او آئی سی کے بھرپور کردار سے مسئلہ کشمیرکے حل کی سبیل نکل سکتی ہے
بھارت علاقائی بدمعاشی چھوڑ دے، مہاتیر محمد کا ایک بار پھر کشمیریوںکی دو ٹوک حمایت کا اعلان
ملائیشیا کے سابق وزیراعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں انسانیت کے لیے مقبوضہ کشمیر کے عوام کے ساتھ کھڑا ہوا تھا۔ مسئلہ کشمیر پر خاموش رہنا آپشن نہیں، عالمی برادری نوٹس لے۔ بھارت کو چاہئے کہ ’’علاقائی بدمعاش‘‘کا کردار چھوڑ کر ایک ملک کی طرح سامنے آئے۔کوالالمپور میں یوم یکجہتی کشمیر کے عنوان سے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مہاتیر محمدکا کہنا تھا کہ بین الاقوامی دنیا کی طرف سے ممکنہ رد عمل سے آگاہ ہونے کے باوجود بھی مقبوضہ کشمیر کے عوام کے لیے بولنے کا انتخاب کیا تھا۔ میرے ذہن میں خاموش رہنا کوئی آپشن نہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ کشمیری سخت فوجی محاصرے میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے معاملے پر بولنے پر ملائیشیا نے پام آئل کی بر آمد پر پابندی کی صورت میں معاشی قیمت چکائی۔ میں نہیں جانتا کہ ناانصافیوں کے خلاف آواز اٹھانے پر اتنی بڑی قیمت اٹھانا پڑتی ہے۔ میں نے اقوام متحدہ پر بھارت کے خلاف جو کہا اس پر کبھی معافی نہیں مانگوں گا۔ سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں وہی کر رہا ہے جو اسرائیل فلسطین میں کررہا ہے، اسرائیل نے فلسطین میں دہشتگردانہ حربوں اور قتل عام کے ذریعہ فلسطینیوں کو دبایا ہے۔ دوسری طرف وزیراعظم عمران خان نے مقبوضہ کشمیر کے حق میں آوازاٹھانے پر ملائیشیا کے سابق وزیراعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد سے اظہار تشکر کیا ہے۔
مسئلہ کشمیر 72 سال سے اقوامِ متحدہ کے ایجنڈے پر ہے۔ اس سے پرانا کوئی ایسا ایشو نہیں جو اتنے طویل عرصے سے قراردادوں کے باوجود موجود ہو۔ فلسطین بھی کم و بیش اتنے ہی عرصہ سے مسلمانوں کے لیے ستم کدہ اورمقتل بنا ہوا ہے۔ ہر دو علاقوں میں انسانیت کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں، انسانی حقوق کی بدترین پامالی کی جاتی ہے۔ بچوں و خواتین سمیت بے گناہ انسانوں کے خون سے سرزمین فلسطین اور کشمیر سرخ ہو رہی ہے مگر مسئلہ کشمیر اور فلسطین بدستور لاینحل چلے آ رہے ہیں۔ ان کی بدتری کی بات کی جائے تو ان ایشوز کے آغاز کار کے مقابلے میں آج ابتری کئی گناہ زیادہ بڑھ چکی ہے۔ اقوامِ متحدہ اور اقوامِ عالم کے بااثر ممالک کے اپنے ذمہ داریوں سے روگردانی کے باعث اتنے طویل عرصہ یہ ایشوز حل نہیں ہو سکے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی طرف سے مسلمانوں اور اسلام سے ایک تعصب کا عنصر بھی موجود ہے۔ شاید یہ تعصب ہی مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین کے حل کی راہ میںرکاوٹ ہے۔ اس کی بہت بڑی مثالیں مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان ہیں جن کو دنوں میں اس لیے آزادی دلا دی گئی کہ جہاں آزادی کی خواستگار مسیحی آبادی اور ان کو مسلم ممالک سے آزادی دلانا مقصود تھا۔ انسانیت فلسطین اوربھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ کشمیر میں سسک رہی ہے مگر انسانیت کے علمبرداروں کے ضمیر پر اس طرح کی تڑپ پیدا نہیں ہو رہی جو مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان کی آبادی کے لیے پیدا ہوئی تھی حالانکہ سوڈان اور انڈونیشیا میں آزادی کی بات کرنے والی قومیتوں کے خلاف کسی قسم کے مظالم نہیں ہو رہے تھے۔ اقوام متحدہ اور بااثر ممالک کے سامنے بھارت کے کشمیریوں پر بھیانک مظالم کی تصویر آئی ، جس میں انسانیت کو بلکتے اور سسکتے دیکھا گیا۔ اس پر اقوام متحدہ سمیت دنیا بھرمیںتشویش کا اظہار اور بھارت کی مذمت کی گئی۔ کیا تشویش اورمذمت سے مشرقی تیمور ، جنوبی سوڈان کی آزادی، افغانستان میں طالبان اور عراق میں صدام حکومت کا خاتمہ ممکن ہو سکتا تھا؟
ماضی کی طرح حال اور مستقبل میں اقوام متحدہ اور بااثر ممالک سے کشمیریوں کو حق خودارادیت دلانے کی امید عبث ہے۔ کشمیری اپنی آزادی کے لیے جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں وہ کسی پابندی ، بربریت اور سفاکیت کو خاطر میں نہیں لا رہے۔ آزادی کے لیے ان کے عزم صمیم میں کوئی کمی نہیں آ رہی مگر ان کی قربانیوں کا سلسلہ کہاں جا کر رُکے گا؟ کیا دنیا آخری کشمیری کے اپنے حق کے حصول کی خاطر مرنے کا انتظار کرے گی؟ ماضی کے عالمی برادری کے رویوں کے پیش نظر دکھائی تو ایسا ہی دیتا ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ کشمیریوں کی اخلاقی اور سفارتی مدد کی ہے گزشتہ سال 5 اگست کے کشمیر پر تسلط مضبوط کرنے اور مسلم آبادی کے توازن کو ہندوئوں کے حق میں کرنے کے اقدام کے بعد پاکستان سود زیاں کے حساب سے بالا ہو کر کشمیر کے ساتھ کھڑا ہو گیا ہے۔ امریکی جریدے ٹائم میگزین میں شائع ہونے والی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بھارتی غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر میں مسلم اکثریتی تشخص کے لیے خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے۔ گزشتہ ایک ماہ کے دوران 4 لاکھ غیر ریاستی شہریوں کوجموں و کشمیر کی شہریت دی گئی۔ آج پاکستان اور بھارت اس ایشو کے باعث عسکری حوالے سے بھی ایک دوسرے کے مقابل آ چکے ہیں ، حالات بدستور دگرگوں ہیں کسی وقت بھی کشیدگی کی چنگاری جنگ کے شعلے بھڑکا سکتی ہے۔ شایدیہ ممکنہ جنگ ایٹمی جنگ میں بدلنے میںلمحوں کی بھی دیری نہ ہو۔ اس کا ادراک مسلم امہ کو ہونا چاہئے۔
اقوامِ متحدہ کے بعد اور آئی سی دنیا کی طاقتور ترین 57 ممالک کی تنظیم ہے مگر آپس کے اختلافات نے اس کے تن بدن سے طاقت کشید کر کے اسے کمزور تر بنا دیا ہے یہ آج بھی مصلحتوں سے بالا ہو کر مضبوط ہو سکتی ہے۔
مہاتیر محمد نے اسلامی دنیا کے رہنما کا کردار ادا کیا ہے۔ ترکی اور ایران بھی مضبوطی اور ثابت قدمی سے پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں او آئی سی بھی اپنے پائوں پر وزن ڈالے تو مسئلہ کشمیر کے حل کی یقیناً سبیل نکل سکتی ہے۔