے۔ اس پر لڑائی ہوئی اور بہت سے سکھ مارے گئے۔ عدالت میں اس شیخ فیملی کی مدد سے کسی بھی مسلمان کو سزا نہ ہوئی۔ روپڑ کے ان شیخ حضرات نے ، 'میر' خاندان نے اور حافظ عبد ا لقادر روپڑی نے پاکستان بنانے کیلئے بھی بہت کام کیا تھا۔
بہر حال ہمارے علاقے کے لوگ بھی باہر نکل آئے جن میں چک کرماں، مرسالی، ڈنگولی، چرڑیاں، دھلو، مکوڑی ماجرا اور میسہ ٹبہ وغیرہ کے دیہات شامل تھے۔ اسی طرح نالا گڑھ سے، کچھ ہوشیار پور اور ہمارے علاقے کے لوگ ایک بہت بڑے 'بن جنگل' میں چھوٹے چھوٹے گروپوں میں تقسیم ہو کر خیمے لگا کر بیٹھ گئے۔ یہاں بھی سکھوں نے جو گھوڑوں پر سوار تھے ، بندوقوں سے حملہ کر دیا۔ سکھوں کے ساتھ دوسری جگہوں سے اٹھائی گئی مسلمان عورتیں بھی تھیں۔ مسلمانوں کو اللہ نے کامیاب کیا اور مسلمان عورتیں بھی چھڑا لی گئیں۔ کئی سکھ مارے گئے۔ کچھ دنوں بعد پتہ چلا کہ ہر طرف کے دیہات سے ہزاروں لوگ مولوی عبداللہ ) حافظ سعید کے ماموں (کی راہبری میں ' سنانا' کی 'ٹبیوں' میں خیمے لگا کر بیٹھ گئے ہیں۔ نوجوان مولوی عبداللہ ، جو ابھی غالبا" علی گڑھ میں ' بی اے' کے طالبعلم ہی تھے ، اس نے ہمیں بھی اپنے ساتھ آکر مل جانے کا پیغام بھیجا۔ اس طرح ہم بھی وہاں پہنچ گئے۔بزرگوں کے مطابق یہ جم غفیر تقریبا" ایک لاکھ افراد پر مشتمل تھا۔ مولانا عبداللہ کو 'امیر' مقرر کر لیا گیا۔ یہ جگہ چاروں طرف سے اونچی اونچی پہاڑی 'دھاروں 'سے گھری ہوئی تھی۔ مسلمانوں نے سکھوں کی فصلیں اجاڑنا شروع کردیں اس لئے ان سکھوں نے ان اونچی 'دھاروں' پر بیٹھ کر پہرہ دینا شروع کر دیا اور ہر روز ایک آدھ بار ' مٹھ بھیڑ' بھی ہو جاتی۔ ایک دن اتنے سکھ اسلحہ سے لیس آکر بیٹھ گئے کہ معلوم ہوتا تھا جیسے 'دکھن' سے گھٹا چڑھ رہی ہو۔ یہ خطرے کی گھنٹی تھی۔ مولوی عبداللہ نے بھی ایک پستول اور دو بندوقوں کے ساتھ اپنے جوانوں کو چوکنا کر دیا۔ مسلمانوں پر حملہ کر دیا گیا مگر اللہ نے مسلمانوں کو زبردست کامیابی عطا کی۔ اور کئی حملہ آور مارے گئے بقیہ بھاگ کھڑے ہوئے۔ دو تین ہمارے بھی شہید ہوئے۔مسلمانوں کا سب سے کارگر ہتھیار پتھر ثابت ہوئے۔ اور میرے بڑے بھائی احمد دین مرحوم کے مطابق ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے پتھر کسی 'پٹے' پر چل کر خود بخود ہاتھ میں آرہا ہے۔ )جاری ہے(
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024