تقسیم برصغیر کے وقت میری عمر تقریباً 14سال تھی اور میں اپنے خاندان کے ساتھ پائل شہر کے جمعہ محلہ جو اس وقت ریاست پٹیالہ کا حصہ تھا اس میں رہائش پذیر تھے ہم پانچ بہن بھائی تھے جن میں تین بھائی اور دو بہنیں شامل تھیں۔ پاکستان بننے سے چند دن پہلے کی بات ہے میں نے نانا کے گھر جانے کی خواہش ظاہر کی میری والدہ نے میرے والد جن کا نام نصیر دین تھا ان سے کہا کہ آپ کا بیٹا نانا کے گھر جانا چاہتا ہے۔ میرے والد صاحب نے کہا کل میں اپنے بیٹے کو نانا کے گھر چھوڑ آیا۔ ۔ اگلے دن مجھے میرے ابو نے کہا بیٹا تیار ہو جائو میں تمہیں تمہارے نانا کے گھر چھوڑ آئوں۔ یہ میری ماں اور بہن بھائیوں سے آخری ملاقات تھی جس کا ایک ایک لمحہ مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے میرے والد نے مجھے ساتھ لیا اور ہم سرہند بستی پہنچ گئے۔ چند دن بعد ریڈیو پر خبر نشر ہوئی مسلمانوں کا ایک علیحدہ ملک پاکستان بن گیا ہے۔ یہ اعلان ہونے کی دیر تھی کہ ہر طرف فساد، قتل و غارت شروع ہو گئی مسلمانوں کو ایک سازش کے تحت قتل کیا جا رہا تھا۔ جس میں اس وقت کی ملٹری اور سکھ شامل تھے۔ ایسی صورت حال میں میرے والد نے میری والدہ اور میرے بہن بھائیوں کو ساتھ لیا اور خاندان کے لوگوں کے ساتھ پاکستان کی طرف سفر شروع کر دیا میرے والد خاندان اور پائل شہر کے مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد اس پیدل قافلے میں شامل تھی۔ لوگ قافلے کی شکل میں ملیر کوٹلہ کی طرف سفر کر رہے تھے۔ جب پیدل قافلے نے کافی پیدل سفر کر لیا تو ایک جگہ قافلے کو آرام کرنے کے لیے روک لیا گیا لیکن قافلے میں موجود کسی فرد کو یہ معلوم نہیں تھا کہ ہمارے ساتھ کیا ہونے جا رہا ہے پٹیالہ ملٹری اور سکھوں نے قافلے کو چاروں طرف سے گھیر لیا تھا اور اچانک قافلے پر حملہ کر دیا،پٹیالہ ملٹری کے پاس جدید اسلحہ موجود تھا پٹیالہ ملٹری قافلے پر چاروں طرف سے گولیاں برسا رہی تھی
ہر طرف لاشیں ہی لاشیں تھیں کئی خاندان مکمل طور پر ختم ہو گئے جن کا نام لینے والا بھی اس دنیا میں نہیں بچا تھا۔ قافلے میں موجود 98فیصد لوگ اس حملے میں مارے گئے میرے خاندان کے تمام افراد والد، والدہ اور تمام بہن بھائی اس حملہ میں مارے گئے تھے۔ اس قافلے میں میرے خاندان کے صرف دو افراد زندہ بچ کر آئے تھے ایک میرا چاچا اور اس کا بیٹا باقی سارا خاندان ختم ہو گیا میں اپنے نانا کے گھر جانے کی وجہ سے بچ گیا تھا ۔میں بھی اپنے نانا کے خاندان کے ساتھ پاکستان کے لیے روانہ ہو گیا گھر سے صرف کھانے پینے کی اشیاء لی تھی۔ قریب ایک ریلوے اسٹیشن موجود تھا جہاں مسلمانوں کا کیمپ لگا تھا۔ اس کیمپ میں آس پاس کے دیہات کے زندہ بچ جانیوالے لوگ جمع ہو رہے تھے۔ جو مسلمان بھی قریبی گاؤں سے کیمپ میں آتا ہر ایک کی ایک درد بھری کہانی تھی کس کا بازو نہیں تھا کسی کے سر پر تلوار کا زخم تھا۔ کیمپ کے ارد گرد سکھ اور پٹیالہ ملٹری موجود تھی جنہوں نے لوگوں کو ڈرانا دھمکانا شروع کر دیا تھا اور ساتھ حملے کا ٹائم بھی دے دیا تھا۔ لیکن ہمارے قافلے میں پٹھان مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد موجود تھی جن کے پاس اسلحہ بھی تھا۔
کیمپ کے ارد گرد پٹھان اور پنجابی اسلحہ سے لیس پہرہ د ے رہے تھے جو ڈٹ کر پٹیالہ ملٹری کو للکار رہے تھے اگر ہمارے قافلے کی طرف ایک قدم بھی بڑھایا تو لاشیں بچھا دیں گے۔ ادھر پٹیالہ ملٹری نے دھمکی دی کہ آپ کا پاکستان ہم درھاے کی نہر کے پاس بنائیں گے۔ اسی کشمکش میں ایک سردارنی جو اس علاقے کی مشہور عورت تھی اور سربراہ بھی تھی آئی اس نے آتے ہی اعلان کیا کوئی سکھ اور پٹیالہ ملٹری والا مسلمانوں پر حملہ نہیں کرے گا یہ لوگ میرے علاقہ میں رہتے تھے جس نے کوئی غلط حرکت کی خود ذمہ دار ہو گا اس سردارنی کے اعلان کے بعد پٹیالہ ملٹری اور سکھ وہاں سے رفو چکر ہو گئے اور سردارنی کافی دیر تک ہمارے ساتھ کیمپ اور قافلے میں موجود رہی اور کچھ دیر بعد ایک خالی ٹرین اسٹیشن پر آن پہنچی جس پر لوگ سوار ہو رہے تھے ریل گاڑی کے ارد گرد لوگوں کا اتنا رش تھا کہ ٹرین کے ڈبے نظر نہیں آ رہے تھے ہماری خوش قسمتی یہ تھی کہ ریل گاڑی کے ساتھ کچھ مسلمان بلوچ ملٹری کے سپاہی بھی آئے تھے جنہوں نے مسلمانوں کا خوب ساتھ دیا۔ ٹرین نے آہستہ آہستہ اپنی رفتار پکڑی اور چلتی ہوئی جالندھر پہنچ گئی وہاں کچھ دیر روکنے کے بعد ٹرین دوپارہ پاکستان کے لیے روانہ ہوئی پٹڑی کے آس پاس کچھ سکھوں کی بڑی تعداد موجود تھی تاکہ ٹرین روکے اور ہم مسلمانوں کو ماریں اور لوٹ مارکریں ہماری ٹرین کے اوپر بلوچ ملٹری کے سپاہی پہرہ دے رہے تھے۔ لیکن یہ چند سپاہی تھے امر تسر گزرنے کے بعد ایک جگہ ٹرین کو روک لیا گیا اور کسی وجہ سے اس کا انجن اتار لیا گیا ۔بلوچ ملٹری نے عقلمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آگئے اطلاع دے دی جس کی وجہ سے پاکستان کی طرف سے ایک انجن آیا اور اس کو فوری ٹرین کیساتھ جوڑا گیا اور ٹرین پاکستان کی طرف دوبارہ چل پڑی کچھ دیر سفر کرنے کے بعد ٹرین ایک جگہ روکی کئی لوگ پریشان ہو گئے کہ پتہ نہیں اب کیا ہو گیا لیکن بلوچ ملٹری کا ایک سپاہی دوڑتا ہوا ٹرین کے پاس اور اس نے کہا ہم واہگہ بارڈر پہنچ گئے ہیں وہ سامنے پاکستان ہے یہ سننے کی دیر تھی ٹرین میں موجود ہر فرد کی خوشی دیکھنے کے لائق تھی ٹرین آہستہ آہستہ واہگہ سے پاکستان داخل ہو رہی تھی اور ساری ٹرین نعروں سے گونچ رہی تھی پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الاللہ ، پاکستان زندہ باد۔ مردوں کے ساتھ بچے اور عورتیں بھی پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہے تھے نعروں کی گونج کے ساتھ آہستہ آہستہ ٹرین پاکستان کے اسٹیشن پر رکی تو بہت سارے لوگ اترتے ہی سجدہ ریز ہو گئے ۔
پاکستان کو بنے ہوئے 72سال ہو گئے ہیں میں نے ساری زندگی اپنی ماں باپ بہن بھائیوں کے بغیر گزار دی لیکن آج تک پاکستان کے وجود کو اپنے خاندان سے زیادہ عزیز سمجھا میرے ایک سوال پر بابا جی آپ کے بہن بھائی ماں باپ کبھی یاد آئے تو بابا جی نے کہا میں اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں کو خواب میں دیکھتا ہوں کہ وہ ایک خوبصورت باغ میں موجود ہیں جس میں کلمہ بھی لکھا ہے۔ میرے خاندان نے کلمے کے نام پر بننے والے پاکستان کے لیے جان قربان کی ہے وہ تو سب جنت کے حقدار ٹھہرے۔ پاکستان زندہ باد۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024