ڈھونڈتی ہیں جس کو آنکھیں وہ تماشا چاہئے
’’پیچھے مڑ کر نہیں دیکھنا‘ تمام کشتیاں جلا دیں۔‘‘ کہہ کر وزیراعظم عمران خان طارق بن زیاد کے مقلددکھائی دے رہے ہیں۔ اسی کا نام عزم‘ استقامت اور استقلال ہے۔ دو مشکل سال گزر گئے۔ آگے بڑھنے کا وقت آگیا۔ زباں سے ہم نہیں کرتے یہ دعویٰ ہمیں کشمیر حاصل ہو گیا ہے۔ علیحدہ ہے ابھی‘ لیکن کم از کم وہ نقشے میں تو شامل ہو گیا ہے۔ کشمیری عوام کی آزادی کی منزل اب زیادہ دور نہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مسئلہ کشمیر 50 سال سرد خانے میں رہا۔ مودی سرکار نے گلگت بلتستان کو بھارت کا حصہ قرار دیتے ہوئے سیاسی نقشہ جاری کیا۔ ہم نے بھی نیا نقشہ جاری کیا۔ نئے سیاسی نقشے کو وزیراعظم عمران خان نے 73 سال پرانے تنازع کے حل کی سمت پہلا قدم قرار دیا ہے۔ یوم استحصال کشمیر پر وادی کشمیر کی داستان خونچکاں دنیا کے سامنے لائی گئی۔ منگولوں کی درندگی‘ عیسائی آرتھو ڈوکس کی حیوانیت‘ ہٹلر کی خونخواری اور اسرائیل کی شیطانیت کا اگر کہیں ملاپ دیکھنا ہو تو مقبوضہ کشمیر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ وادی جموں و کشمیر میں بھارتی فوج کے محاصرے نے ماضی کے محاصروں کو بھی مات دیدی۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی معاشی دہشت گردی سے ایک سال میں ہونے والے نقصان کی مالیت 950 ارب 18 کروڑ اور بیروزگاروں کی تعداد 499000 ہے۔ کشمیری خواتین قابض بھارتی فوجیوں اور پولیس اہلکاروںکی طرف سے انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کا شکار ہیں۔ 1989ء سے اب تک 11 ہزار کشمیری خواتین بھارتی افواج کی درندگی کا شکار ہو چکی ہیں۔ دنیا کی تاریخ میں پہلی بار بچوں پر پیلٹ گنز کے استعمال کا مکروہ فعل بھی بھارت کے حصے میں آتا ہے۔اپنے انتہاپسندانہ نظریات کے پرچار کیلئے مودی و ہٹلر دونوں کا طریق ایک جیسا ہی رہا۔ کشمیری طالبعلم آزادی کی جدوجہد کے ساتھ مودی کے تعلیم دشمن حملوں کا بھی مقابلہ کر رہے ہیں۔ اگر یہی حالات یہودی آبادی کو درپیش ہوتے تو کیا عالمی برادری کا رویہ یہی ہوتا؟ 80 لاکھ کشمیری جن مظالم کا سامنا کر رہے ہیں‘ عالمی برادری کی بے حسی اور انصاف کے اصولوں سے روگردانی بھارت کی سہولت کاری ہے۔ پاکستان گندم پیدا کرنے والے ممالک میں آٹھویں نمبر پر ہے‘ لیکن ذخیرہ اندوزی اور سمگلنگ سے گندم کی مصنوعی قلت پیدا کرکے کارٹلز مستفید ہو رہے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ زندگی پابندیوں سے آزاد ہونے جا رہی ہے۔ پہلے کی طرح ہر سمت چہل پہل دکھائی دے گی۔ آٹا چینی قیمتوں میں خودساختہ اضافہ پر عثمان بزدار برہم ہوئے ہیں۔ وہ کن کن خود ساختہ چیزوں پر برہم ہونگے۔ جس چیز میں انسانی اختیار کا عمل دخل ہے‘ وہ خودساختہ ہے۔ ڈاکٹر‘ ٹیچر‘ ٹیوٹر دھوبی‘ نائی‘ درزی‘ مستری‘ الیکٹریشن کے معاوضوں میں اضافہ خود ساختہ ہی تو ہوتا ہے۔ دودھ (50 فیصد پانی)‘ گوشت کی قیمتیں خود ساختہ نہیں‘ بیوٹی پارلر‘ ریستوران اور ہوٹلوں کے ریٹ خود ساختہ نہیں‘ مزارت پر پاپوش کی رکھوالی اور سائیکل سٹینڈ ز کے ریٹ خود ساختہ نہیں۔ اکیڈمیوں اور پرائیویٹ ہسپتالوں اور ہسپتالوں کے ریٹ خود ساختہ نہیں۔ رشوت کا ریٹ خود ساختہ نہیں۔ ’’تم کون کون سی نعمت کو جھٹلائو‘‘ کی طرح تم کون کون سی خود ساختگی پر برہم ہوگے۔ ایم ایل ون منصوبے کے تحت ریلوے کی موجودہ لائن کو چھ ارب 80 کروڑ ڈالر سے اپ گریڈ کیا جائے گا۔ ٹرینوں کی رفتار 110 کلومیٹر سے 165 کلومیٹر فی گھنٹہ ہو جائے گی۔ ٹرینوں کی تعداد 137 تا 171 ٹرینیں یومیہ ہو جائے گی۔ لاہور تا کراچی سفر سات گھنٹوں میں ختم ہو گا۔ 27 قیمتی سرکاری جائیدادیں نیلام ہونے جا رہی ہیں تو میو گارڈن لاہور اور وحدت کالونی قیمتی اراضی اربوں میں نیلام ہو سکتی ہے۔ میو گارڈن ریلوے یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی میں بدل سکتا ہے۔ ہر ضلع میں سرکاری افسروں کے سرکاری محلات بھی نیلام کر دئیے جائیں عملاً سادگی سابق ایرانی صدر احمدی نژاد نے فلیٹ میں رہ کر پیش کی تھی۔ کیا گریڈ 19 سے 22 تک کے افسروں کے لیے فلیٹوں میں رہنا شرمناک ہو گا؟ محمد خان جونیجو نے افسروں کو چھوٹی گاڑیوں میں بٹھانا تھا کہ وزارت عظمیٰ سے ہاتھ دھو بیٹے تھے۔ مریم اور شہباز کی نیب میں طلبی حیران کن نہیں البتہ بزدار کی طلبی خالی از حکمت دکھائی نہیں دیتی۔ انسداد دہشت گردی ترمیمی بل اور اقوام متحدہ سلامتی کونسل ترمیمی بل کی سینٹ اور قومی اسمبلی میں منظوری کے بعد پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF) کی گرے لسٹ میں شامل رکھنے کا کوئی جواز نہیں رہا۔ بھارت کافی عرصے سے پاکستان کو (FATF) کی بلیک لسٹ میں شامل کرانے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ پاکستان مالی مشکلات کا شکار رہے۔ امید ہے اب ہمارے وطن کا نام گرے لسٹ سے نکال کر وائٹ لسٹ میں شامل کر دیا جائے گا۔ کئی سال سے رُکی ہوئی معیشت ایک بار پھر سے چلنے کے امکانات پیدا ہو گئے ہیں۔ کاٹن انڈسٹری میں تیزی آئی ہے پراپرٹی کی قیمتیں بڑھنا شروع ہو گئی ہیں۔کاٹن و ٹیکسٹائل کو ایکسپورٹ آرڈر مل رہے ہیں ۔ تاہم صوبوں کے ترقیاتی بجٹ کے استعمال میں سست روی ہے پنجاب نے پچھلے سال 44 فیصد جبکہ کے پی کے نے صرف 35 فیصد بجٹ استعمال کیا۔ یہ غفلت کس کے سر ڈالنی چاہئے۔ گڈ گورننس شفافیت سے دور ہے ، فرائض کی انجام دہی میں مستعدی دکھائی نہیں دے رہی ۔ تنخواہیں نہ بڑھنے اور انکریمنٹ رکنے سے سرکاری ملازم اپنے فرائض سے عدم دلچسپی کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔