پیر ‘19 ؍ ذوالحج 1441 ھ‘ 10؍ اگست 2020ء
عالمی بنک کا پاکستان اور بھارت کے درمیان آبی تنازع میں ثالثی سے انکار
یوں اب نہ تو غیرجانبدار ماہر کا تقرر ہوگا نہ ثالثی عدالت میں ہم جائیں گے۔ ایک طرف حکمران اپنی خارجہ پالیسی کی کامیابی کا اعلان کرتے کرتے نہیں تھکتے‘ دوسری طرف یہ حالت ہے کہ عالمی سطح پر ہمیں کہیں بھی پذیرائی نہیں مل رہی۔ مسئلہ کشمیر پر عالمی بے حسی اور مسلم ممالک کی خاموشی ہماری کامیاب خارجہ پالیسی کی نمایاں دلیل ہے۔ اب بھارت کے ساتھ آبی مسائل پر عالمی بنک نے جس طرح ہمیں ہری جھنڈی دکھائی ہے‘ اس کو بھی کیا ہماری کامیاب پالیسی ہی کہا جائے گا۔ بھارت کے ساتھ آبی تنازعات میں عالمی بنک کے ساتھ طویل عرصے سے پاکستان اور بھارت دونوں رابطے میں ہیں مگر بھارت پاکستان کے حصے کے پانی میں ڈنڈی مارنے سے باز نہیں آتا۔ پاکستان کو ملنے والے دریائوں‘ برساتی نالوں پر بے تحاشا ڈیم بنا کر ان دریائوں کو سوکھے نالے میں تبدیل کر رہا ہے۔ خود ہماری حالت یہ ہے کہ ہم منگلا اور تربیلا ڈیم بنانے کے بعد سو گئے اور کالاباغ ڈیم جیسا اہم منصوبہ بھی سیاست پر قربان کر دیا۔ جب پانی کی قلت نے ہمیں جھنجھوڑا تو ہمیں بالاخر ’’سب کچھ لٹا کے ہوش میں آ ہی گیا‘‘ مگر تب تک‘ کافی دیر ہو چکی ہے۔ ہمارے آبی ماہرین خدا جانے عالمی بنک میں آبی تنازعات کا کیس مؤثر طریقے پر پیش کیوں نہ کر سکے۔ ان ماہرین کو ہی اٹھا کر دریا برد کر دیا جائے تو بہتر ہے جو لاکھوں روپے ماہانہ کی تنخواہ اور مراعات لیکر ناکام و نامراد رہتے ہیں۔ بھارت آبی دہشت گردی کرکے ہمیں بنجر بنانا چاہتا ہے۔ ہمیں ہر حال میں اسے روکنا ہوگا۔ خواہ بھارت کے پاکستان پر بنائے ڈیموں کو بم مار کر ہی کیوں نہ اڑانا پڑے۔ کشمیر پر ہماری نرم پالیسی کے بعد اب آبی تنازعات پر ہماری نرمی اونٹ کی پیٹھ پر آخری تلک ثابت ہو سکتی ہے۔ بھارت ہمیںبنجر بنا کر اور سیلاب میں ڈبو کر مارنا چاہتا ہے۔
٭…٭…٭
تاریخی مسجد وزیرخان میں فلمی نغمے کی شوٹنگ کی مذمت
مسجد وزیرخان صرف ایک تاریخی عمارت ہی نہیں‘ یہ ایک مسجد ہے جو کئی سو سال سے مسلمانوں کی عبادت گاہ ہے۔ اس لئے اس میں فلمی شوٹنگ ہو یا گانے کی شوٹنگ‘ نہایت معیوب امر ہے۔ اب اس کا گناہ ان لوگوں کے سر ہے جنہوں نے یہ غلط کام کیا۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں خوبصورت اور تاریخی مساجد میں نکاح اور اس کے بعد فوٹو شوٹ کے نام پر جس طرح دولہا دلہن اور ان کے دوست احباب تصاویر کھنچواتے اور ویڈیوز بناتے ہیں۔ اسی کے دیکھا دیکھی اب فلم بنانے والوں میں بھی جرأت ہوتی ہے کہ وہ مساجد میں شوٹنگ کا سوچنے لگے ہیں۔ مساجد اللہ کا گھر ہیں۔ ان میں ایسی بے ہودگی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ تاریخی مسجد سیاحوں کیلئے تو کھولی جا سکتی ہیں۔ فلمبندی کیلئے نہیں۔ ایسا کرنے والوں کو توبہ کرنی چاہئے۔ اب مذہبی حلقے اس بارے میں جہاں شدید غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں‘ عوام بھی اس بات سے ناراض ہیں۔ بات بڑھانے سے بہتر ہے کہ آئندہ شاہی مسجد ہو یا وزیرخان مسجد یا ٹھٹھہ کی شاہ جہانی مسجد ہو یا بحریہ ٹائون کی نئی مسجد‘ ان میں ایسے کاموں پر پابندی لگائی جائے جس سے مسجد کے تقدس پر حرف آتا ہو۔ خانہ خدا کو نگارخانہ بنانا کسی طور درست نہیں۔ پہلے ہی ہمارے اعمال کونسے ایسے ہیں کہ ہم غضب الٰہی کو مزید دعوت دے رہے ہیں۔ ان مساجد پر تحقیقاتی اور ڈاکومنٹری فلم بنانا درست ہے مگر یہاں فلمی شوٹنگ کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
٭…٭…٭
35 لاکھ پودے لگیں گے‘ شجرکاری مہم شروع ہوگئی
حکومت کی ماحول دوست سرسبز پاکستانی پالیسی کے تحت ملک بھر میں 35 لاکھ سے زیادہ پودے لگانے کی مہم کا آغاز ہو گیا ہے۔ حکومت نے عوام سے اپیل کی ہے کہ ہر پاکستانی کم از کم ایک درخت ضرور لگائے تاکہ پاک سرزمین سروسز و شاداب نظر آئے اور ملک کو ماحولیاتی تبدیلی کے یہ اثرات سے پاک رکھا جا سکے۔ اس وقت ہمارے ملک میں جنگلات کا رقبہ نہایت کم ہے۔ شہروں یا دیہات ہر جگہ بے دریغ طریقہ سے درختوں کی کٹائی کی وجہ سے ہمارے موسموں کا نظام بھی شدید متاثر ہوا۔ ملک بھر میں گرمی بڑھ رہی ہے۔ بارشیں کم ہو رہی ہیں۔ خشک سالی سے طرح طرح کی بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ اگر ہمیں اپنے آنے والی نسلوں کو تندرست و توانا رکھنا ہے تو انہیں ورثے میں ہمیں سرسبز و شاداب پاکستان دینا ہوگا۔ درخت ہماری زندگیوں کیلئے بہت اہم ہیں۔ یہ دن کو ہمیں آکسیجن گیس فراہم کرتے ہیں جس سے ہم سانس لیتے ہیں اور زندہ ہیں۔ رات کو بھی درخت ہماری خارج کردہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرتے ہیں جو زہریلی گیس ہے اس لئے ہمیں حکومت کے ساتھ مل کر ملک کو سرسبز بنانے اور شجرکاری کی اس مہم کو کامیاب بنانا ہوگا۔ کشمیر کے مشہور صوفی نورالدین قریشی نے کیا خوب کہا تھا ’’خوراک تب وافر ملے گی جب جنگل ہرے بھرے ہونگے۔‘‘ یہی درخت بارش برسانے میں معاون ہوتے ہیں اور زمین کی زرخیزی بڑھاتے ہیں۔ زلزلوں اور سیلابوں سے تحفظ دلاتے ہیں اس لئے آیئے ہم سب اپنے اپنے حصے کا ایک ایک درخت لگائیں۔ شہروں کو شاداب بنائیں۔
٭…٭…٭
اوپئی کچہری تے اوپیا تھانہ۔ کرلو جو کرنا‘ اساں باز نہیں آنا‘ کہنے والا منشیات فروش گرفتار
فارسی میں ایسے ہی بدمست افراد کو گاڈ و خر کہہ کر ان کی شان بیان کی گئی ہے۔ یہ بیل اور گدھے جیسے بددماغ لوگ ایک تو غلط کام کرتے ہیں اوپر سے شرمندہ بھی نہیں ہوتے۔ الٹا اپنی خرمستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسے شعروں پر رقص کرتے ہوئے ویڈیو بھی بنواتے ہیں کہ جو کرنا ہے کر لو۔ ہم اپنے دھندے سے باز نہیں آئیں گے۔ اب وہاڑی میں پولیس کو چیلنج کرنے والا یہ منشیات فروش شراب سمیت گرفتار ہونے پر ٹک ٹاک بنانے پر معافیاں مانگتا پھرتا ہے مگر پولیس کا بھی سب کو پتہ ہے کہ وہ صرف معافی تلافی پر معاملہ ٹھنڈا ہونے نہیں دے گی۔ شاعر نے سچ ہی کہا تھا؎
یہ اپنی مستی ہے جس نے مچائی ہے ہلچل
نشہ شراب میں ہوتا تو ناچتی بوتل
اب منشیات فروش کی تھانے میں خوب آئو بھگت ہو رہی ہوگی اور لگ پتہ جائے گا۔ اس نے باز آنا ہے یا نہیں۔ ہمارے ایک سابق وزیراعظم کے
ہنگامہ ہے کیوں برپا تھوڑی سی جو پی لی ہے
چوری تو نہیں کی ہے ڈاکہ تو نہیں ڈالا
جیسے بیان پر جو ہنگامہ اٹھا تھا‘ شور برپا ہوا تھا‘ اس کی باز گشت آج بھی ہمارے سیاسی ماحول میں سنی جاتی ہے۔ جب ان کو رعایت نہیں ملی تو یہ منشیات فروش کس کھیت کی مولی ہے۔ اسے بھی مزہ آجائے گا۔