کشمیری عوام کے استحصال کی داستان
کشمیر کے مظلوم عوام کے استحصال کا آغاز دراصل 16 مارچ 1846 کو ہو گیا تھا جب اپنے آپ کو انسانی حقوق کا چیمپئین کہنے والے تاج برطانیہ ( ایسٹ انڈیا کمپنی ) نے کشمیر اور اس میں بسنے والے لاکھوں مسلمانوں کو بھیڑ بکریوں کی مانند مہاراجہ گلاب سنگھ کے ہاتھوں750000 روپے میں فروخت کر دیا تھا ۔ مہاراجہ نے اپنے عوام سے وعدہ کیا کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کریں گے لیکن بعد ازاں جب کشمیر کے غیر مسلم راجہ نے اپنی ریاست کے عوام کے ساتھ مکرو فریب اور غدار ی کی توغلامی کی زنجیروں میں جکڑے کشمیری مسلمانوں نے پہلی مرتبہ 1931 میں متحد ہو کر مہاراجہ ہری سنگھ کے خلاف تحریک آزادی کا آغاز کیا تھا اور اس تحریک کو کچلنے کے لیے مہاراجہ ہری سنگھ نے ہزاروں کشمیری زخمی اور شہید کر دیے تھے۔ اس بارے میں’’ گلینسی کمیشن‘‘ کی رپوٹ ( شائع شدہ اپریل 1932) میں تسلیم کیا گیا تھا کہ اس وادی کی اکثریتی آبادی یعنی مسلمانوں پر بے جا اور بے پناہ تشدد کیا جاتا ہے اوروہ بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں۔ اسکے بعدبھی کشمیری عوام اپنی آزادی کے لیے جدوجہد کرتے رہے یہاں تک کہ اگست 1947 میں سردار عبدا لقیوم کی سربراہی میں آزادیٔ کشمیر کی مسلح جدو جہد کا آغاز ہوا۔ لیکن حال ہی میں تحریک آزدی کشمیر میں نیا موڑگزشتہ برس5 اگست کو آیا جب کشمیرکے مہاراجہ اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے بعد بھارت نے بھی اقوام متحدہ میں کئے گئے اپنے تمام وعدوں کو بھلا کر اور اقوام متحدہ کی قراردادوں ( نمبر 38,39 ,47 ) کے خلاف اور کشمیر کی قانون ساز اسمبلی سے کسی قسم کی اجازت لیے بغیر یک طرفہ طور پر کشمیر کے بارے میں آرٹیکل 370 کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے کشمیر کو بھارتی وفاق کے زیر انتظام علاقہ قرا ر دے دیا۔ یہ سب نہ صرف اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی تھی بلکہ یہ اقدام کر کے بھارت نے اس مبینہ معاہدے کی بھی مکمل خلاف ورزی کی جس کے تحت بھارت یہ دعویٰ کرتا ہے کہ کشمیر کے راجہ نے بھارت کے ساتھ الحاق کیا تھا۔ یعنی کشمیری عوام کے ساتھ ساتھ کشمیر کے سابقہ سکھ راجہ کے ساتھ بھی بھارت نے مکاری اور فریب سے ہی کام لیا ہے۔ بہرکیف بھارت کے اس غیر قانونی اقدام کے بعد سے مقبوضہ کشمیر میں مکمل کرفیو نافذ ہے اور ٹیلی فون سمیت تمام ذرائع مواصلات بند ہیں۔ باقی تمام دنیا نے تو کرونا کے بعد لاک ڈوئون کا سامنا کیا ہے لیکن مقبوضہ کشمیر کی مظلوم عوام اگست 2019 سے ہی اپنے گھروں میں قید ہیں۔ بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ کشمیر کی وادی میں ہر آٹھ کشمیریوں کے لیے ایک بھارتی فوجی کی تعیناتی ہو، کشمیری بچوں پر برسنے والی پیلٹ گنز ہوں، بھارت کی دہشت گرد حکومت کی جانب سے نہتے کشمیریوں پر کلسٹر بموں کا استعمال ہو یا پھر کرونا کی موجودہ وبا، تمام ذرائع مواصلات پر مکمل پابندی اور باہر کی دنیا کو مقبوضہ وادی تک کسی قسم کی رسائی نہ ہونے کی وجہ سے کوئی نہیں جانتا کہ وہاں عوام کس حال میں ہیں ۔ اگر کرونا کی وبا کو ہی لے لیں تو کسی کونہیں معلوم کہ مقبوضہ کشمیر میں کرونا کی اصل صورتحال کیا ہے ،وہاں کے لوگ کس حال میں ہیں اور انہیں صحت کی کس قسم کی سہولیات میسر ہیں۔ لیکن جو علاقہ اتنے عرصے سے ایک جنگ اور قابض فوج کا سامنا کر رہا ہو وہاں ویسے ہی صحت کی کیا سہولیات ہونگی اسکا اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ بھارت نے حال ہی میں مقبوضہ کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے پچاس ساٹھ کلومیٹر اندر لانگ رینج توپیں نصب کی ہیں جو آبادی والے علاقے ہیں ۔ بھارتی افواج کا خیال ہے کہ آبادی کے اندر اور بالکل نزدیک ہونے کی بنا پر پاک فوج ان توپوں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کر سکے گی۔ دوسرے الفاظ میں بھارت علاقے کی سول آبادی کو ’’ ہیومن شیلڈ‘‘ کے طور پر استعمال کر رہا ہے جو کہ سنگین جنگی جرم ہے۔ صحت کی بات کریں تو اطلاعات کے مطابق مقبوضہ کشمیر ہر ستر ہزار کی آبادی کے لیے صرف ایک وینٹی لیٹر میسر ہے۔ آبادی اور وینٹی لیٹروں میں یہ تناسب دنیا میں سب سے کم ہے۔اتنا ہی نہیں بلکہ ہر چار ہزار نفوس کو صرف ایک ڈاکٹر کی سہولت میسر ہے اور جو تھوڑے بہت ڈاکٹر مقبوضہ وادی میں ہیں انہیں بھی انٹر نیٹ اور مواصلات پر پابندی ہونے کی وجہ سے کرونا کے علاج کے بارے میں جدید معلومات او ر گائیڈ لائنز تک رسائی نہیں ہے۔ پہلے سے ہی کرفیو کی وجہ سے تمام مقبوضہ کشمیر میں میڈیکل کے سامان ، مشینری اور ادویات کی شدید کمی ہے۔ ہم بھی کرونا میں ایسے گم ہوئے ہیں کہ شاید بھول ہی گئے ہیں کہ ہماری ’’ شہہ رگ‘‘ بھی اس وبا کا شکار ہے۔ کشمیر اسوقت اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر، اور کشمیر کے عوام کے حق میں اقوام متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں۔ یہ سب صورتحال کشمیر کو ایک متنازعہ علاقہ اور بھارتی افواج کو علاقے پر قابض طاقت ثابت کرتی ہیں اور چوتھے جنیوا کنونشن کے آرٹیکل 56 تا 59 کے مطابق قابض طاقت (کشمیر میں بھارت) کی ذمہ داری ہے کہ وہ مقبوضہ علاقے میں صحت اور صفائی کے مکمل اور تسلی بخش انتظامات رکھے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ علاقے کے مکینوں کو صحت کی مکمل سہولیات میسر رہیںاور ساتھ ہی یہ بھی کہ علاقے میں ادویات کی کمی نہ ہو اور سپلائی بحال رہے۔ضروری ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں آبادی کے تناسب سے وینٹی لیٹر میسر ہوںاور ساتھ ہی مواصلات کا نظام بشمول انٹر نیٹ بحال ہو۔اس کے ساتھ ساتھ اگریہ محسوس ہو کہ علاقے میں میڈیکل کی سہولیات ناکافی ہیں تو قابض فوج پر لازم ہے کہ وہ دنیا کے دیگر ممالک اور غیر سرکاری تنظیموں سے ملنے والی امداد مقبوضہ علاقے میں پہنچنے میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالے۔
ہمیں موجودہ حالات میں دنیا کو یہ باور کروانے کی ضرورت ہے کہ بھارت کے مقبوضہ کشمیر میں اقدامات عالمی قوانین کی خلاف ورزی اور جنگی جرائم ہیں۔ کرونا کی عالمی وبا میں کشمیر کے مظلوم عوام کو بھلایا نہیں جا سکتا۔ ہمیں کوشش کرنی چاہئیے کہ عالمی برادری بھارت کو مجبور کرے کہ وہ نہ صرف کشمیر میں صحت کی صورتحال کے بارے میں تمام دنیا کو بتائے بلکہ عالمی اداروں کو مقبوضہ علاقے تک رسائی بھی دے تاکہ اصل اور درست صورتحال معلوم ہو سکے۔ یوم استحصال اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی لیکن یہ سلسلہ رکنے کی بجائے روزانہ کی بنیاد پر جاری رہنا چاہئیے۔